Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 105
حَقِیْقٌ عَلٰۤى اَنْ لَّاۤ اَقُوْلَ عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
حَقِيْقٌ : شایان عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ لَّآ اَقُوْلَ : میں نہ کہوں عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِلَّا الْحَقَّ : مگر حق قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ : تحقیق تمہارے پاس لایا ہوں نشانیاں مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَرْسِلْ : پس بھیج دے مَعِيَ : میرے ساتھ بَنِيْٓ اِ سْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں ، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر آیا ہوں ، لہذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے
حَقِيْقٌ عَلٰٓي اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ ۔ " میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں " اس لئے کہ جو رسول حقیقت الوہیت سے خبردار ہے وہ اللہ کے بارے میں سچ کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتا ہے کیونکہ وہ مقام خدائی اور مرتبہ کبریائی سے خبردار ہوتا ہے۔ " میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر آیا ہوں " اور یہ ایسی دلیل ہے جو میری بات کی صداقت پر بین دلیل ہے کہ میں رب العالمین کی طرف سے ہوں "۔ اب اس عظیم حقیقت کے عنوان سے اور اللہ کی ربوبیت عامہ اور حاکمیت شاملہ کے نظریہ کے تحت حضرت موسیٰ نے یہ مطالبہ کیا کہ فرعون بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ کے ساتھ واپس اپنے وطن جانے کی اجازت دے دے۔ بنی اسرائیل صرف اللہ کے بندے اور غلام تھے۔ لہذا فرعون کو یہ حق نہ پہنچتا تھا کہ وہ انہیں اپنا بندہ اور غلام بنا لے کیونکہ کوئی بھی انسان دو آقاؤں کا غلام نہیں بن سکتا۔ نہ وہ دو الہوں کا معبود بن سکتا ہے ، جو شخص عبداللہ ہو وہ کسی اور کا عبد نہیں ہوسکتا۔ ایک طرف فرعون بنی اسرائیل کو اپنی خواہشات کا غلام بنا رہا تھا اور دوسری جانب حضرت موسیٰ یہ اعلان کر رہے تھے کہ صرف اللہ ہی رب العالمین ہے صرف ربوبیت الہیہ کے اعلان ہی سے اس بات کی نفی ہوجاتی ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو جو غلام بنا رکھا ہے وہ کالعدم ہے۔ یہ اعلان کہ صرف اللہ رب العالمین ہی ہمارا حاکم اور رب ہے ، بذات خود ہی انسان کی آزادی کا چارٹر ہے اور اس اعلان کے ساتھ ہی ایک انسان غیر اللہ کی غلامی ، اطاعت اور قانون سے آزاد ہوجاتا ہے۔ وہ انسانی غلامی ، اپنی خواہشات کی غلامی ، انسانی رسومات کی غلامی اور انسانی قانون و حرکت کی غلامی سے آزاد ہوجاتا ہے۔ لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی اللہ کی رب العالمینی کا اعلان بھی کرے اور پھر غیر اللہ میں سے کسی کی غلامی کا دم بھی بھرے۔ اس اعلان کے ساتھ کسی غیر اللہ کی حکومت و اقتدار جمع ہوسکتا اور نہ کسی اور کا قانون جمع ہوسکتا ہے۔ جو لوگ یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور اس کے بعد وہ اپنے ہاں وہ قوانین جاری کئے ہوئے ہیں جو انہی جیسے انسانوں نے بنائے ہیں یا خود انہوں نے بنائے ہیں اور ان کے ہاں اللہ کے سوا کسی اور کی حاکمیت رہی ہے تو یہ لوگ ایک بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں اور وہ ایک لحظہ کے لئے بھی مسلمان نہیں ہوسکتے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ان پر حاکمیت غیر اللہ کی ہو اور وہ دین اللہ میں داخل ہوں۔ ان کے ہاں رائج قانون ، قانون شریعت نہ ہو اور وہ مسلمان بھی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے حالات میں وہ اپنے ملوک اور حکام کے دین پر تو ہوتے ہیں لیکن اللہ کے دین پر نہیں ہوتے۔ یہی وہ نظریہ تھا جس کی بنا پر حضرت موسیٰ نے فرعون سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ان کے ساتھ بنی اسرائیل کو واپس جانے دے۔ ذرا ان فقرات کو دوبارہ پڑھئے " اے فرعون میں رب العالمین کا رسول ہوں ""۔۔۔ " لہذا میرے ساتھ بنی اسرائیل کو رخصت کیجئے "۔ بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ اس اساس پر ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور رسالت کا یہ منطقی نتیجہ ہے کہ لوگوں کو غلامی سے رہا کیا جائے۔ یہ لازم و ملزوم امور ہیں۔
Top