Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 108
قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْكُمْ وَ الْقَآئِلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَا١ۚ وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ
قَدْ يَعْلَمُ : خوب جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْمُعَوِّقِيْنَ : روکنے والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَالْقَآئِلِيْنَ : اور کہنے والے لِاِخْوَانِهِمْ : اپنے بھائیوں سے هَلُمَّ : آجاؤ اِلَيْنَا ۚ : ہماری طرف وَلَا يَاْتُوْنَ : اور نہیں آتے الْبَاْسَ : لڑائی اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : بہت کم
خدا تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو (لوگوں کو) منع کرتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ اور لڑائی میں نہیں آتے مگر کم
18 تا 22۔ اوپر ذکر تھا کہ جنگ اجزاب کے قوت جب مسلمانوں کا مقام مدینہ منورہ کے باہر تھا مسلمان اس وقت بڑی تکلیف میں تھے جاڑے کا موسم ٹھنڈی ہوا میں میدان کا رہنا خندق کا کھودنا بھوک کی جدا تکلیف ایسی حالت میں یہودنے تو بڑے خیر خواہ بن کر عبداللہ بن ابی اور اسکے ساتھی ان منافقوں نے جو ظاہر میں مسلمان اور آنحضرت کے لشکر میں تھے ورپردہ یہ پیغام کہلا بھیجا کہ تم آنحضرت کے ساتھ ہو کر ہرگز نہ لڑوان تھوڑے سے مسلمانوں کی کسی طرح یہ قدرت نہیں ہے کہ ابوسفیان قریش کے سردار کا مقابلہ کرسکیں اور منافقوں نے بڑے خیر خواہ بن کر اس طرح بہکانے کی باتیں مسلمانوں سے خفیہ کہنی شروع کردیں کہ لشکر میں رہنے کا اب موقع نہیں چلو اپنے اپنے گھروں کو پلٹ چلیں ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کا حال اپنے رسول اور مسلمانوں کو ظاہر کردیا اور فرمایا کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے اپنی جان اپنا مال بچانے کے لیے یہ لوگ تھوڑی سی دیر کے لیے لڑائی میں شریک ہوئے ہیں اس لیے یہ خود بھی لشکر اسلام کے ساتھ دینے میں دریغ کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی طرح طرح سے بہکار ہے ہیں اور رسول کا ساتھ دینے سے ان کی ہمت پست کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اس کو یہ سب حال معلوم ہے پھر مسلمانوں کی منافقوں کی نشانی بتلادی کہ جو لڑائی کے وقت ایسی نامردی کی باتیں کریں کہ ان کے چہروں پر مرونی چاگئی ہے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی پتھر اکررہ گئیں اور پھر تکلیف کے جانے کے بعد لوٹ کا ما تقسیم ہونے کے وقت بہت بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے اور اپنی بہادری جتلاتے ہیں وہی منافق ہیں کیوں کہ جو لوگ خالص مسلمان ہیں اور محض آخرت کے اجر کی غرض سے لڑتے ہیں نہ وہ دشمن کے غلبہ کے وقت گھبرا کر اس طرح نامردی کی باتیں کرتے ہیں نہ ان کو لوٹ کے مال کی کچھ پر واہ ہے نہ وہ دنیا میں کسی کو اپنی بہادری جتلانا چاہتے ہیں ان کا تو جو معاملہ ہے خالص اللہ کے ساتھ ہے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں اجردے گا یہ اوپری دل سے جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ ہیں ان کو اللہ کی درگاہ سے اجر کی توقع نہیں رکھنا چاہیے ایسے اوپرے دل کے سب کام اللہ تعالیٰ کے ہاں اکارت ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کے دلوں کا حال معلوم ہے اس لیے اوپرے دل کے عملوں کا حال جان لینا اور ان کو بلا اجر ٹھہا دینا اس کے نزدیک کچھ مشکل نہیں البتہ انسان کے نزدیک یہ بات مشکل اور اس کے اختیار سے خارج ہے پھر آجائیں گی پھر فرمایا کہ اگر وہ فوجیں پھر کر آجائیں تو یہ لوگ آرزو کرتے کہ ہم اس وقت مسلمانوں کے لشکر میں نہ ہوتے بلکہ کہیں اور پر پرے گاؤں میں ہوتے اور دور سے ہی اس لڑائی کی خبر سن لیتے تو اچھا ہوتا پھر فرمایا اگر فوجیں پھر کر آجاویں اور لڑائی کا موقع پیش آجائے تو لشکر اسلام کو ایسے لوگوں کے موجود ہونے کے کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا کیوں کہ ان لوگوں کے دل میں عقبی کے اجر کا یقین نہیں ہے اس واسطے یہ لوگ برائے نام لشکر اسلام کا کچھ ساتھ دے کر لڑائی میں زیادہ دیر تک ہرگز نہ ٹھہر سکتے جو لوگ اس لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے بلکہ مدینہ میں رو گئے تھے اب آگے ان کو نصیحت فرمائی کہ جن لوگوں کو عقبیٰ کے اجر کی توقع ہے انہیں ہر حال میں اللہ کے رسول کا ساتھ دنیا اور اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا چاہیے آگے کی آیت میں مسلمانوں کی ثابت قدمی اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا جاننے کا جو ذکر ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق یہ وعدہ وہی ہے جو سورة بقرہ کی آیت ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولمایاتکم مثل الذین خلو من قبلکم میں گزرا کہ کس قدر آزمائش کے بعد ثابت قدم مسلمانوں کا انجام دونوں جہان میں اچھا ہوگا دنیا میں ان کو مدد الٰہی سے فتح مندی حاصل ہوگی اور آزمائش کے وقت صبر کرنے کے اجرم میں انہیں عقبیٰ میں جنت ملے گی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے اس قول کے موافق اس آیت کی تفسیر کا حال یہ ہے کہ ایماندار لوگ نوجوں کو دیکھ کر کچھ گھبرائے نہیں بلکہ انہیں نے یہی کہا کہ اللہ کے وعدہ میں جس آزمائش کا ذکر تھا یہ وہی آزمائش ہے یہ کہہ کر انہوں نے اپنے انجام کو اللہ پر سونپ دیا اور آخر کار فتح اسلام کے وعدہ پر ان کا یقین اور بڑھ گیا اور وہ سمجھ گئے کہ وعدہ کے ایک ٹکڑے کا جب ظہور ہوگیا تو اب دوسرے ٹکڑے کا ظہور بھی ہوگا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے اس آیت کے تین برس کہ بعد مکہ فتح ہوگا اور وہ قریش جو مکہ سے مدینہ پر چڑھ کر آئے ہے خود مکہ میں بھی اسلام کے فرمانبرداربن گئے وہ ابوسفیان جو جنگ اجزاب میں مشرکوں کے لشکر کا سردار تھا فتح مکہ پر اسلام لاتے ہی پھر ان کا گھر وارالامن ٹھہر گیا کہ عام امن سے پہلے جو کوئی ان کے گھر میں چلا گیا اس کو امن مل گیا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل کام کری گے اور کتنے جب میں داخل ہونے کے قا ابل اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں بد ٹھہر چکے تھے اس لڑائی میں ان سے مرضی الٰہی کے مخالف کام ظہر میں آئے اور جو لوگ علم الٰہی میں نیک قرار پاچکے تھے ان سے مرضی الٰہی کے موافق کام ظہر میں آئے اشحۃ علیکم اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ لشکر اسلام کی مدد میں خود بھی تنگدل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی سکھاتے ہیں اشحۃ علی الخیر اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے مستحق کو لوٹ کے مال میں سے حصہ دیا جاوے تو اپنی تنگ دل دلی سے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ سارا مال یہی سمیٹ لیویں اور کسی کو کچھ نہ دیا جاوے ‘ شاہ صاحب نے ” ہے پڑتے ہیں مال پر “ جو ترجمہ کیا ہے اس کا یہی مطلب ہے۔
Top