Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 116
حَقِیْقٌ عَلٰۤى اَنْ لَّاۤ اَقُوْلَ عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
حَقِيْقٌ : شایان عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ لَّآ اَقُوْلَ : میں نہ کہوں عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِلَّا الْحَقَّ : مگر حق قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ : تحقیق تمہارے پاس لایا ہوں نشانیاں مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَرْسِلْ : پس بھیج دے مَعِيَ : میرے ساتھ بَنِيْٓ اِ سْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
میں اس بات پر قائم ہوں کہ اللہ کی طرف سے بجز سچ کے اور کچھ نہ کہوں۔ بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے میں بڑی نشانی لایا ہوں سو تو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دے۔
ترکیب : حقیق فعیل خبر مبتداء محذوف کی ای انا فا ذاللفاجاۃ یہ ظرف مکان کے لئے ہے ھی مبتداء ثعبان خبر ان ھذایر ید قال کا مفعول۔ لاجرا اسم ان لنا خبر جملہ دال بر جزا ان کنا یہ تمام جملہ مقولہ ہے قالوا کا۔ فلما القوا شرط سحروا واسترھبوا جواب۔ وجاؤ جملہ مستانفہ یا معطوفہ۔ تفسیر : قصہ موسیٰ و فرعون : یہ چھٹا قصہ موسیٰ کا ہے چونکہ یہ بہت بڑا واقعہ ہے اس لئے اس کو ان پہلے واقعات سے فصل دے کر بیان فرمایا یعنی ان واقعات کا نتیجہ تمام کرکے اس کو شروع کیا گیا۔ گرچہ یہ قصہ متعدد مطالب کے ادا کرنے کے واسطے قرآن میں متعدد جگہ آیا ہے لیکن اس جگہ بہت کچھ ذکر ہوا ہے۔ تفسیر سورة بقرہ میں ہم اس کو نہایت تفصیل کے ساتھ مع جغرافیہ مصر و قلزم و تیہ بیان کرچکے ہیں اس لئے اس جگہ اعادہ کرنا طول دینا ہے۔ (1) فرعون۔ اس لفظ کو اہل لغت نے تفرعن سے مشتق بتایا ہے کہ جس کے معنی متکبر کے ہیں لیکن اصل یہ ہے کہ یہ فَرُوہئُ سے لیا گیا جس کے معنی لغت قدیم مصر میں شہنشاہ اعظم کے ہیں۔ عربوں نے معرب کرکے فرعون بتایا اور اس کی جمع فراعنہ بنائی۔ فرعون کسی بادشاہ کا نام نہیں بلکہ شاہان مصر کا لقب ہے۔ ہر بادشاہ کو فرعون کہتے تھے جو مصربن حام بن نوح کی نسل سے تھے۔ جس طرح ہندوستان میں راجہ اور قدیم روم کے بادشاہوں کو قیصر کہتے تھے۔ سلطنت مصر کے چار دور ہیں۔
Top