Tafseer Ibn-e-Kaseer - Ash-Shu'araa : 221
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُؕ
هَلْ : کیا اُنَبِّئُكُمْ : میں تمہیں بتاؤں عَلٰي مَنْ : کسی پر تَنَزَّلُ : اترتے ہیں الشَّيٰطِيْنُ : شیطان (جمع)
” لوگو ، کیا میں تمہیں بتائوں کہ شیاطین کس پر اترا کرتے ہیں ؟
ھل انیئکم ……کذبون (041) عربوں میں کاہن ہوا کرت ی تھے ، ان کا دعویٰ یہ تھا کہ جن انہیں غیب کی خبریں دیتے ہیں اور لوگ ان کے ہاں جاتے تھے اور ان کی پیش گوئیاں سنتے تھے ان کاہنوں میں سے اکثر جھوٹے ہوتے تھے۔ ان کاہنوں کی تصدیق وہ لوگ کرتے تھے جو ہر قسم کے اوبام اور ہر قسم کے افسانوں پر یقین کرنے کے لئے تیار ہوتے تھے لیکن یہ کاہن بہرحال لوگوں کو کسی بھلائی کی طرف نہ بلاتے تھے اور نہ لوگوں کی قیادت راہ ایمان کی طرف کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا حال ان سے بہت مختف تھا۔ رسول اللہ کو قرآن کے ذریعہ ایک نہایت ہی ٹھوس نظام زندگی کی طرف بلاتے تھے۔ یہ کاہن قرآن کے بارے میں کبھی کہتے یہ شعر ہے اور حضور ﷺ کے بارے میں کہتے کہ آپ شاعر ہیں۔ لیکن وہ حیران تھے کہ یہ قرآن بہرحال ایک بےمثال کلام ہے ، لوگوں کے دلوں تک اثر جاتا ہے۔ لوگوں کے اندر ایک نیا شعور پیدا کرتا ہے اور اس کے اس قدر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں کہ عوام اسے رد نہیں کرسکتے۔ چناچہ اس سورت میں اس نکتے کی وضاحت کردی گئی کہ نبی ﷺ جو نظام پیش کر رہے ہیں اور قرآن کریم جو نظام پیش کر رہا ہے ، یہ کوئی شاعرانہ کلام اور سوچ نہیں ہے۔ قرآن کریم ایک ہی نظریہ اور ایک ہی منہاج پر اول سے آخر تک چل رہا ہے۔ اس کے سامنے ایک ہی متعین مقصد اور نصب العین ہے۔ وہاپین نصب العین کی طرف سیدھا آگے بڑھ رہا ہے اور رسول اللہ ﷺ کا بھی وہیمنہاج ہے۔ یہ نہیں ہے کہ آپ ٓج ایک بات کریں اور کل اسکے برعکس بات کریں۔ آپ کبھی بھی بدتے ہوئے میلانات و رجحانات اور وقتی خواہشات کے پیچھے نہیں پھرتے۔ ایک ہی دعوت ہے جسے آپ لے کر آئے ہیں اور وہی دے رہے ہیں۔ ایک ہی عقیدہ ہے جو آپ پیش فرما رہے ہیں اور آپ ایک ایسے منہاج کے مطابق کام کر رہے ہیں جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے۔ جبکہ شعراء ایسے نہیں ہوتے۔ شعراء بدلتے ہوئے تاثرات اور وقتی جذبات کے اسیر ہوتے ہیں۔ ان پر ان کے شعور کی حکمرانی ہوتی ہے۔ جس طرح شعور ہوتا ہے اسی کا وہ انصار کردیتے ہیں ایک ہی وقت میں وہ ایک ہی حقیقت سیاہ دیکھتے ہیں تو اسے سیاہ کہہ دیتے ہیں اسی بات کو دو اگلے لمحے میں مفید دیکھتے ہیں تو اسے سفید کہہ دیتے ہیں۔ اگر کسی سے راضی ہوئے تو مدح کرتے ہیں اور اگر ناراض ہوئے تو مذمت کرتے ہیں۔ پھر ہر شاعر کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور اس کی اپنی شاعری ہوتی ہے۔ پھر یہ شعراء اپنے لئے خود ایک جہاں پیدا کرتے ہیں اور اسی میں کم گشتہ ہوت یہیں۔ یہ بعض افعال اور بعض ذہنی نتائج تخلیق کرتے ہیں اور پھر ان کو حقائق مان کر خود ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ عمل لوگ نہیں ہوتے کیونکہ یہ اپنی خیالی دنیا میں گم رہتے ہیں۔ لیکشن جو شخص ایک متعین دعوت لے کر اٹھتا ہے اس کا مزاج شاعرانہ نہیں ہوتا۔ متعین دعوت کا حامل تو اس دعوت کو عملاً دنیا میں قائم دیکھنا چاہتا ہے۔ کسی بھی داعی کا ایک متعین دف اور نصب العین وتا ہے۔ پھر ہر داعی نے اپنی دعوت کے قیام کے لئے ایک طریق کار متعین کردیا ہوتا ہے۔ وہ اس متعین راہ پر ایک متعین سمت کی طرف جاتا ہے۔ ادھر ادھر نہیں بھٹکتا ۔ اس کی نظریں تیز ہوتی ہیں۔ عقل زندہ ہوتی ہے وہ ادہام اور تحمیات کی دنیا میں نہیں رہتا۔ نہ وہ محض خیالی نقشہ پیش کر کرکے خوش ہوتا ہے وہ اپنے نقشے پر عملی دنیا تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا رسولوں کے منہاج اور شعراء کے منہاج کے درمیان جوہری فرق اور دیئے ان دونوں کے اندر یقینا کوئی اشتراک نہیں ہے اور یہ بات کوئی زیداہ پچیدیہ بھی نہیں ہے کہ اسے نہ سجھا جاسکے۔
Top