Taiseer-ul-Quran - An-Naml : 58
وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا١ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ۠
وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے برسائی عَلَيْهِمْ : ان پر مَّطَرًا : ایک بارش فَسَآءَ : سو کیا ہی برا مَطَرُ : بارش الْمُنْذَرِيْنَ : ڈرائے گئے
پھر ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش برسائی۔ کیسی بری تھی یہ بارش 56 جو ان لوگوں پر ہوئی جنہیں ( عذاب الٰہی سے) ڈرایا گیا تھا۔
56 لوط (علیہ السلام) کا قصہ اور اس قوم پر عذاب کی تفصیل پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے مثلاً سورة اعراف کی آیت نمبر 83، 84، سورة توبہ کی آیت نمبر 70، سورة ہود کی آیت نمبر 83، سورة حجر کی آیت نمبر 73۔ وہاں سے حواشی ملاحظہ کر لئے جائیں۔ اس سورة میں تین انبیاء حضرت سلیمان، حضرت صالح اور حضرت لوط (علیہم السلام) کے حالات کا ژکر ہوا ہے۔ اور ان کے حالات میں اور رسول اللہ ﷺ کے حالات میں کوئی نہ کوئی مشابہت کا پہلو ضرور پایا جاتا ہے۔ مثلاً حصرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کو یہ چیلنج کیا تھا کہ اگر تم مطیع فرمان بن کر حاضر ہوجاؤ تو بہتر ورنہ ہم ایسے لشکر سے تم پر حملہ کریں گے جس کے مقابلہ کی تم تاب نہ لاسکو گے۔ چناچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مشرکین مکہ پر ایسا ہی لشکر لائے تھے۔ جس کے مقابلہ کی ان میں تاب نہ تھی۔ حصرت صالح کو ان کی قوم نے بلوا کی صورت میں شبخون مار کر قتل کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ نے انھیں نجات دی۔ قریش مکہ نے بھی آپ سے یہی سلوک کرنا چاہا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی اس سازش سے بال بال بچالیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے شہر سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں۔ جبکہ قریش مکہ نے رسول اللہ ﷺ کو عملاً شہر مکہ سے نکل جانے پر مجبور کردیا تھا۔
Top