Tafseer-e-Usmani - An-Naml : 58
وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا١ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ۠
وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے برسائی عَلَيْهِمْ : ان پر مَّطَرًا : ایک بارش فَسَآءَ : سو کیا ہی برا مَطَرُ : بارش الْمُنْذَرِيْنَ : ڈرائے گئے
اور برسا دیا ہم نے ان پر برساؤ پھر کیا برا برساؤ تھا ان ڈرائے ہوؤں کا12
12 یعنی آسمان سے پتھر برسائے اور شہر کا تختہ الٹ دیا۔ حضرت شاہ صاحب مذکورہ بالا تین قصوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان کے قصہ میں فرمایا " ہم لائیں گے لشکر جس کا سامنا نہ کرسکیں گے، وہ ہی بات ہوئی رسول میں اور مکہ والوں میں۔ اور حضرت صالح پر نو شخص متفق ہوئے کہ رات کو جا پڑیں۔ اللہ نے ان کو بچایا اور ان کو غارت کیا۔ مکہ کے لوگ بھی یہ ہی چاہ چکے، لیکن نہ بن پڑا، جس رات حضرت ﷺ نے ہجرت کی، کتنے کافر حضرت ﷺ کا گھر گھیرے بیٹھے تھے کہ صبح کو اندھیرے میں نکلیں تو سب مل کر مار لیں (کسی ایک کو خون بہا نہ دینا پڑے) حضرت ﷺ صاف بچ کر نکل گئے۔ ان کو نہ سوجھا۔ اور قوم لوط نے چاہا کہ پیغمبر کو شہر سے نکال دیں، یہ ہی مکہ والے بھی چاہ چکے۔ اللہ نے آپ سے نکلنا بتایا کہ خود اپنے اختیار سے شہر چھوڑ کر نکل جاؤ۔ اور اسی میں کام نکالا۔ "
Top