Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Taiseer-ul-Quran - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا
: بیشک ہم نے فتح دی
لَكَ
: آپ کو
فَتْحًا
: فتح
مُّبِيْنًا
: کھلی
(اے نبی ! ) ہم نے آپ کو واضح فتح
1
عطا کردی۔
1
آپ کو بیت اللہ کے طواف کا خوب میں آنا :۔ جنگ احزاب کے بعد قریش کی مسلمانوں پر بالا دستی کا تصور ختم ہوچکا تھا تاہم ابھی تک بیت اللہ پر قریش کا ہی قبضہ تھا۔ مسلمان جب سے ہجرت کرکے مدینہ گئے تھے ان میں سے کسی نے حج، عمرہ یا طواف کعبہ نہیں کیا تھا جس کے لئے ان کے دل ترستے رہتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ کو خواب آیا کہ آپ بہت سے مسلمانوں کی معیت میں بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے۔
1400
صحابہ کے ساتھ مکہ کو روانگی :۔ لہذا آپ نے عمرہ کا اعلان فرما دیا۔ چونکہ اس سفر سے جنگی مقاصد یا غنائم کا کوئی تعلق نہ تھا۔ لہذا آپ کی معیت صرف ان صحابہ کرام ؓ نے ہی اختیار کی جو محض رضائے الٰہی کے لئے عمرہ کی نیت رکھتے تھے۔ جو صحابہ آپ کے ساتھ جانے پر تیار ہوئے ان کی تعداد چودہ سو کے لگ بھگ تھی۔ خ کافروں کا روکنا اور آمادہ جنگ ہونا : اہل مکہ کو پہلے ہی آپ کی آمد کی اطلاع ہوچکی تھی اور ان کی یہ انتہائی کوشش تھی کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ کیونکہ اس میں وہ اپنی توہین سمجھتے تھے۔ دستور کے مطابق اہل مکہ کسی بھی طواف اور عمرہ کرنے والے کو نہیں روک سکتے تھے۔ پھر یہ مہینہ بھی ذیقعد کا تھا جن میں اہل عرب کے دستور کے مطابق لڑائی منع تھی۔ ان دونوں باتوں کے باوجود قریش مکہ مسلمانوں کا مکہ میں داخلہ روکنے کے لئے لڑائی پر آمادہ ہوگئے۔ چناچہ خالد بن ولید ایک فوجی دستہ لے کر مقابلہ کے لئے نکل آئے۔ خ حدیبیہ کے مقام پر فروکشی :۔ آپ کو جب یہ صورت حال معلوم ہوئی تو آپ سیدھی راہ میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے مکہ کے زیریں علاقہ حدیبیہ میں فروکش ہوگئے۔ آپ نے اہل مکہ کو بہتیرا سمجھایا کہ ہم لڑنے کی غرض سے نہیں آئے فقط عمرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور قربانی کے جانور بھی دکھائے لیکن انہیں مسلمانوں کا مکہ میں داخل ہونا بھی گوارا نہ تھا۔ لہذا انہوں نے مسلمانوں کو واپس چلے جانے پر ہی اصرار کیا۔ سیدنا عثمان ؓ کی شہادت کی افواہ اور بیعت رضوان :۔ اسی دوران فریقین کی طرف سے کئی سفارتیں بھی آئیں اور گئیں۔ مسلمانوں کی طرف سے سیدنا عثمان ؓ کو سفیر بنا کر بھیجا گیا تو انہیں وہیں روک لیا گیا۔ اور افواہ یہ مشہور ہوگئی کہ سیدنا عثمان ؓ شہید کردیئے گئے۔ چناچہ قصاص عثمان کے سلسلہ میں آپ نے ایک کیکر کے درخت کے نیچے سب صحابہ کرام سے خون پر بیعت لی۔ جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ سیدنا عثمان ؓ کی بیعت :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اگر رسول اللہ کے نزدیک اہل مکہ کے لئے سیدنا عثمان ؓ سے کوئی زیادہ کوئی قابل احترام ہوتا تو آپ سفارت کے لئے اسے بھیجتے یہ بیعت سیدنا عثمان ؓ کی غیر موجودگی میں ہوئی۔ لہذا اپ نے یوں کیا کہ اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا یہ عثمان ؓ کا ہاتھ ہے اور اس کو بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا کہ یہ عثمان ؓ کی بیعت ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب عثمان بن عفان۔۔ ) بعد میں معلوم ہوا کہ سیدنا عثمان ؓ کی شہادت کی خبر غلط تھی۔ خ سفارتوں کے تبادلے اور صلح حدیبیہ :۔ دو تین دفعہ سفارتوں کے تبادلہ کے بعد با لآخر صلح کی شرائط پر سمجھوتہ ہوگیا۔ یہ شرائط بظاہر مسلمانوں کے لئے توہین آمیز تھیں اور بیعت رضوان کے بعد بالخصوص ایسی شرائط پر رضا مند بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کے باوجود رسول اللہ نے ان شرائط کو منظور فرما لیا اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو فتح مبین قرار دیا۔ صلح کی شرائط یہ تھیں۔
1
۔ آئندہ دس سال تک مسلمان اور قریش ایک دوسرے پر چڑھائی نہ کریں گے اور صلح و آشتی سے رہیں گے۔
2
۔ قبائل کو عام اجازت ہے کہ وہ جس فریق کے حلیف بننا چاہیں بن سکتے ہیں۔
3
۔ اگر مکہ سے کوئی مسلمان اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ پہنچ جائے تو مسلمان اسے واپس کردیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان مکہ آجائے تو وہ واپس نہ کیا جائے گا۔
4
۔ مسلمان اس دفعہ عمرہ کئے بغیر واپس چلے جائیں۔ آئندہ سال وہ تلواریں نیام میں کئے ہوئے آئیں۔ تین دن تک ان کے لئے شہر خالی کردیا جائے گا اور انہیں مکہ میں رہنے اور عمرہ کرنے کی اجازت ہوگی۔ خ شرائط قبول کرنے کی وجوہ :۔ مسلمانوں کو جب یہ سورة سنائی گئی تو وہ خود حیران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ ایسی توہین آمیز صلح فتح مبین کیسے ہوسکتی ہے ؟ یہ بحث بڑی تفصیل طلب ہے جس کا یہاں موقع نہیں۔ ہم یہاں ایسی وجوہ بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جن کی بنا پر آپ نے ایسی شرائط کو مسلمانوں سے مشورہ کئے بغیر بلکہ ان کی مرضی کے علی الرغم منظور فرما لیا تھا۔ البتہ یہ بات ملحوظ رکھنا چاہئے کہ یہ سب وحی الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق ہوا تھا۔ وہ وجوہ یہ ہیں :
1
۔ جب سے آپ مدینہ گئے تھے آپ کے دشمنوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا اور مسلسل چھ سال سے ہنگامی حالات میں زندگی گزار رہے تھے۔ ان دشمنوں میں سب سے بڑے دشمن یہی قریش تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ ان کی طرف سے اطمینان نصیب ہو تاکہ دوسرے دشمنوں سے بطریق احسن نمٹا جاسکے۔ چناچہ آپ نے یہاں سے واپسی پر سب سے پہلے بنونضیر کی سرکوبی کی اور خیبر فتح ہوا۔
2
۔ انہی ہنگامی حالات کی وجہ سے آپ کے بہت سے تبلیغی پروگرام مؤخر ہوتے جارہے تھے۔ چناچہ اس صلح کے بعد آپ نے آس پاس کے بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط ارسال فرمائے۔
3
۔ اس صلح نے تمام عرب پر یہ بات ثابت کردی کہ مسلمان فی الحقیقت امن پسند قوم ہے جو جنگ سے حتی الامکان گریز کرتی ہے اور مقابلہ کی قدرت رکھنے کے باوجود صلح و آشتی کو ترجیح دیتی ہے۔ اسی تاثر کے نتیجہ میں اس صلح کے بعد بعض بڑے بڑے سردار از خود اسلام لے آئے مثلاً خالد بن ولید سیف اللہ اور عمرو بن عاص فاتح مصر وغیرہم۔
4
۔ جنگ کی صورت میں مکہ میں موجود مسلمانوں کی تباہی یقینی تھی۔ قرآن کریم نے یہ ایک ایسی وجہ بیان فرمائی جس کا مسلمانوں کو خیال تک نہ آیا تھا۔ خ جانوروں کی قربانی :۔ اس معاہدہ صلح کی تحریر کے بعد آپ نے صحابہ کرام ؓ کو اپنی اپنی قربانیاں ذبح کرنے کا حکم دیا۔ لیکن صحابہ کرام کو اس توہین آمیز صلح کا کچھ ایسا غم لاحق ہوگیا تھا کہ آپ کے اس حکم پر کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ اٹھا۔ (شاید وہ اسی انتظار میں ہوں کہ ابھی اللہ کی طرف سے کوئی اور حکم آجائے گا) اس سفر میں سیدہ ام سلمہ ؓ آپ کے ہمراہ تھیں۔ آپ نے ان سے جب یہ صورت حال بیان کی تو انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ آپ اپنی قربانی ذبح کردیں پھر صحابہ اپنی قربانیاں خود بخود ذبح کردیں گے۔ چناچہ آپ نے اپنی قربانی ذبح کی۔ بال منڈائے تو صحابہ کرام نے آپ کی اتباع میں قربانیاں کیں۔ بال منڈائے اور احرام کھول کر واپس مدینہ آگئے۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ) خ عمرہ قضا :۔ پھر اگلے سال انہیں مسلمانوں نے عمرہ قضا ادا کیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب عمرۃ القضائ) اب ہم یہاں چند احادیث درج کرتے ہیں جن سے اس سورة کا شان نزول اور صحابہ کرام بالخصوص سیدنا عمر کے اضطراب کا منظر سامنے آتا ہے :
1
۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ ( اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ۙ )
48
۔ الفتح :
1
) سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)
2
۔ شراط صلح پر سیدنا عمر ؓ کی بےقراری :۔ زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ایک سفر (حدیبیہ) میں تھے اور سیدنا عمر بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رات کا وقت تھا۔ سیدنا عمر نے آپ سے کچھ پوچھا تو آپ نے جواب نہ دیا۔ سیدنا عمر نے پھر پوچھا تو بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر (تیسری بار) پوچھا تب بھی آپ نے جواب نہ دیا۔ آخر سیدنا عمر اپنے تئیں کہنے لگے : تیری ماں تجھ پر روئے تو نے تین بار عاجزی کے ساتھ رسول اللہ سے پوچھا لیکن آپ نے ایک بار بھی جواب نہ دیا سیدنا عمر کہتے ہیں۔ پھر میں نے اپنے اونٹ کو ایڑ لگائی اور لوگوں سے آگے نکل گیا۔ مجھے خطرہ تھا کہ اب میرے بارے میں قرآن نازل ہوگا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو مجھے ہی بلا رہا تھا۔ میں ڈر گیا کہ شاید میرے بارے میں قرآن اترا ہے۔ پھر میں آپ کے پاس آیا اور آپ کو سلام کیا۔ آپ نے فرمایا : آج رات مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن تک سورج کی روشنی پہنچتی ہے پھر آپ نے یہ سورت پڑھی۔ (حوالہ ایضاً )
3
۔ سیدنا سہل بن حنیف کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہم رسول اللہ کے ساتھ موجود تھے۔ جب آپ نے مشرکین مکہ سے صلح کی۔ اگر ہم لڑنا مناسب سمجھتے تو لڑ سکتے تھے۔ سیدنا عمر آئے اور آپ سے کہا : کیا ہم حق پر اور یہ (مشرک) باطل پر نہیں ؟ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول دوزخ میں نہ ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں سیدنا عمر کہنے لگے : تو پھر ہم اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں ؟ اور ایسے ہی مدینہ کو چلے جائیں۔ جب تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہ کردے ؟ آپ نے فرمایا : خطاب کے بیٹے ! رسول میں ہوں (تم نہیں) اللہ مجھے کبھی ضائع نہ کرے گا چناچہ سیدنا عمر غصے کی حالت میں لوٹ گئے۔ مگر قرار نہ آیا تو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آکر کہنے لگے۔ کیا ہم حق پر اور یہ مشرک باطل پر نہیں ؟ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا : خطاب کے بیٹے ! اللہ کے رسول وہ ہیں (تم نہیں) اور اللہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا اس وقت سورة فتح نازل ہوئی۔ (حوالہ ایضاً )
4
۔ سیدنا عبداللہ بن مغفلص کہتے ہیں کہ جس دن مکہ فتح ہوا اس وقت آپ یہ سورت دہرا دہرا کر خوش الحانی سے پڑھ رہے تھے۔ (حوالہ ایضاً ) خ صلح حدیبیہ کی توہین آمیز شرائط سے خیر کے پہلو کیسے پیدا ہوئے اور ابو جندل کی حالت زار اور فریاد :۔ صلح حدیبیہ کی انہی توہین آمیز شرائط سے اللہ تعالیٰ نے خیر کے بہت سے پہلو پیدا کردیئے۔ مکہ میں رکھے جانے والے مسلمانوں نے جب مکہ میں تبلیغ شروع کردی اور بعض لوگ اسلام بھی لے آئے تو یہی بات قریش مکہ کے لئے سوہان روح بن گئی، اور مسلمانوں کے ہاں مدینہ سے واپس کئے جانے والے مسلمانوں نے تجارتی شاہراہ پر اپنی الگ بستی بسا کر قریش کے تحارتی قافلوں کا ناک میں دم کردیا۔ ان میں ایک ابو جندل تھے۔ قریش مکہ کے تیسرے اور آخری سفیر سہیل بن عمرو کے بیٹے تھے اور مسلمان ہوچکے تھے جب شرائط صلح طے پارہی تھیں لیکن تاہنوز ضبط تحریر میں نہ آئی تھیں اس وقت یہ اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر حدیبیہ میں مسلمانوں کے پاس پہنچ گئے اور انہیں اپنے زخم دکھا دکھا کر التجا کی کہ اب انہیں کفار کے حوالہ نہ کیا جائے۔ مسلمان ابو جندل کو پناہ دینے کے حق میں تھے کیونکہ شرائط تاحال ضبط تحریر میں نہ آئی تھیں مگر ابو جندل کا باپ سہیل اس بات پر اڑ گیا کہ اگر ابو جندل کو واپس نہ کیا گیا تو صلح نہیں ہوسکتی آخر رسول اللہ نے ابو جندل کو صبر کی تلقین فرمائی اور اسے واپس کردیا۔ اسی طرح سیدنا ابو بصیر اسلام لاکر مدینہ پہنچے تو کفار نے دو آدمی مدینہ بھیج دیئے کہ وہ انہیں واپس مکہ لائیں۔ آپ نے ابو بصیر کو ان کے ہمراہ کردیا۔ ابو بصیر نے راہ میں موقع پر ایک کو قتل کردیا اور دوسرا فرار ہو کر مدینہ آگیا اور رسول اللہ کو یہ ماجرا سنایا اتنے میں پیچھے پیچھے ابو بصیر بھی مدینہ آپ کے پاس پہنچ گیا اور عرض کیا یارسول اللہ آپ نے مجھے ان کے ہمراہ بھیج کر اپنا ذمہ پورا کردیا۔ اب تو اللہ نے مجھے ان سے نجات دی رسول اللہ نے فرمایا : جنگ کی آگ نہ بھڑکاؤ سیدنا ابو بصیر کو جب معلوم ہوا کہ آپ انہیں مدینہ نہیں رہنے دیں گے تو وہاں سے چل کر سمندر کے کنارے پر آکر مقیم ہوگئے۔ بعد ازاں ابو جندل بھی یہاں پہنچ گئے اور دوسرے نومسلم بھی مدینہ کے بجائے ادھر کا رخ کرنے لگے۔ ان لوگوں نے قریش کو اس قدر تنگ کیا کہ انہوں نے مجبور ہو کر اس شرط کو کالعدم کردیا اور اجازت دے دی کہ جو شخص مسلمان ہو کر مدینہ جانا چاہے وہ جاسکتا ہے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ کفار نے رسول اللہ سے درخواست کی کہ ابو بصیر کو ان کاموں سے منع کریں اور جو شخص مسلمان ہو کر مدینہ جانا چاہے وہ جاسکتا ہے۔ چناچہ آپ نے ابو بصیر کو لوٹ مار کرنے سے منع فرما دیا۔ (کتاب الشروط نیز کتاب المغازی وغیرہ)
Top