Urwatul-Wusqaa - Hud : 106
فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ شَهِیْقٌۙ
فَاَمَّا : پس الَّذِيْنَ : جو لوگ شَقُوْا : بدبخت فَفِي : سو۔ میں النَّارِ : دوزخ لَهُمْ : ان کے لیے فِيْهَا : اس میں زَفِيْرٌ : چیخنا وَّشَهِيْقٌ : اور دھاڑنا
تو جو لوگ محروم ہوئے وہ دوزخ میں ہوں گے (اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ) ان کے لیے وہاں چیخنا چلانا ہو گا
محرومین کا دوزخ سے نکلنا محال ہوگا وہ وہاں چیخیں اور چلائیں گے ۔ 132 محرومین کون ہیں ؟ وہی جو جنت سے محروم کردیئے گئے اور دوزخ کے مستحق ٹھہرے اور ان کی قسمت میں سوائے چیخنے اور چلانے کے کچھ نہیں ہوگا اور اس طرح چیخنے اور چلانے کا ان کو کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا۔ زفیر و ثہیق کے فرق کو سمجھنے کے لئے ایک مثال اختیار کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ زفیر اس آواز کو کہتے ہیں جو گدھا ہنگتے وقت ابتدائی طور پر نکلتا ہے اور جو بلند ہوتے ہوتے ثہیق تک پہنچ جاتی ہے اور اس آخری آواز کو ” ثہیق “ ‘ کہا جاتا ہے جو نسبتاً آہستہ ہوتی ہے اور سینے سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور اس کا عکس بھی بیان کیا گیا ہے بہرحال مطلب یہ ہے کہ وہ وہاں چخیں و چلائیں یا روئیں پیٹیں اور دوھائیاں دیں ہر حال میں رہنا ان کو وہیں ہے۔ ہاں ! اگر علم الٰہی میں کچھ سزا پانے کے بعد اگر کسی کے نکالے جانے کی کوئی گنجائش ہو تو وہ اللہ ہی جانتا ہے کوئی انسان اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس لئے ہم نے دوزخ کو چوہے کے پنجرے سے تعبیر کیا ہے کہ اس کے دروازے تو کھلے ہیں اور جس کا جی چاہے وہ داخل ہوتا چلا جائے لیکن ایک بار داخل ہوجانے کے بعد نکلنا اس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔
Top