Urwatul-Wusqaa - Al-Qalam : 11
وَ قَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ١ؕ وَ مَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ١ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَ لُوْمُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ مَاۤ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ١ؕ اِنِّیْ كَفَرْتُ بِمَاۤ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ١ؕ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَقَالَ : اور بولا الشَّيْطٰنُ : شیطان لَمَّا : جب قُضِيَ : فیصلہ ہوگیا الْاَمْرُ : امر اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَعَدَكُمْ : وعدہ کیا تم سے وَعْدَ الْحَقِّ : سچا وعدہ وَ : اور وَعَدْتُّكُمْ : میں نے وعدہ کیا تم سے فَاَخْلَفْتُكُمْ : پھر میں نے اس کے خلاف کیا تم سے وَمَا : اور نہ كَانَ : تھا لِيَ : میرا عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ سُلْطٰنٍ : کوئی زور اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ دَعَوْتُكُمْ : میں نے بلایا تمہیں فَاسْتَجَبْتُمْ : پس تم نے کہا مان لیا لِيْ : میرا فَلَا تَلُوْمُوْنِيْ : لہٰذا نہ لگاؤ الزام مجھ پر تم وَلُوْمُوْٓا : اور تم الزام لگاؤ اَنْفُسَكُمْ : اپنے اوپر مَآ اَنَا : نہیں میں بِمُصْرِخِكُمْ : فریاد رسی کرسکتا تمہاری وَمَآ : اور نہ اَنْتُمْ : تم بِمُصْرِخِيَّ : فریادرسی کرسکتے ہو میری اِنِّىْ كَفَرْتُ : بیشک میں انکار کرتا ہوں بِمَآ : اس سے جو اَشْرَكْتُمُوْنِ : تم نے شریک بنایا مجھے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل اِنَّ : بیشک الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ اَلِيْمٌ : دردناک عذاب
اور جب فیصلہ ہوچکا تو شیطان بولا بلاشبہ اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا ، سچا وعدہ اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا مگر اسے پورا نہ کیا مجھے تم پر کسی طرح کا تسلط نہ تھا جو کچھ پیش آیا وہ صرف یہ ہے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا بلاوا قبول کرلیا پس اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو ، آج کے دن نہ تو میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکتا ہوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو ، تم نے اب سے پہلے جو مجھے شریک ٹھہرا لیا تھا تو میں اس سے بیزاری ظاہر کرتا ہوں بلاشبہ ظلم کرنے والوں کے لیے بڑا ہی دردناک عذاب ہے
شیطان کا اعتراف کہ اللہ نے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا ‘ میں نے ایک بات کہی تم نے تسلیم کرلی 23 ؎ ” لما قضی الامر “ ” جب فیصلہ ہوچکے گا “ تو شیطان کہے گا یعنی اپنے مریدوں سے کہ تمہارے تمام گلے شکوے اس حد تک تو صحیح ہیں کہ اللہ سچا تھا اور اس کا وعدہ بھی سچا نکلا اور میں جھوٹا تھا اور میرا وعدہ بھی جھوٹا نکلا۔ اتنی بات تو مجھے بھی معلوم تھی اور ہے نہ اس سے پہلے انکار تھا اور نہ اب ہے۔ بلاشبہ اللہ کے وعدے صحیح اور سچ ‘ اس کی وعیدیں صحیح اور سچ اور اس وقت تم بھی دیکھ رہے ہو کہ ان میں سے ہر ایک بات جوں کی توں صحیح جس طرح اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے دنیا میں تم کو بتائی اور میں خود مانتا ہوں کہ جو بھروسے میں نے تمہیں دلائے ‘ جن جن فائدوں کے لالچ تمہیں دیئے ‘ جن خوشنما توقعات کے جال میں ‘ میں نے تم کو پھانس اور سب سے بڑھ کر یہ یقین جو میں نے تم کو دلایا کہ اول تو آخرت و اخرت کچھ ہے ہی نہیں صرف ایک ڈھکو سلا ہے اور اگر ہوئی بھی تو فلاں پیر ‘ فلاں بزرگ ‘ فلاں مرشد کے صدقے تم صاف صاف بچ جائو گے بس اس کی کدمت میں نذر و نیاز پیش کرتے رہو دیکھو یار یاروں کی مانتے آئے اور مانتے رہیں گے یہ اللہ کے ولی اور دوست ہیں ان کی بات آخر وہ کیسے رد کرے گا۔ اس لئے دنیا میں تم جو چاہو کرتے پھرو نجات کا ذمہ ان کا ‘ وہ تو وہابی ہیں اور گستاخ رسول ہیں جو پیروں فقیروں کو نہیں مانتے۔ اس طرح کی ساری باتیں جو میں تم سے کہتا رہا اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ تم تک پہنچتا رہا۔ یہ سب کچھ محض دھوکا تھا لیکن اتنی بات تو ذرا تم بھی بتا دو کہ تمہارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت کہ تم خود تو سیدھی راہ چلنا چاہتے تھے لیکن میں نے زبردستی سے تمہارا ہاتھ پکڑا اور تم کو اس راستے سے ہٹا کر اس راستہ کی طرف لے آیا یا میں نے کوئی تمہارے راستے میں ڈنڈے دے کر کچھ لوگوں کو کھڑے رکھا تھا جو تم کو زبردستی اس طرف لے آئے تو اس ثبوت کو بھی پیش کر دو تاکہ مجھ پر وہ فرد جرم عائد ہو جو ایسے لوگوں کے لئے ہونی چاہئے لیکن یہ بات تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ وہاں ایسی کوئی بات نہ تھی ۔ ہاں ہاں ! میں نے فرض کرو ڈھول پیٹا تو تم نے خود ٹانگ اٹھا لی اور خوب ناچے چلو ڈھول تو میں پیٹتا رہا لیکن تمہاری ٹانگ بھی میں نے ہی اٹھائی تھی یا وہ تم خود ہی تھے۔ اچھا میں نے کیا کیا ؟ یہی کہ دعوت حق کے مقابلہ میں اپنی دعوت باطل آپ کے سامنے پیش کی۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ کی طرف آپ کو بلایا ‘ نیکی کے مقابلے میں بدی اور برائی کی طرف تم کو پکارا وہ بھی آوازیں دے کر نہیں صرف اشاروں ہی اشاروں میں لیکن ماننے کے جملہ اختیارات تو تمہارے ہی پاس تھے۔ ہاں ہاں ! وقت نکل گیا اور جو ہونا تھا وہ ہوگیا سچی بات کہو کہ میرے پاس تم کو مجبور کرنے کی کوئی طاقت تھی جو میں نے استعمال کی ؟ اور تم میری طاقت و قوت کے سامنے مجبور ہوگئے اچھا میں دکاندار تھا ایک سودا میں نے بھی رکھا تھا اس کے بیچنے وار فروخت کرنے کیلئے آوازیں بھی دیں لیکن کیا میں نے بزور تمہارے ہاتھ فروخت کیا یا تم تلاش کر کی اور سمجھ سوچ کر اس کو خریدتے رہے ؟ سچی بات تو یہ ہے کہ تم اس کے گاہک تھے تمہاری خواہش اس کو خریدنے کی تھی اگر وہ سودا میں نہ بیچتا تو تم کسی دوسرے سے خرید لیتے اس لئے اب سارے کا سارا الزام جو مجھ پر دھرتے ہو کوئی اس کی وجہ بھی تو بتائو ؟ اچھا شراب میں نے بیچی لیکن وہاں کتنی دکانیں تھیں جہاں وہ بک رہی تھی ؟ اس جگہ کو تلاش کس نے کیا وہ بڑے شوق و ذوق سے رقم مجھے کس نے دی اور وہ کون تھا جو بوتل پکڑ کے ساتھ میرا شکریہ بھی ادا کر رہا تھا اور ایڈوانس کے طور پر مزید رقم بھی پیش کرتا تھا۔ ہاں ! اپنی دعوت کا ذمہ دار میں ہوں اور اس کی سزا بھی پا رہا ہوں اور پاتا رہوں گا لیکن میں تم کو ملامت نہیں کرتا تم کیسے چودھری ہو کہ الٹا چور کو توال کو ڈانٹے۔ میں نے اگر دعوت دی تھی تو لبیک چوہدری صاحب تم نے خود کہی۔ اس کی ذمہ داری مجھ غریب کے کھاتے میں مت ڈالو جتنا قصور میرا ‘ میں مانتا ہوں لیکن جو غلط انتخاب آپ نے کیا ہے۔ اس کی ذمہ داری خود اٹھائو۔ فلا تلومونی ولوموا انفسکم ‘ آج مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ آج نہ میں تمہارا فریاد رس ہو سکتا ہوں اور نہ ہی تم میرے فریاد رس ہو سکتے ہو۔ میں اپنی سزا پا رہا ہوں تم اپنی سزا بخوشی قبول کرلو تم میرا منہ کالا کرنے کی کوشش نہ کی اور میں تم پر کوئی اعتراض نہیں کرتا حالانکہ جس طرح تم باتیں بنا رہے ہو اور میرا شکوہ کر رہے ہو میں بھی ایسا کرسکتا ہوں لیکن نہیں کر رہا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ دنیا نہیں کہ وہاں جھوٹ چل جائے اب تو سچ کا معاملہ ہے اور جو کچھ ہونا ہے سچ کے مطابق ہونا ہے اور جو ہوا ہے بالکل سچ ہوا ہے۔ تم چور تھے اس لئے چور نکلے اب چتر نہ بنو اور ساری بدنامی میرے ماتھے پر نہ رکھو اپنا قصور بھی تسلیم کرلو۔ ” اس سے پہلے جو تم نے مجھے شریک ٹھہرایا تھا میں تو اب اس سے بیزار ہوں یعنی بری الذمہ ہوں۔ “ تم مجھے دنیا میں خدا کا شریک سمجھتے تھے میں اس کا انکار کرتا ہوں۔ فیصلہ کروا لو جس سے تم چاہو۔ مجھے تو برا کہتے ہوئے تم تھکتے ہی نہیں تھے تم نے مجھے کیسے شریک ٹھہرا لیا۔ دنیا کی کوئی مجلس ‘ کوئی جگہ غور کرو کہ جہاں تم سارے چوہدری ‘ سارے سرغنے ‘ سارے سردار اور و ڈیرے اکٹھے بیٹھتے تھے اور اس وقت جو کچھ تم کرتے تھے وہ تو تم کو بھی معلوم کبھی میرا نام تم نے بھی اچھے طریقے سے لیا تھا ؟ تو پھر آج کیوں جھوٹ بولتے ہو ؟ میں تم کو صاف صاف بتائے دیتا ہوں کہ میں خدا کا شریک نہ تھا اور نہ ہوں تم تو محض اپنی حماقت کے باعث ایسے سمجھتے رہے۔ یہ وہ مکالمہ ہے جو قیامت کے روز ہونے والا ہے اور شیطان کے پیروکار اس دن جس ندامت اور شرمندگی سے دوچار ہوں گے وہ کتنی روح فرسا ہوگی۔ ہر ہوش مند کو چاہئے کہ وہ اس شرمساری اور رسوائی سے بچنے کئے آج ہی اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو شیطان کا رویہ اپنے پرستاروں کے ساتھ آج بھی وہی ہے جب وہ کسی کو نقب زنی پر اکساتا ہے ‘ اپنے حقیقی بھائی کو قتل کرنے کیلئے برانگیختہ کرتا ہے۔ جب کسی کی ناموس کو ملوث کرنے کی تحریک دل میں پیدا کرتا ہے اس وقت دولت اور عزت ‘ لذت اور عیش کی زندگی کا جو نقشہ وہ پیش کرتا ہے کتنا دل فریب ہوتا ہے۔ لیکن جب انسان اس کے دام زریں میں پھنس جاتا ہے تو شیطان اس سے آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ جب چور پر ڈنڈتے پڑتے ہیں تو وہ اس کی پٹائی پر بغلیں بجاتا ہے۔ جب اسے تختہ دار پر کھڑا کر کے موت کا پھندا اس کے گلے میں ڈالا جاتا ہے تو شیطان کی خوشی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ جب بدکاری کی وجہ سے وہ موذی بیماریوں آتشک ‘ سوزاک اور نامردی وغیرہ کے چنگل میں گرفتار ہو کر چیختا ہے تو وہ آگے بڑھ کر اس کے زخموں پر مرحم رکھنے کی بجائے نمک چھڑکتا ہے جب جعفر از بنگال اور صادق از دکن نے اپنی ملت اور اپنے دین سے غداری کرنے کا ارادہ کیا تھا انہیں اپنا مستقبل کتنا روشن نظر آیا ہوگا اور اب بھی کتنے جعفر اور صادق ہیں جو اس ملک عزیز کے ساتھ غداری کرنا چاہتے ہیں بلکہ ایک جعفر نے دوبارہ بنگال میں غداری کا ارتکاب کر کے دیکھ بھی لیا لیکن اس غداری کے بعد بجز لعنت اور ذلت کے ان کے ہاتھ کیا آیا ؟ بدر کے میدان میں کفار مکہ کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ شیطان نے پہلے انہیں اکسایا اور یقین دلایا کہ ” لا غالب لکم الیوم من الناس “ آج تم پر کوئی بھی غالب نہیں آسکتا اور پختہ وعدہ کیا ” وانی جارلکم “ میں تمہارا پشت پناہ ہوں اور جب حضرت حمزہ کی زہر آلود شمشیریں بےنیام ہو کر ان کی صفوں میں تباہی مچانے لگیں تو شیطان نے خود آ کر کہہ دیا۔ ” انی بربی منکم “ میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں ہے جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تمہیں نظر نہیں آ رہا اور ان ساری جگہوں پر ” شیطان من الانس “ بھی مراد لیا جاسکتا ہے اگرچہ اکثریت نے ” شیطان من الجن “ ہی مراد لیا ہے۔
Top