Urwatul-Wusqaa - Maryam : 50
وَ وَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا۠   ۧ
وَوَهَبْنَا : اور ہم نے عطا کیا لَهُمْ : انہیں مِّنْ : سے رَّحْمَتِنَا : اپنی رحمت وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کیا لَهُمْ : ان کا لِسَانَ : ذکر صِدْقٍ : سچا۔ جمیل عَلِيًّا : نہایت بلند
اور اپنی رحمت کی بخشش سے سرفراز کیا تھا ، نیز ان سب کے لیے سچائی کی صدائیں بلند کر دیں
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی سچائی کی خاص صفت میں سے ان کی اولاد کو بھی وافر حصہ ملا : 50۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی سچائی سے آپ کا واقعہ شروع ہوتا تھا اور اسی سچائی پر وہ اختتام پذیر ہو رہا ہے اور سچائی کی جو صفت آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی مولاناؤں کو اگرچہ اس پر اعتراض ہو لیکن عنداللہ وہ درجہ امتیاز کو پہنچی ہوئی تھی اور پھر صرف انہی میں نہیں بلکہ ان کی اولاد کو بھی اس میں سے وافر حصہ ملا تھا ، بلاشبہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) پر کچھ مخصوص رحمتیں بھی تھیں اور ان میں امتیازی صفات بھی پائی جاتی تھیں شرک کے خلاف سارے انبیائے کرام نے آواز بلند کی لیکن جو واسطہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے والد اور اپنے خاندان کے وڈیروں سے پڑا وہ ایک خاص خصوصیت کا حامل تھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑھاپے میں جو اولاد دی اور آپ کی نسل کو جس طرح اور جس تعداد میں بڑھایا یہ بات دوسروں کے بہت کم حصہ میں آئی ۔ آج بھی جو قومیں دنیا میں رہ رہی ہیں ان میں کثیر حصہ آپ ہی کی نسل در نسل لوگوں کا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے جو شہرت آپ کو دی اور آپ کے بعد آپ کی نسل سے نبی اعظم وآخر ﷺ کو دی وہ بھی آپ ہی کی نسل ہیں اور آپ ہی کی ملت پر قائم ہیں ، سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو جد انبیاء کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور ” حنیف “ بھی کہلاتے ہیں اور ” مسلم “ بھی ۔ اس جگہ آپ کا یہ مختصر ذکر کیا گیا ہے اور اس سے پہلے بھی سورة البقرہ 2 : 124 تا 160 ‘ سورة آل عمران آیت 32 ‘ 35 ‘ 68 ‘ سورة النساء آیت 54 ‘ 125 ‘ 163 ‘ سورة الانعام آیت نمبر 40 ‘ 75 ‘ 83 ‘ 151 ‘ سورة التوبہ 70 ‘ 114 ‘ سورة ہود 69 تا 75 اور سورة ابراہیم آیت 26 ‘ سورة یوسف آیت 38 ‘ سورة النحل آیت 120 تا 123 ‘ سورة الحجر آیت 51 میں گزر چکا ہے اور سورة مریم میں آپ دیکھ رہے ہیں اور بھی مزید چھ سات سورتوں میں ذکر آئے گا اور انشاء اللہ العزیز سورة الانباء میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا مختصر حال بھی قلم بند کریں گے ، اس جگہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر دس آیتوں میں کیا گیا اور اس کے بعد قرآن کریم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے چند واقعات کی جھلکی دینا شروع کی ہے اور اس سورت مریم میں موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ صرف تین آیتوں میں قلمبد کیا گیا ہے ۔
Top