Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 165
اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْهَا١ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى هٰذَا١ؕ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوَلَمَّآ : کیا جب اَصَابَتْكُمْ : تمہیں پہنچی مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَدْ اَصَبْتُمْ : البتہ تم نے پہنچائی مِّثْلَيْھَا : اس سے دو چند قُلْتُمْ : تم کہتے ہو اَنّٰى هٰذَا : کہاں سے یہ ؟ قُلْ : آپ کہ دیں ھُوَ : وہ مِنْ : سے عِنْدِ : پاس اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (اپنے پاس) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : شے قَدِيْرٌ : قادر
جب تم پر مصیبت پڑی اور یہ مصیبت ایسی تھی کہ اس سے دوگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں تمہارے دشمنوں پر پڑچکی تھی تو تم بول اٹھے کہ یہ مصیبت ہم پر کہاں سے آ پڑی ؟ ان سے کہہ دو یہ مصیبت خود تمہارے ہی ہاتھوں آئی ، اللہ کے اندازہ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے
احد کو مصیبت ہم پر کہاں سے پڑی ؟ جواب ملتا ہے کہ تمہارے اپنے ہاتھوں سے : 303: جماعتی زندگی میں کمزور و قوی دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں اور یقینا اس وقت بھی تھے۔ جنگ احد میں جب ہوا کا رخ بدلا تو ان کو تعجب ہوا کہ آخر ایسا کیوں ہوا ؟ ان کو بتایا جا رہا ہے۔ کہ نتائج اعمال کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں ” قلتم انی ھذا “ کی یہ مصیبت ہم پر کہاں سے آ پڑی ہے ؟ یہ سراسر تمہارے اع ال کا نتیجہ ہے ۔ کیونکہ جماعتی زندگی میں جن لوگوں کے سپرد قومی کام ہوتے ہیں اگر وہ کوئی کوتاہی کریں تو خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے بالکل اسی طرح جیسے جسم کے کسی حصہ رکو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس سے متاثر ہوتا ہے یا بےچین ہوجاتا ہے کبھی اس کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تکلیف تو انگلی میں ہے تم بےچین کیوں ہو ؟ اس طرح ایک گھر میں سے کسی فرد کو کوئی تکلیف پہنچ جائے تو پورے گھر میں بےچینی پیدا ہوجاتی ہے کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ تکلیف تمہارے ایک فرد کو ہے تم بےچین کیوں ہو ؟ آخر جماعت میں سے جب کچھ لوگوں کو ایک جگہ متعین کیا گیا تھا۔ وہ ہاں نہ رہے اور ان کی کوتاہی سے پوری جماعت اس کوتاہی کا شکار کیوں نہ ہوتی ؟ پھر یہی نہیں تم اس سے اپنی تکلیف کو مداوا کو لو کہ اب جو تم کو تکلیف احد کے میدان میں پہنچی ہے اس سے قبل تمہارے ہاتھوں کفار کے لشکر کو اس سے دوگنی پہنچ چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت ان کے لوگوں سے کچھ ایسی کوتاہیاں ہوئی ہوں گی جس کا نتیجہ انہوں نے بھگتا اس بار تمہارے آدمیوں سے کوتاہی ہوئی تو آخر تم اس کے نتیجہ سے کیوں دوچار نہ ہوتے ؟ اسلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ تم سے کوتاہی نہ ہونی چاہیے اس لئے کہ تم مسلمان ہو اس کا مطلب تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ اگر مسلمان ہوجائیں تو پھر کوتاہیوں پر کوتاہیاں کرتے رہیں لیکن ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہی بدل دیا جائے۔ اگر آپ غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ آج قوم مسلم اس غلطی کا شکار ہے کہ اپنی کوتاہیوں سے باز نہیں آتے اور پھر جب انکے نتائج سامنے آتے ہیں تو مبہوت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کہ ایسا کیوں ہوا ؟ لیکن ان کو کون سمجھائے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں جماعتی زندگی میں جماعتی لوگوں سے کوتاہی ہوجائے تو اس کا نتیجہ رسول اللہ ﷺ کو بھی بھگتنا پڑے تو تم اور ہم کون ہیں ؟ میدان احد میں آپ ﷺ کا دانت شہید ہوا۔ پیشانی زخمی ہوئی۔ آپ ﷺ کے قتل ہوجانے کی خبریں گرم ہوئیں تو کیا آپ ﷺ کو اس کی تکلیف نہ ہوئی ؟ آپ ﷺ اس مصیبت میں مبتلا نہ ہوئے ؟ ضرور ہوئے۔ کیوں ؟ اس لئے کو قوم مسلم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ اعمال کے ساتھ ان کا نتیجہ بندھا ہوا ہے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ تم عمل صحیح نہ کرو اور صحیح نتیجہ کی امید رکھو۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اللہ نے یہ بالکل نہیں کہا کہ جب تم پر گولیاں برس رہی ہوں تو تم ہاتھ مت چلاؤ بلکہ زبان سے اللہ اللہ کرتے رہو گولی تم پر نہیں آئے گی۔ وہ تو بار بار یہ کہتا ہے کہ اپنی پوری طاقت صرف کرو ، کسی طرح کی کوتاہی نہ کرو جو وسائل تمہارے پاس ہیں سارے کے سارے اپنے دفاع میں لگا دو اگر دشمن تمہارے لئے بندوق تیار کر رہا ہے۔ تو تم بم بناؤ وہ بندوق سے گولی چلاتا ہے تو تم نے اپنے دشمن کے لئے بم تیار کیا۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم کو اللہ کی کتاب کا یہ سبق یاد نہ رہا اور پڑھانے والے ہم کو کچھ اور ہی پڑھا رہے ہیں۔ انیٰ ھذا ؟ کہنے والوں کو اللہ کی طرف سے کیا جواب ملتا ہے ؟ سن لو اور اچھی طرح یاد رکھو۔ ارشاد ہوتا ہے اے پیغمبر اسلام ! ان کو جواب دو کہ ” ھو من انفسکم “ یہ مصیبت خود تمہارے اپنی ہی ہاتھوں سے آئی ہے۔ لڑکا بغل میں ڈھنڈورا شہر میں کوتاہی تم نے کی اور اب تم ہی یہ پوچھتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آئی ؟ تم کو یہ سبق کس نے بھلا دیا کہ ” اللہ نے ہر ایک چیز کے لئے قانون مقرر کردیا ہوا ہے اور ایسا بندھن باندھ دیا ہے جو کہیں خطا نہیں کرتا۔ جو ہونا تھا ہوگیا اب اس سے سبق حاصل کرو آئندہ ایسی کوتاہی مت کرو۔ گزرے ہوئے وقت پر صرف پچھتاوا کچھ کام نہیں دیتا اس لئے کہ گزرا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آیا۔ وقت جس تیزی سے گزر رہا ہے تم اس سے دو بار تیز ہوجاؤ اس اس کو پکڑ لو اور وہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ تم اپنی جمعیت اکٹھی کرو ایڑی چوٹی کا زور لاگا کر ہمت صر کر کے وسائل جمع کرو اور پھر اگر میدان کار زار گرم ہوجائے تو اپنے سارے جو ہر دکھانے کے لئے پہلے سے زیادہ زور و شور کے ساتھ میدان میں اترو اور مخالفین کو تہ تیخ کر دو اور تمہارا کمانڈر جس جس ذمہ داری پر تم کو لگاتا ہے پوری دیانت و امانت کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھانے کی کوشش کرو پھر دیکھو کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ اس آزمائش سے سبق حاصل کرو اور زمانہ کو دکھا دو کہ ہم ایک زندہ وجاوید قوم ہیں۔ آج تم پر مذاق کرنے والے یقینا کل ہی ششدر و حیران رہ جائیں گے اور وہی زبانیں جو آج تمہارا مذاق اڑا رہی ہیں کل تمہاری شجاعت کے گیت گائیں گی اور اس سے تمہارا وہ زخم بھی یقینا مند مل ہوجائے گا۔
Top