Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 21
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جو يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاٰيٰتِ : آیتوں کا اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں النَّبِيّٖنَ : نبیوں کو بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْمُرُوْنَ : حکم کرتے ہیں بِالْقِسْطِ : انصاف کا مِنَ النَّاسِ : لوگوں سے فَبَشِّرْھُمْ : سو انہیں خوشخبری دیں بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
جو لوگ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں اور اس کے نبیوں کو ناحق قتل کرنے کے مرتکب رہ چکے ہیں نیز (لوگوں میں سے) ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو حق و عدالت کا حکم دینے والے ہیں تو انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری پہنچا دو
اللہ سے مقابلہ کرنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ مقابلہ کس سے ہے ؟ 60: کتاب الٰہی خصوصاً قرآن کریم سے یا اس کے کسی جز سے انکار یہ سب ” کفربایت اللہ “ ہے۔ جو لوگ اتنے چھوٹ ہیں کہ انہوں نے کتاب اللہ کا انکار کردیا ہے ان سے کیا توقع ہو سکتی ہے۔ اب ان کا مقابلہ گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ بس ان کو خود ہی جان لینا چاہیے کہ اللہ سے مقابلہ کر کے کیا وہ کامیاب ہو سکتے ہیں ؟ جو خود ہی موت کو ماسی کہے اس کو رنے ہی دو ۔ ایسے ہی تو لوگ تھے جو انبیاء اللہ تک کے قتل کے مرتکب ہوئے اور ان کو بےدریغ قتل کیا۔ وہ ان ہی کے آباء تھے اور آج یہ بھی کیا کر رہے ہیں ؟ کہ جو لوگ حق و صداقت کا حکم دینے والے ہیں یہ ان کو قتل کے درپے ہیں۔ اے پیغمبر اسلام ! کیا آپ ﷺ کے قتل کی سازشیں انہوں نے نہیں کیں ؟ ان سے جو کچھ ہوسکا انہوں نے اس میں کوئی کسر اٹھا رکھی ؟ وہ حق و صداقت کے دشمن ہیں اور ان کی یہ دشمنی بہت پرانی ہے۔ ان کی حق بیزاری کی تصریح ان کی اپنی کتب آسمانی میں بھی موجود ہے۔ مثلاً : ” وہ اس کا کینہ رکھتے ہیں جو دروازہ پر سرزنش کرتا ہے اور وہ اس سے نفرت رکھتے ہیں جو حق بات کہتا ہے۔ “ (عموس 5 : 10 ) آپ ﷺ ان کے کان تک عذاب الٰہی کی خبر پہنچادیں ! بس : 61: ” آپ ﷺ انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری پہنچا دیں۔ “ یہ طنزیہ انداز بیان ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے جن کرتوتوں پر وہ آج بہت نازاں اور بہت خوش ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت خوب کام کر رہے ہیں۔ برائی کے بھی مرتکب ہیں اور پاک بازوں کا مذاق بھی اڑاتے ہیں آپ ﷺ انہیں بتا دیں کہ تمہارے ان اعمال بد کا انجام کیا ہونے والا ہے ؟ ” عَذَابٌ اَلِیْمٌ “ ایسے مجرموں کا خطا کاروں پر دنیوی لعنت کی خبر آپ ﷺ سے پہلے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبان سے بھی ہم ان کو سنا چکے ہیں جس کا مفصل ذکر کتاب مقدس میں موجود ہے۔ ” وہ جلد یہی گھاس کے مانند کاٹ ڈالے جائیں گے اور ہرے سبزے کی طرح مرجھا جائیں گے اور شہر میں نہ ہوگا تو غور کر ۔ گویا اس آیت 21 میں اہل کتاب کی قومی گمراہیوں اور بد عملیوں کی طرف اشارہ ہے۔ جس گروہ کی ذہنیت اس درجہ مسخ ہو گئی ہو کہ حق و عدالت کی دشمن اور ظلم و فساد کی پرستار ہو اس سے قبولیت حق کی کیا امید ہو سکتی ہے ؟ عوام کے بگاڑ کا اصل سبب علماء قوم ہوتے ہیں : 62: قوم کو تعلیم الٰہی سے ہٹا کر اہواء و خواہشات کے پیچھے لگا دینا عوام کا کام نہیں یہ ہمیشہ سے علماء کے گروہ ہی کا کام رہا ہے اور اب بھی ہے۔ تاریخ مذاہب عالم کا مطالعہ کرلو اگر نہیں تو خود قرآن کریم ہی کی آیات پر غوروفکر کر کے یکھو آپ یقینا اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ عوام کے بگاڑ کا اصل سبب خواص قوم ہی ہوتے ہیں۔ خواص قوم کون ہیں ؟ علمائے قوم اور مترفین قوم۔ مترفین کون ہیں ؟ قوم کے و ڈیرے یعنی سیاستدان۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے : وَ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا . رَبَّنَاۤ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْهُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا . (المائدۃ 33 : 67 ۔ 68) ” اور وہ کہیں گے اے پروردگار ! ہم نے اپنے سرداروں ، چودھریوں اور علماؤں اور بڑوں اور سرغنوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہ راست سے گمراہ کردیا ، ہم بےقصور ہیں نظر کرم فرما۔ اے ہمارے آقا و پروردگار ! ان سرداروں ، چودھریوں ، علماؤں ، بڑوں اور سرغنوں کو جنہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے بھٹکایا انہیں دوہرا عذاب دے اور لعنت زدہ قرار دے کر اپنی رحمت سے دور اور بہت ہی دور کر دے۔ “
Top