Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 58
ذٰلِكَ نَتْلُوْهُ عَلَیْكَ مِنَ الْاٰیٰتِ وَ الذِّكْرِ الْحَكِیْمِ
ذٰلِكَ : یہ نَتْلُوْهُ : ہم پڑھتے ہیں عَلَيْكَ : آپ پر مِنَ : سے الْاٰيٰتِ : آیتیں وَالذِّكْرِ : اور نصیحت الْحَكِيْمِ : حکمت والی
(اے پیغمبر اسلام ! ﷺ یہ اللہ کی آیتیں اور حکمت والے تذکرے ہیں جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں
عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے : 131: آیت زیر نظر میں ” آیات “ یعنی دلائل کا لفظ لانا اور پھر ان باتوں کو پر حکمت قرار دینا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ جو کچھ اوپر بیان کیا گیا وہ صرف دعویٰ نہیں بلکہ دلائل ہیں اور دلائل بھی ایسے جو اپنے اندر حکمت رکھتے ہیں۔ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ، ان کا بچپن ، ان کی نبوت کا پورا زمانہ وار ان کا اٹھایا جانا سب کے سب حالات و واقعات ایسے ہیں جن میں انسانوں کی زندگی کے لیے بیشمار نشانات اور دلائل موجود ہیں اور یہ وہ پر حکمت باتیں ہیں جو اپنے اندر بیشمار اسباق رکھتی ہیں۔ جو لوگ ان کی باتوں کو محض قصہ کہانی کی حد تک سمجھتے ہیں وہ لوگ ان ” روشن دلائل “ و نشانات سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ واقعہ ایسا نہیں کہ گزشت آنچہ گزشت بلکہ یہ ایک ایسا تذکرہ ہے جس میں انسانی زندگی کے لیے بیحد و شمار اسباق رکھ دیے گئے ہیں اور قرآن کریم میں کسی نبی کا بھی کوئی واقعہ ایسا نہیں بیان کیا گیا جو صرف بطور قصہ یا کہانی سن لیا جائے یا سنا دیا جائے بلکہ ہر نبی کے قصہ یا کہانی کا اتنا حصہ ہی بیان کیا گیا ہے جس کا ہماری زندگی سے ہر حال میں تعلق ہو یعنی ہماری زندگی کے لیے کوئی نہ کوئی سبق اس میں موجود ہوتا ہے اور وہی سبق سکھانے کے لیے اس واقعہ کو بیان کیا جاتا ہے۔ ” الذکر “ قرآن کریم کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے اور ” الذکر “ اصل میں یاد کرنے یا یاد دلانے کو بھی کہا جاتا ہے اور قرآن کریم کو بھی ذکر اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ان تمام باتوں کو جو فطرت انسانی میں رکھی گئی ہیں ان کو یاد دلاتا ہے اور اس لیے بھی کہ وہ انسان کو شرف و بزرگی کے اصل مقام تک پہنچا دیتا ہے بشرطیکہ وہ اس سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ گویا یہاں ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے حالات و واقعات جن پر یہود و نصاریٰ دونوں گروہوں کی تاریخوں نے گہرے پردے ڈال دیے ہیں اور دونوں گروہوں میں سے ایک نے افراط سے کام لیا ہے تو دوسرے نے تفریط سے۔ اب آپ جو کچھ اس میں سے سنا رہے ہیں وہ بالکل صحیح و معتبر طور پر سنا رہے ہیں۔ آپ کا سنایا ہوا خود اس کی دلیل ہے کہ آپ موید من اللہ ہیں اور آپ وہی کہہ رہے ہیں جو عالم الغیب و الشہادہ آپ سے سنوانا چاہتا ہے اور ” الذکر الحکیم “ کہہ کر یہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ آپ کی رسالت پر دلیل ہونے کے قطع نظر یہ مضامین بجائے خود بھی پر حکمت اور پر معرفت ہیں۔ ہاں ! جو ئیندہ یا بندہ کا اصول اپنی جگہ اٹل ہے کہ پاتا وہی ہے جو تلاش کرتا ہے۔
Top