بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
(اے پیغمبر اسلام ! ) اللہ سے ڈرتے رہیے اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانئے بلاشبہ اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم تفسیر : خالق اور مخلوق کا واضح فرق رسول بلا شبہ مخلوق ہی ہوتے تھے۔ 1) یہ سورة الاحزاب کی پہلی آیت ہے جس میں نبی اعظم وآخر ﷺ کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ ” اے پیغمبر اسلام ! اللہ سے ڈرتے رہئے اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانئے۔ الفاظ بتا رہے ہیں کہ حالات کی سنگینی نے نبی اعظم وآخر ﷺ کو کسی نہایت گہری سوچ میں مبتلا کردیا تھا اور وہ سوچ بلاشبہ کا دبائو ہی ہوسکتی تھی کیونکہ معاشرے کا دبائہ ایک ایسی وزنی چیز ہے جس کا بوجھ اٹھانا آسان کام نہیں بلکہ ایک نہایت ہی مشکل ترین کام ہے کیونکہ اس میں اپنے اور بیگانے سب برابر کے شریک ہوتے ہیں اور ایسے مواقع پر جاکر بات واضح ہوتی ہے کہ خالق بہرحال خالق ہے اور مخلوق بہرحال مخلوق ، خواہ وہ کوئی ہو اور کون ہو ؟ اس بات کو سمجھنے کے لئے ذرا تفصیل کرنا ہوگی تب ہی بات سمجھ میں آسکے گی۔ جنگ احد میں جو تکلیف مسلمانوں کو پہنچی اور جس طرح فتح ہوچکنے کے بعد شکست میں تبدیل ہوئی اس کی وضاحت آپ پیچھے سورة آل عمران کی آیت 121 کے تحت پڑھ آئے ہیں۔ ان حالات میں واضح ہے کہ مشرکین عرب ، یہود اور منافقین کی ہمتیں بہت بڑھ گئی تھیں اور انہیں امید بندھ گئی تھی کہ وہ اب اسلام اور مسلمانوں کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے بڑھتے ہوئے حوصلوں کا اندازہ ان واقعات سے ہوسکتا ہے جو احد کے بعد پہلے ہی سال میں پیش آئے۔ جنگ احد پر دو مہینوں سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ نجد کے قبیلہ بنی اسد نے مدینہ طیبہ پر چھاپا مارنے کی تیاریاں کیں اور آپ ﷺ کو ان کی روک تھام کے لئے سریہ ابو سلمہ بھیجنا پڑا پھر صفر 4 ھ میں قبائل عضل اور قارہ نے آپ ﷺ سے چند آدمی تبلیغ کے لئے طلب کیے اور ان کو لے کر قتل کردیا اور دو کو پکڑ کر مدینہ لے گئے انہی دو پکڑے جانے والوں میں خبیب بن عدی بھی تھے جن کو مکہ لے جاکر انہوں نے فروخت کیا اور بعد میں ان کو عبرت انگیز طریقے سے قتل کیا گیا اور اسی طرح کا ایک واقعہ چالیس حفاظ کے ساتھ بھی پیش آیا 4 ہجری میں مدینے کے ایک یہودی قبیلہ بنو نضیر نے بدعہدی کرتے ہوئے نبی اعظم وآخر ﷺ کو قتل کردینے کی سازش کی جس سے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بچالیا پھر 4 ہجری ہی میں بنی غطفان کے دو قبیلوں بنو ثعلبہ اور بنومحارب نے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کردیں اور ان کی روک تھام کے لئے رسول اللہ ﷺ کو خود غزوہ پر جانا پڑا۔ یہود کی سازشوں کا حال بھی آپ پیچھے پڑھ چکے انہیں انہی سازشوں کے کے باعث مدینہ اور مضافات مدینہ سے نکل جانا پڑا اور وہ مدینہ سے نکل کر خیبر پہنچے تو انہوں نے ایک نہایت عظیم الشان سازش شروع کی۔ ان کے رئوسا میں سے سلام بن ابی الحقیق ، حئی بن اخطب ، کنانہ بن الربیع وغیرہ مل کر مکہ گئے اور قریش کے سرداروں سے ملاقات کی اور ان کو کہا کہ اگر آپ ہمارا ساتھ دیں تو اسلام کا ستیصال کیا جاسکتا ہے۔ اندھے کو کیا چاہیے ؟ دو آنکھیں قریش مکہ تو ہمیشہ ہی اس سعادت اور کار خیر کے لئے تیار تھے اور ان کے نزدیک اس سے زیادہ اور بھلائی کیا ہوسکتی تھی لہٰذا وہ تو اس کے لئے پہلے ہی تیار تھے ان کو آمادہ کرنے کے بعد وہ لوگ قبیلہ غطفان کے پاس گئے اور ان کو لالچ دیا کہ خیبر کا نصف محاصل ان کو ہمیشہ دیا کریں گے۔ بنو اسد غطفان کے حلیف تھے غطفان نے ان کو مکہ بھیجا کہ تم بھی فوجیں لے کر آئو۔ قبیلہ بنو سلیم سے قریش کی قرابت تھی اس تعلق سے انہوں نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ بنوسعد کا قبیلہ یہود کا حلیف تھا اسی بنا پر یہود نے ان کو بھی آمادہ کیا۔ مختصر یہ کہ تمام قبائل عرب نے مل کر ایک لشکر جرار تیار کیا اور مدینہ کی طرف بڑھنا شروع ہوئے۔ فتح الباری میں تصریح ہے کہ ان کی تعداد دس ہزار تھی۔ (طبقات ابن سعد ج 2 قسم اول فتح الباری ج 7 ص 301) نبی اعظم وآخر ﷺ نے یہ خبریں سنیں تو صحابہ سے مشورہ کیا ۔ صحابہ میں سے سلمان فارسی ؓ ایرانی ہونے کے ناطے سے خندق کے طریقہ سے واقف تھے انہوں نے رائے دی کہ کھلے میدان میں نکل کر مقابلہ کرنا مصلحت نہیں ہے اس لئے ایک محفوظ مقام پر لشکر جمع کیا جائے اور اس کے گرد اگر خندق کھود دی جائے۔ تمام لوگوں نے اس رائے کو پسند کیا اور خندق کھودنے کے آلات مہیا کئے گئے۔ مدینہ میں تین جانب مکانات اور نخلستان کا سلسلہ تھا جو شہر کو پناہ کا کام دیتا تھا۔ صرف شامی رخ کھلا ہوا تھا ، نبی اعظم وآخر ﷺ نے تین ہزار صحابہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل کر اس مقام پر خندق کی تیاریاں شروع کیں۔ یہ ذی قعدہ 5 ھ کی 8؍تاریخ تھی ، نبی کریم ﷺ نے حدود خود قائم کیے اور داغ بیل ڈال کر دس دس آدمیوں پردس دس گز زمین تقسیم کی ، خندق کا عمق پانچ گزرکھا تھا اور یہ خندق بیس دن میں تیس ہزار متبرک ہاتھوں سے انجام پائی۔ جب مسجد نبوی بن رہی تھی تو نبی کریم ﷺ مزدوروں کی صورت میں تھے اور آج اس خندق کو کھودے جانے پر بھی یہی منظر دیکھنے میں آرہا تھا کہ جاڑے کی راتیں ہیں اور تین تین دن کا فاقہ ہے ، مہاجرین و انصاری اپنی پیٹھوں پر مٹی لاد لاد کر باہر پھینکتے جا رہے ہیں اور جوش محبت میں ہم آواز ہو کر کہتے ہیں ؎ نحن الذی بایعوا محمدا علی الجھاد ما بقینا ابدا ہم تو پیغمبر محمد ﷺ سے یہ بیعت کرچکے جان جب تک ہے ہم لڑیں گے کافروں سے ہم سد نبی اعظم وآخر ﷺ ان لوگوں کے جواب میں جو یہ شعر پڑھتے تھے اور بلند آواز سے مل کر پڑھتے تھے ان کو اس طرح جواب دیتے تھے ؎ اللھم انہ لا خرح الا خیر الاخرۃ فبارک فی الانصار والمھاجرۃ فائدہ جو کچھ ہے وہ آخرت کا ہے فائدہ کردے انصار اور باہر والوں میں برکت اے خدا (بخاری کتاب المغازف ، باب غزوہ خندق) خود نبی اعظم وآخر ﷺ بھی مٹی پھینکنے والوں میں شامل ہیں اور شکم مبارک پر مٹی اور گرد اٹ گئی ہے اور اسی حالت میں یہ رجززبان پر ہے۔ واللہ لو لا اللہ ما اھتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا فانزلنا سکینۃ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا ان الالی قد بغوا علینا اذا ارادوا فتنۃ ابینا اس رجز کو آپ اپنی زبان میں یوں ادا کرسکتے ہیں کہ ؎ تو ہدایت گر نہ کرتا تو کہاں ملتی نجات کیسے پڑھتے ہم نمازیں کیسے دیتے ہم زکوٰۃ اب اتار ہم پہ تسلی اے شہ عالی صفات پائوں جما دے ہمارے دے لڑای میں ثبات بے سبب ہم پر یہ دشمن ظلم سے چڑھ آئے ہیں جب وہ بہکائیں ہمیں سنتے نہیں ہم ان کی بات ” ابینا “ کا لفظ جب آتا تھا تو آواز زیادہ بلند ہوجاتی تھی اور مکرر کہتے تھے۔ (صحیح بخاری ، غزوہ احزاب) پتھر کھودتے اتفاقاً ایک سخت چٹان آگئی کسی کی ضرت کام نہیں دیتی تھی اس جگہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ، تین دن کا فاقہ تھا اور پیٹ پر ایک کی بجائے تین پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے لوہے کا کدال مارا اور چٹان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ (صحیح بخاری ، غزوہ احزاب) سلع کی پہاڑی کو پشت پر رکھ کر صف آرائی کی گئی ، مستورات شہر کے محفوظ قلعوں میں بھیج دی گئی تھیں اور چونکہ بنو قریظہ کے حملہ کا اندیشہ تھا اس لئے حضرت سلمہ ؓ بن اسلم دو صد آدمیوں کے ساتھ متعین کیے گئے کہ ادھر سے حملہ نہ ہونے پائے۔ بنو قریظہ کے یہود اب تک الگ تھے لیکن بنو نضیر نے ان کو ملالینے کی کوشش کی ، حئی بن اخطب ام المومنین سدیہ صفیہ کا باپ خود قریظہ کے سردار کعب بن اسعد کے پاس گیا ، اس نے نے ملنے سے انکار کردیا ، اس نے کہا کہ میں فوجوں کا سیلاب بےکراں لایا ہوں ، قریش اور تمام عرب امنڈ آیا ہے اور سب کے سب کا نطریہ اتحاد محمد ﷺ کام خون ہے کیونکہ سب اس کے پیاسے ہیں ، یہ موقع ہاتھ سے جانے دینے کے قابل نہیں ، اب یقینا اسلام اور اہل اسلام کا خاتمہ ہے۔ کعب اب بھی راضی نہ ہوا ، اس نے کہا میں نے محمد ﷺ کو صادق الوعد پایا ہے ، اس سے عہدشکنی کرنا خلاف مروت ہے ، اس طرح حئی کا جادو بہرحال چل گیا اور اس نے بنو قریظہ کو ساتھ ملالیا۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کو یہ حال معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے تحقیق اور اتمام حجت کے لئے سعد بن معاذ ؓ اور حضرت سعد بن عبادہ کو بھیجا اور ان سے فرمایا : کہ اگر درحقیقت بنو قریظہ نے معاہدہ توڑ دیا ہے تو وہاں سے آکر اس خبر کو مبہم لفظوں میں بیان کرنا کہ لوگوں میں بےدلی نہ پھیلنے پائے ، ان دونوں صاحبوں نے بنو قریظہ کو معاہدہ یاد دلایا تو انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ محمد ﷺ کون ہے اور معاہدہ کیا ہے ؟ مختصر یہ کہ بنو قریظہ نے اس ٹڈی دل فوج میں مزید اضافہ کردیا۔ قریش ، یہود اور قبائل عرب کی دس ہزار فوجیں تین حصوں میں تقسیم ہو کر مدینہ کہ تینوں اطراف سے اس زور وشور سے حملہ آور ہوئیں کہ مدینہ کی زمین ہلا کر رکھ دی گئی۔ اس معرکہ کی تصویر آگے سورت کے اندرآنے والی ہے وہاں مزید ذکر کیا جائے گا۔ اس جگہ صرف یہ بتانے کے لئے کہ یہ وہ حالات تھے جن حالات میں زید بن حارثہ کے زینب بنت جحش کو طلاق دینے کا واقعہ رونما ہوا جب کہ زید ایک غلام متصور ہوتے تھے اور زینب قریش میں سے ایک اونچے گھرانے کی عورت تھیں جو نبی کریم ﷺ کی حقیقی پھوپھی کی بیٹی بھی تھیں اور خود رسول اللہ ﷺ نے نہایت زور لگا کر شادی بھی کرائی تھی پھر اس کے باوجود زید بھی محمدرسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا اس پر طرہ یہ کہ جب طلاق واقع ہوگئی اور آپ جنگ احزاب کے اس محاصرہ سے فارغ ہوگئے کہ معاصرین تقریباً ایک مہینہ محاصرہ کرنے کے بعد ناکام واپس ہونا شروع ہوگئے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع موصول ہوئی کہ زینب کو نکاح کا پیغام بھیج دو تاکہ عدت کے بعد آپ ﷺ اس کو اپنے نکاح میں لے آئیں۔ آپ ﷺ کو جب یہ حکم موصول ہوا تو فطرت انسانی کے مطابق آپ ﷺ کے دل میں ایک نہایت ہی حساس قسم کا خطرہ پیدا ہوا وہ یہ کہ اندرون ملک حالت خراب ہے۔ زید نے طلاق دے کر قریش مکہ کے خاندان میں ایک خاص قسم کا مسئلہ پیدا کردیا ہے ادھر معاشرہ کے اندر زید بن محمد کے نام سے زید کو پکارا جاتا ہے اور اس طرح گویا ایک متبنیٰ بیٹے کی بیوی کے ساتھ شادی کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنی حقیقی بہو کے ساتھ شادی کرنے کا دعویٰ کردے تو گویا بیرون شہر تو پہلے ہی آگ لگی ہوئی تھی اب اندرون شہر بھی آگ لگ جائے گی اور اس طرح چوطرفہ آگ لگ گئی تو حالات کا کیا بنے گا ؟ یہ اور اسی طرح کے خیالات کا دل میں پیدا ہونا ایک فطری امر تھا بلا شبہ اس طرح کے خطرہ کا دل میں پیدا ہونا حقیقت تھی اور بعد کے حالات نے ثابت بھی کردیا کہ اس طرح کا خطرہ محسوس کرنا فی الواقع صحیح اور درست تھا لیکن عنداللہ رسول اللہ ﷺ کے نام پر جو متنبی کو جو حقیقی بیٹے کے مقام پر لاکھڑا کیا گیا تھا اس کا رفع کرنا بھی نہایت ضروری تھا اور اگر یہ نکاح نہ کرایا جاتا تو ان دونوں باتوں کو اس قدر اہمیت دی جاچکی تھی کہ ان کے ختم ہونے کی اور کوئی صورت موجود نہ تھی اور ان دونوں باتوں سے جو آنے والے زمانہ میں نہایت ہی خطرناک قسم کے الزامات پیدا ہوسکتے تھے ان کا قلع قمع کرنا بھی ضروریات دین میں سے تھا اس لئے منشاء ایزدی یہی تھا کہ یہ نکاح کرایا جائے۔ زیر نظر آیت میں نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرکے یہ فرمایا گیا ہے کہ کفاروں اور منافقوں کے اس طرح کے پروپیگنڈے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے جو کچھ اس کا رد عمل ہوگا اس لئے اس کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ ان ظاہری بتوں کو توڑنے سے پہلے جن کے توڑنے کا وقت بھی قریب آتا چلاجارہا ہے ان دلوں کے اندر کے بتوں کو مسمار کردیا جائے تاکہ یہ دلوں کی زمین پاک وصاف ہو اور ایمان کا جو بیج ان دلوں میں بویا جارہا ہے وہ صحیح طریقہ سے نشو ونما حاصل کرے۔ ان موہوم رشتوں کا جو تقدس لوگوں کے دلوں میں قائم ہوچکا ہے اس کو ایک ہی وار کرکے ختم کردیا لہٰذا آپ ﷺ کو آگے بڑھ کر اللہ کے حکم کے مطابق اپنے متنبی کی بیوی سے نکاح کرلینا چاہیے ، اس سے ایک طرف اس خاندان کا زخم ختم ہوجائے گا جو زید کے طلاق دینے کی وجہ سے لگا ہے اور دوسری طرف آنے والے سارے خطرات کا ازالہ ہوجائے گا کہ محمد رسول اللہ ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں اور ہم جو آپ ﷺ پر نبوت کے ختم کردینے کا اہم اعلان کرنے والا ہیں اس اعلان کے لئے یہ ثابت کردینا بھی نہایت ضروری ہے اور اس کے ثبوت کا اس سے زیادہ آسان اور بہتر حل اور کوئی نہیں ہوسکتا اگرچہ بظاہر یہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ غور کرو کہ اس آیت نے دین کے لئے جتنے مصلحت اندیش پیدا ہونے والے تھے ان سب کا خاتمہ کرکے رکھ دیا کہ دین ان واضح اور صاف باتوں کا نام ہے جن کے لئے کسی مصلحت کی کوئی ضرورت نہیں صرف دین کے لئے ایک مصلحت ہزاروں مصلحتوں پر بھاری اور حاوی ہے کہ دین کے معاملہ میں موہوم خطروں سے ڈر کر کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ اس خوف سے کہ لوگ ہمارے مخالف ہوجائیں گے اور دین کا کام رک جائے گا اس طرح کی مصلحت دین کے معاملہ میں کبھی قابل برداشت نہیں ہوسکتی کیونکہ دین کا معاملہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے اور ہر آدمی کا ذاتی معاملہ ہے نہ تو انسان کو خود مجبور ہونا چاہیے اور نہ ہی دوسروں کو مجبور کرنا چاہیے جو بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے کہ یہ اسلام کی ہے تو اس پر بےدھڑک عمل کرنا چاہیے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف دل میں نہیں رکھنا چاہیے ، اسلام کے داعی کا اول فرض ہی ہے کہ اس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی رضا ہو اور اس کے سوا اور کچھ نہ ہو اگر لوگوں کی رضا کا طالب ہوا تو سمجھ لو کہ وہ مشرک ہوگیا اور جو خود مشرک ہے وہ اسلام کی دعوت کیا خاک دے گا ؟ کاش کہ یہ اصول ہمارے مصلحت اندیش علماء اسلام کو بھی ازبر ہوتا اور آج وہ اس طرح کی مصلحتوں سے کام نہ لیتے جن مصلحتوں سے وہ کام لے رہے ہیں اور انہی مصلحتوں سے کام لینے کے باعث وہ کلی طور پر دین اسلام ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور سوائے اس نام کے جو وہ اسلام کا استعمال کر رہے ہیں ان کے پاس اسلام کی ایک چیز بھی اب موجود نہیں رہی اگرچہ وہ بزعم خویش اپنی اپنی جماعتوں کے امیر اور قائدورہنما ہی کیوں نہ کہلواتے ہوں اس وقت دنیا میں جتنی قومیں آباد ہیں ان میں سے کسی قوم کے لیڈر کو لے لو جس سے آپ واقف ہوں اور اپنے ان مذہبی راہنمائوں میں سے اس راہنما کو لے لو جس کو تم اپناراہنما سمجھتے ہو اور خالی الذہن ہو کر دونوں کے کردار ، دونوں کے عمل کو دیکھتے چلے جائو بلکہ ایک ایک چیز اور ایک ایک بات کو نوٹ کرتے چلے جائو یقینا عمل وکردار کے لحاظ سے نمبر اس کو زیادہ ملیں گے جو موجودہ اسلام کا داعی و راہنما نہیں لیکن بلا شک وشبہ علامہ ، مولانا ، حضرت العلام ، فقیہ العصر ، محدث العصر ، مفتی ، قاضی ، حافظ ، پروفیسر جیسے ناموں کے سوا کوئی چیز آپ کو راہنمایان اسلام میں نہیں ملے گی ہاں ! یقینا جن موجودہ دور کے راہنمایان اسلام کے ناموں کے ساتھ یہ لاحقے اور سابقے استعمال ہوتے ہیں کیا وہ میری اس بات کو سچ کہیں گے ہرگز نہیں وہ تو سنتے ہی جھوٹ جھوٹ کا نعرہ بلند کریں گے کیونکہ انہوں نے سچ کا نام ہی اب جھوٹ رکھ لیا ہے اور جھوٹ کو وہ سچ کہتے ہیں۔ جہاں پوری دنیا میں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس وقت حالات کیا سے کیا ہوگئے اور نئی نئی ایجادات نے لوگوں کو مبہوت کرکے رکھ دیا تو کیا ان کا حق نہیں تھا کہ وہ بھی جدت سے کام لیتے اور دقیانوسی نہ کہلواتے ؟ انہوں نے بھی ترقی کی اور ناموں کے الٹ پھیر سے اپنا الو سیدھا کرلیا۔ جب دنیا میں ہر آدمی اپنا ہی الو سیدھا کرنے پر لگا ہوا ہے تو کیا ان کو اس بات کا حق نہیں تھا ؟ انہوں نے بھی اپنا حق استعمال کیا اور کفرو اوہام کا نام سچ رکھ دیا اور حق وسچ کا نام کذب ودروغ اور اس طرح معمولی الٹ پھیر سے پورے دین اسلام کا نقشہ بدل دیا۔ بہرحال راہنمایان اسلام اور پیشوایان دین چاہیں جو کہیں اور کریں ، اسلام کبھی وقتی مصلحت کو دیکھ کر اپنی دعوت نہیں دیتا بلکہ وہ ہر حال میں اپنی دعوت کو جاری رکھتا ہے اور وہ اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ صرف زبانی دعوت دینے کی بجائے عملی دعوت دینے کا طریقہ اختیار کرو اور زمانہ کے زیر وبم پر نظر نہ رکھو ، رضائے الٰہی کے طالب رہو اور یاد رکھو کہ زمانہ کے اتار چڑھائو کے ساتھ ساتھ رضائے الٰہی تبدیل نہیں ہوتی وہ جو پہلے تھی وہ اب ہے اور جو اب ہے وہ رہتی دنیا تک رہے گی۔
Top