Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا١ؕ وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں اَمْوَالَ : مال الْيَتٰمٰى : یتیموں ظُلْمًا : ظلم سے اِنَّمَا : اس کے سوا کچھ نہیں يَاْكُلُوْنَ : وہ بھر رہے ہیں فِيْ : میں بُطُوْنِھِمْ : اپنے پیٹ نَارًا : آگ وَسَيَصْلَوْنَ : اور عنقریب داخل ہونگے سَعِيْرًا : آگ (دوزخ)
جو لوگ بےباپ بچوں کا مال ناانصافی سے خورد برد کرلیتے ہیں تو یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اپنے پیٹ میں آگ کے انگارے بھر رہے ہیں اور قریب ہے کہ دوزخ میں جھونکے جائیں
بےسہاروں اور بےباپوں کا مال کھانے والے اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں : 26: محتاج محتاج ہی ہے خواہ کوئی ہو۔ لیکن جن کا دنیا میں کوئی سہارا ہی نہ ہو جیسے بچے کے لئے والدین قانون فطرت میں ایک بہت بڑا سہارا ہیں اور جو بےباپ ہوں آخر ان کا سہارا کون ہوگا ؟ اور ایسے بےسہاروں کا مال کھا جانے والے انسانوں کو فہرست میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں ؟ انسان کے تو معنی ہی انس و محبت ہیں پھر جس میں انس و محبت نہ رہا وہ انسان کا ہے کا ہوا ؟ ہاں ! ایسے بھی بہت ہیں جن کے ڈھانچے تو انسانوں کے سے ہیں لیکن انسانیت نام کی شے فی الواقع ان میں نہیں ہے اور وہ وہی ہیں جو مال جمع کرنے کی ہوس میں نہ محتاج دیکھتے ہیں نہ مسکین کی پروا کرتے ہیں اور نہ یتیم اور بےسہاروں کا کوئی درد ان کے سینے میں ہے۔ ان کا کام کھانا ہے اور حلال و حرام کی تمیزان کے نزدیک کوئی چیز نہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ لوگ صرف ایک ہی کام کے لئے دنیا میں آئے ہیں کہ مال جمع کریں اور پھر اس کو بار بار گنتے رہیں چناچہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ اَلَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَّعَدَّدَہٗ (الھمزہ : 2:104) ” وہ وہی ہے جس نے مال جمع کیا اور پھر اس کو گن گن کر رکھا۔ “ کیوں ؟ فرمایا اس لئے کی مرنے پر اس کو یقین ہی نہیں۔ اس کے ذہن میں شاید یہی ہے کہ وہ خود اور اس کا یہ مال کبھی ختم نہیں ہوں گے یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗ اَخْلَدَہٗ (الھمزہ : 3:104) ” وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔ “ گویا مال نے اس کو ایسا اکھڑ بنا دیا ہے کہ اس کا کام لوگوں کی تحقیر و تذلیل اور غرباء و مساکین کے ساتھ زیادتی ہے اور مال کو گن گن کر رکھنے سے اس کی ہوس مزید بڑھتی ہی چلی جاتی ہے حتی کہ وہ کسی ضابطہ حیات کا پابند نہیں رہنا چاہتا وہ اپنی خواہش کا بندہ ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کو حیات جاوداں بخش دے گا اور دولت کے نشہ میں وہ اس قدر چور ہوچکا ہے کہ اس کو اپنی موت تک یاد نہیں رہی اس کے خیال میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ ایک وقت ایسا بھی آنا ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوجانا ہے۔ ایسا مادہ پر ستانہ نظریہ حیات جو نزول قرآن کے وقت تھا اب بھی ہے۔ اب بھی ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو اس دنیا کے مال و دولت اور جاہ اقتدار کو وہ سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یہ چیز ملے تو وہ پھول جاتے ہیں اور ڈینگیں مارتے ہیں کہ اس مال و دولت اور اقتدار نے ہمیں عزت دار بنا دیا اور اگر یہ سب کچھ نہ ملے تو اس وقت کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں ذلیل کردیا۔ اس عزت و ذلت کا معیار اس کے نزدیک مال و دولت اور جاہ و اقتدار کا ملنا یہ نہ ملنا ہے پھر اس پر طرہ یہ کہ ان اقتدار و عزت مل جائے تو یہ ان کا کمال ہے اور اگر کہیں شکست کھا جائیں تو وہ اللہ کے ذمہ ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عزت و مال اور اقتدار آئے تو اس کو اللہ کی طرف نسبت کرنی چاہئے تھی اور اگر کوئی کمزوری ہو تو اس کو اپنی طرف نسبت کرنا چاہئے تھا۔ پھر یہ بھی کہ دنیا میں جو کچھ بھی ملتا ہے وہ ایک طرح کی آزمائش ہوتی ہے کیونکہ اللہ نے اگر دولت اور طاقت دی ہے تو امتحان کے لئے دی کہ وہ اسے حاصل کر کے شکر گزار بنتے ہیں یا ناشکری کرتے ہیں۔ اگر مفلس یا تنگ حال بنایا ہے تو بھی دراصل امتحان ہی ہے کہ صبر اور قناعت کے ساتھ راضی بہ رضا رہتے ہیں اور جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے ان مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں یا اخلاق و دیانت کی حدود کو پھاندے جاتے ہیں اور اپنے مالک حقیقی کو کو سنے دینے لگتے ہیں۔ فرمایا کہ مال نے ان کو ایسا اندھا کردیا ہے کہ غریبوں ، مسکینوں اور یتیموں کو کھلانے کی بجائے ان کا مال بھی ہڑپ کر جانے کے لئے ہر وقت بےتاب رہتے ہیں اور ان کا ہاتھ جب پڑجاتا ہے وہ بغیر سوچے سمجھے اس کو نگلنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ یہ وہ مال ہے جس کا نتجہب دوزخ کے دھکتے انگارے ہیں۔ اس طرح وہ جو کچھ بھی اپنے پیٹوں میں بھر رہے ہیں اور اپنے مصرف میں لا رہے ہیں اور اپنی تجوریوں میں جمع کر رہے ہیں دراصل وہ دوزخ کی آگ ہے اور وہ وقت عن قریب آنے والا ہے کی یہی آگ ان کو اور ان کے سارے مال کو جلا کر راکھ کا ڈھیر کر دے گی۔ اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں گی لیکن پھر کھلی کی کھلی ہی رہ جائیں گی اس لئے کہ اب ان کے اس زیاں کا کوئی مداوا ان سے نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی کوئی دوسرا ان کے اس نقصان کو پورا کرنے والا ہوگا۔ 27: تقسیم میراث کے معاملہ میں پہلا حکم یا اصول یہ ہے کہ مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہے۔ یعنی لڑکی سے لڑکے کا حصہ دو گنا ہوگا۔ گویا یہ ایک کلیہ ارشاد فرما دیا گیا جس نے لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کو میراث کا مستحق بنا دیا اور پھر ہر ایک کا حصہ بھی مقرر کردیا اور یہ اصول بھی معلوم ہوگیا کہ جب مرنے والے کی اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں تو ان کے حصہ میں جو مال آئے گا اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر لڑکے کو لڑکی کے مقابلہ میں دوگنا مل جائے گا یعنی اگر کسی مورث نے ایک لڑکا اور دو لڑکیاں چھوڑیں تو مال کے چار حصے کر کے 2/4 لڑکے کو اور 1/4 لڑکی کو دے دیا جائے گا لیکن اگر یک لڑکا اور تین لڑکیاں ہوں تو پھر ؟ ظاہر ہے کہ اس صورت میں کل مال کے پانچ حصے ہوں گے جن میں سے 2/5 لڑکے کو اور 1/5 لڑکی کو مل جائے گا۔ وقس علی ہذا۔ اندازہ کیجئے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا کس قدر انتظام کیا اور کتنا پہارا انداز اختیار فرمایا کہ حکم کے اند یہ احتیاط رکھ دی کہ اگر لڑکیوں کو حصہ نہ دیا تو گویا ترکہ تقسیم ہی نہ کیا۔ کیونکہ تقسیم میں لڑکیوں کے حصہ کو اصل و بنیاد ٹھہرایا گیا۔ جیسے اکائی ایک بنیادی چیز ہے اگر اکائی نہ رہے تو حساب چل ہی نہیں سکتا۔ یہ نہیں ارشاد فرمایا کہ ” دو لڑکیوں کو ایک لڑکے کے حصہ کے برابر “ بلکہ ارشاد یہ فرمایا کہ ” لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دو “ جو لوگ بہنوں کو حصہ نہیں دیتے یا دیتے ہیں تو جھوٹ موٹ کا۔ وہ کیسے ؟ کہ ہم نے تو دیا تھا لیکن انہوں نے معاف کردیا۔ معاف کیسے کردیا ؟ بادل نخواستہ کہ ملنے کا تو ہے نہیں پھر کیوں بھائیوں سے نہیں بلکہ پورے معاشرے سے برائی مول لیں اور لوگ کہیں گے ؟ ایسے ہی شرما شرمی عدالت میں بیان ہوگئے اور قانون کا پیٹ بھر گیا ہاں ! اس لیے کہ قانون نافذ کرنے والوں کے پیٹ جو بھر دیے گئے وزیر مال سے لے کر پٹواری سب نے اپنا اپنا حصہ وصول کرلیا۔ اس طرح وراثت کی تقسیم عنداللہ کوئی تقسیم نہیں اور یہ ظلم عظیم ایسا ظلم ہے کہ اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں بڑے بڑے پڑھے لکھے حاجی ، نمازی ، اللہ والے ، دیندار نہیں بلکہ دین کے ٹھیکیدار سب اس معاملہ میں برار چلے آ رہے ہیں اس لیے کوئی شخص کسی کو کچھ کہہ نہیں سکتا اس لیے اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے خود سوچیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں ؟ اس آیت سے علم فرائض کی ابتداء ہو رہی ہے اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ علم فرائض کیا ہے ؟ علم فرائض ان احکام شرعیہ کا نام ہے ان کا تعلق میت کے چھوڑے ہوئے مال سے ہے اور میت کے چھوڑے ہوئے مال پر دوسرے لوگوں کا استحقاق اور ملک ثابت ہوجانے کا نام میراث ہے اور موجودہ رشتہ داروں کے جو حقوق اور حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں یہی فرائض ہیں۔ علم فرائض نہایت شریف اور قابل قدر علم ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کے حاصل کرنے اور تعلمض کرنے کی نہایت تاکید اور اس پر ترغیب بھی فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک نہایت فصیح وبلیغ پردرد و رقت آمیز موثر وعظ میں فرمایا ہے کہ اے لوگو ! میں تم میں ہمیشہ نہیں ہوں گا۔ فرائض کو سیکھ لو اور یکے بعد دیگرے لوگوں کو سکھاؤ پھر فرمایا کہ یاد رکھو وہ وقت قریب ہے کہ وحی کا دروازہ بند ہوجائے گا اور علم کے معدوم ہونے کا وہ زمانہ آئے گا کہ دو آدمی ایک ضروری مسئلہ میں جھگڑتے ہوں گے اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہ ملے گا اور ایک دوسرے موقعہ پر ارشاد فرمایا کہ اے لوگو ! فرائض کو سیکھو اس لیے کہ وہ نصف علم ہے اور سب سے پہلے جو علم میری امت سے اٹھایا جائے گا وہ علم فرائض ہے۔ غور کیجئے کہ اس ” اٹھائے جانے “ کے دو ہی مفہوم ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اس علم کا جاننے والا اور پوری سمجھ رکھنے والا کوئی نہ رہے اور دوسرا یہ کہ لوگ اس کے مطابق ورثہ تقسیم کرنا عملا چھوڑ دیں اور آج یہ دونوں باتیں ہی مسلمانوں میں موجود ہیں۔ ایک بار پھر سوچ لیجئے کہ آج کتنے ہیں جن کے ناموں کے ساتھ حضرت العلام ، علامہ صاحب ، مولانا صاحب اور پروفیسر و پر نسپل کے سابقے اور ایم اے اسلامیات ایم ایڈ اور پی ایچ ڈی کے لاحقے لگتے ہیں لیکن علم سے ایسے کورے ہوتے ہیں جیسے تازہ بھٹی سے نکلا ہوا برتن۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ وان مثل العالم الذی لا یعلم الفرائض کمثل البرنس لا راس لہ (جمع الفوائد) ” اور وہ عالم جو فرائض نہ جانتا ہو ایسا ہے ی سے بےسر کے ٹوپی “ یہ تو بےسر کے ٹوپی کا حال ہے اور جو سر ہی بغیر ٹوپی ہو اس کے لیے کوئی کیا کہے گا ؟ اس لیے تو آج علمائے کرام نے ما شاء اللہ سر سے ٹوپی اتار ہی دی ہے کہ نہ رہے بانس اور نہ بےبانسری۔ فی زماننا مسلمانوں میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے و دنیائے فانی کی محبت میں پھنس کر تقسیم وراثت کے شرعی اصولوں پر عمل کرنے سے کلی طور پر گریز کرتے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری لاحق نہ ہو پھر اگر اپنے آپ کو گناہگار سمجھتے ہوں انحراف و گریز کیا تو یہ فسق اور گناہ عظیم کیا لیکن اگر خدانخواستہ قرآنی قانون سے انکار کیا یا اس سے نفرت اور اس کو حقیر سمجھنے کی وجہ سے یہ نوبت آئی تو یہ صریح کفر ہوا۔ دنیا کے چند روزہ عیش و عشرت کی خاطر آخرت کی دائمی نعمت سے محروم ہوجانا اور عذاب دوزخ کو اختیار کرنا دنیا کے اس حامل کے پیش نظر مستقبل کو برباد کرلینا کتنی بڑی حماقت ، کوتاہ نظری اور ناعاقبت اندیشی ہے کسی نے کیا خوب کہا : ؎ ارے یہ کیا ظلم کر رہا ہے کہ مرنے والوں پہ مر رہا ہے جو دم حسینوں کا بھر رہا ہے بلند ذوق نظر نہیں ہے
Top