Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ : اور چور مرد وَالسَّارِقَةُ : اور چور عورت فَاقْطَعُوْٓا : کاٹ دو اَيْدِيَهُمَا : ان دونوں کے ہاتھ جَزَآءً : سزا بِمَا كَسَبَا : اس کی جو انہوں نے کیا نَكَالًا : عبرت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور جو چور ہو خواہ مرد ہو یا عورت تو اس کے ہاتھ کاٹ ڈالو جو کچھ انہوں نے کیا ہے یہ اس کی سزا ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت کی نشانی ، اللہ غالب اور حکمت رکھنے والا ہے
چور مرد ہو یا عورت ان کی دینوی سزا کا بیان واضح الفاظ میں : 114: پیچھے آپ ان کا حال پڑھ چکے ہیں جو زمین میں فساد بپا کرنے والے ہیں اور یہ بات بھی بالکل صحیح اور درست ہے کہ چور کا فعل بھی زمین میں فساد بپا کرنے کے ضمن میں آتا ہے اور کوئی شخص یہ بات نہیں کرسکتا کہ چوری کرنا ” فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ “ نہیں۔ پھر یہاں اس کی سزا الگ کر کے کیوں بیان کی گئی ہے ؟ نظم قرآنی سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ” فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ “ کی جو سزا وہاں بیان کی گئی ہے وہ محض چور کے لئے نہیں بلکہ ایک مجموعہ جرائم کی ملی جلی سزا تھی۔ اس لئے محض چور کی سزا کو اس آیت سے الگ کر کے بیان کردیا گا چ تاکہ کوئی بات مبہم نہ رہے۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اہل عرب کے نزدیک جن کی زبان اور محاورات و ضرب الامثال کے مطابق قرآن کریم نازل ہوا وہ سارق یعنی چور کی تعریف کیا کرتے ہیں۔ قرطبی کے بیان کے مطابق ” اہل عرب سارق اس کو کہتے ہیں جو پوشیدہ طور پر کسی محفوظ جگہ میں آئے اور وہاں سے ایسا مال اٹھا لے جائے جو اس کا اپنا نہیں۔ اس وضاحت کے بعد پتہ چل گیا کہ اہل اسلام میں چور کا ہاتھ کاٹنے کے لئے جن شرائط کا پایا جانا ضروری قرار دیا گیا ہے وہ انکا اپنا اضافہ نہیں بلکہ لفظ سارق لغوی مفہوم سے وہ ماخوذ ہیں قطع ید کے لئے جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں : 1۔ چوری کرنے والے مرد یا عورت کا بالغ ہونا۔ 2۔ چوری کرنے والے کا عاقل ہونا ، پاگل اور دیوانہ نہ ہونا مکمل طور پر یا عارضی طور پر۔ 3۔ چوری کرنے والا مال مسروقہ کا مالک نہ ہو کلی طور پر اور نہ جزوی طور پر۔ 4۔ مال مسروقہ وہ اشیاء ہوں جو سرقہ کی مد میں آتی ہیں اور یہ بھی کہ وہ مال کم از کم اتنا ہو جو مقررہ اسلامی حکومت نے سرقہ کی مقدار مقرر کرتے وقت مقرر کردیا ہو اس سے کم نہ ہو۔ 5۔ جس جگہ سے چوری کی گئی ہو وہ جگہ ایسی محفوظ ہو جہاں کسی چیز کا رکھنا عرف عام اور تشریح قانون میں مقام محفوظ میں آتا ہو یعنی وہ جگہ شارع عام اور اس طرح کا کوئی کھلا اور عام مقام نہ ہو جہاں آدمی جب چاہے داخل ہوسکے اس پر کوئی پابندی نہ ہو اور یہ بھی کہ وہ مال چھپا کرلیا گیا اعلانیہ لوٹانہ گیا ہو کیونکہ یہ بات ڈاکہ کی تعریف میں آتی ہے جس کا حکم پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ ہاں ! چوری ہوئی ہو اور چور کا پتہ بھی چل جائے لیکن وہ ان شرائط میں نہ آتا ہو تو اگرچہ حد تو اس پر قائم نہ ہوگی لیکن عدالت تعزیر اس پر لگانے کی مجاز ہے تاکہ جرائم کا انسداد ہو سکے اور اس کی تشریح کتب احادیث اور قانون اسلامی میں موجود ہے اور زیر نظر آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ چور کی یہ سزا حدود اللہ میں داخل ہے جس کو کوئی انسان اپنی طرف سے معاف نہیں کرسکتا خواہ مال مسروقہ کا مالک ہی کیوں نہ ہو۔ جس چوری پر حد جاری ہوگی اس کی مالیت حکومت وقت کی صوابدید پر رکھی گئی ہے صدر اول میں خود رسول اللہ ﷺ اس کے مجاز تھے کہ وہ جو حد مقرر فرمادیتے اس لئے جو وقت کے حالات کے مطابق آپ نے مقرر فرمایا وہ بالکل صحیح اور درست تھا اور اس طرح خلافت راشدہ میں جو اس کی حد مقرر کی گئی صحابہ کرام ؓ کے مشورہ سے وہ طے پائی اور قانون میں وہ داخل ہوگئی اور آج بھی حکومت اسلامی اس کی ایک خاص حد مقرر کرنے کی مجاز ہے اور اسلامی مقننہ جو اس میں مقرر کر دے گی وہی اس وقت کے لئے درست ہوگا اور وقت کے ساتھ اس میں مناسب ترمیم بھی کی جاسکے گی۔ اٹھنی ، چونی کی مقدار میں آپس کے جھگڑے اس سے سب ختم ہوجاتے ہیں اور حالات وقت کی رعایت بھی ملحوظ خاطر رکھی جاسکتی ہے۔ اس طرح یہ بات کہ ” شرعی ہاتھ “ کی مقدار کتنی ہے پنجہ تک ہے ، ہیلیی سمیت ہے یا علاوہ ہتھیلی کے ہے۔ کہنی تک ہے یا کندھے تک ہے۔ ہاتھ دایاں ہے یا بایاں ہے اگر چور دوبارہ چوری کرے تو کیا اس کا ہاتھ یعنی دوسرا ہاتھ کٹ جائے گا یا نہیں۔ ان ساری باتوں میں اختلاف کیا گیا ہے اور فقہاء کا اختلاف اس بات پر دال ہے کہ اس میں بات کی گنجائش ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے معاملات میں ہر آدمی کو بولنے کا حق نہیں ہوتا اور تنقید برائے تنقید کا کچھ مطلب نہیں۔ ہاں ! صرف ان لوگوں کا حق ہے کہ اس مسئلہ میں گفتگو کریں جو اسلامی حکومت کی مقننہ کے افراد ہوں عوام چاہیں تو جب ایک قانون بنایا جا رہا ہو وہ اپنی رائے پیش کردیں اور پھر قانون کی ذمہ دار پارٹی جو کچھ مقرر کر دے اس کے مطابق عمل ہوتا رہے۔ چور مرد ہو یا عورت اس نے اپنے کئے کی سزا پائی ہے : 115: چور کی یہ سزا مقرر کرنے کی دو وجوہات اس جگہ بتائی ہیں ایک یہ کہ ” جَزَآءًۢ بِمَا کَسَبَا “ یعنی یہ ان کے اپنے کئے کی سزا ہے اس لئے اب وہی اسکو بھگتیں گے دوسری وجہ یہ ارشاد فرمائی گئی کہ ” نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ 1ؕ“ نکال اس سزا کو کہتے ہیں جو دوسرے لوگوں کے لئے عبرت کا باعث ہو اور یہ دونوں مقصد اس طرح پورے ہو سکتے ہیں جیسے قرآن کریم نے حکم دیا۔ آج کئی لوگ ان سزاؤں کو بہت شدید اور سخت خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک غیر مہذب اور غیر متمدن سوسائٹی کے لئے تھیں جب کہ وہاں کوئی جیل خانہ موجود نہ تھا پھر اس زمانہ کے بعض متر جمین اور حاشیہ نویسوں نے اس پر بڑا زور قلم صرف کیا ہے کہ یہ سزا صرف عادی مجرموں کے لئے ہے جنہیں قید وبند کی سختیاں بھی درست نہ کرسکیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے جس پاکیزہ معاشرہ کا سنگ بنیاد رکھا ہے جس طرح قوم کے تمام افراد کے حقوق وفرائض کا توازن قائم کیا ہے۔ رعایا کے ہر فرد کی جان مال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت اسلامیہ پر عائد کی ہے ان تمام امور کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ سزائیں سخت اور شدید سہی لیکن عین حکمت ہیں۔ آپ خود انصاف کیجئے کہ آپ کی شفقت کا زیادہ مستحق کون ہے ؟ وہ بیوہ ، وہ یتیم ، وہ پر امن شہری جس کی عمر بھر کا اندوختہ راتوں رات لوٹ لیا گیا یا ہٹا کٹا چور۔ جب سے مظلوم سے زیاد ظالم ، لٹنے والے سے زیادہ لوٹنے والا شفقت و عنایت کا مستحق سمجھا جانے لگا ہے اس وقت سے جرموں اور مجرموں میں ہوش ربا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہم نے اپنے ہاں ہی دیکھیں ۔ پولیس ہے ، مجسٹریٹ ہیں ، جیل خانے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں لیکن جرائم میں زیادتی ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ جس علاج سے بیماری کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی چلی جا رہی ہو وہ علاج ناکام ہے۔ اگر ہم مریض کو واصل بحق کرنے ہی کا مصم ارادہ کرچکے ہیں تو یہ دوسری بات ہے ورنہ مریض اور اس کے سارے کنبے کی خیر خواہ کا تقاضا تویہی ہے کہ دوسرا علاج کیا جائے۔ تاریخ کہتی ہے کہ نبوامیہ کے ایک خلیفہ ہشام کو بھی تہذیب وشائستگی کا دورہ پڑا تھا اور اس نے بھی ہاتھ کاٹنے کی سزا ملک سے اٹھادی تھی لیکن جب چوری کی وارداتیں آئے دن بڑھنے لگیں اور کوئی دوسرا حیلہ کار گرنہ ہوسکا تو دہ سال کے قلیل عرصہ کے بعد پھر اسے قرآنی سزا نافذ کرنا پڑی۔ اس نے تو پھر اپنی غلطی کو بھانپ لیا اور دو سال کے بعد ہی اس کا ازالہ کردیا لیکن ہم تو حالات کی انتہائی نزاکت کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اگر ملک بھر میں دس بیس یا چالیس پچاس چوروں کے ہاتھ کٹ جائیں اور آپ کا پور املک چوری کی لعنت سے نجات حاصل کرلے اور اس ملک کی نئی پود میں یہ مجرمانہ خیالات سر ہی نہ اٹھائیں تو میرے ناقص خیال میں تہذیب و شائستگی کا یہ مظاہرہ اس مظاہرے سے بدرجہابہتر ہوگا کہ ہمارے ملک میں کسی کا مال محفوظ نہ ہو اور ہماری جیلوں میں سوسائٹی کے ان کرم فرماؤں یعنی چوروں کیلئے قورمہ اور پلاؤ پک رہا ہے اور انکی شہ بڑھائی جا رہی ہے کہ خوب تیار ہوجاؤ اور آئندہ اس طریقے سے چوری کرو کہ پکڑے نہ جاؤ ۔ یہ وقت وہ ہے کہ اس دنیا کے کسی حصے کی کوئی بات پوشیدہ نہیں رہی۔ ہر ملک کے حالات اس طرح دیکھے جاسکتے ہیں جیسے شیشے میں اپنا منہ۔ بچہ بچہ یہ بھی جانتا ہے کہ پوری دنیا میں یہ قانون اسلامی اگر کسی حد تک نافذ ہے تو صرف سعودیہ ہے۔ وہاں اب بھی چور کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جاتی ہے اور سعودیہ کا کوئی ایسا قصبہ یا شہر موجود نہیں جہاں کی کوئی بات آپ سے پوشیدہ ہو کبھی غور کیا آپ نے کہ وہاں کتنی تعداد ہاتھ کٹوں کی موجود ہے ؟ اگر کوئی بھی وہاں ہاتھ کٹا موجود ہی نہ ملے تو اس کا مطلب کیا ہوا یہی ناکہ وہاں چوری کا فعل نہیں ہوتا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہاں یہ سزا نافذ ہے جبھی کوئی چوری کرے گا اور پکڑا جائے گا تو اس کا ہاتھ کٹ جائے گا اور کسی طرح کی کوئی رعایت اس کو نہیں ملے گی اور چونکہ اس جگہ چوری کی بات ہو رہی تھی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں ہر ایک جرم کی یہی حقیقت ہے کہ جرائم اتنے کم ہیں کہ آپ کسی مہذب سے مہذب اور امیر ترین ملک کے ساتھ بھی اس معاملہ میں اس کا موازنہ نہیں کرسکتے۔ مختصر یہ کہ چوری شریعت اسلامی میں ایک بدترین جرم ہے۔ اسلام نے فرد و جماعت دونوں کے لئے امن وامان اور سکون خاطر کا جو بہترین وکامل ترین نظام قائم کیا ہے چور اس میں رخنہ ڈالنا اور اس ساری فضا کو درہم برہم کر ڈالنا چاہتا ہے۔ آیت کے اسی ٹکڑے نے واضح کردیا کہ چوری کا بدبخت مجرم ہے ہی ایسی سخت سزا کا مستحق۔ پھر شریعت موسوی کا قدم بھی اس باپ میں کچھ پیچھے نہیں کچھ آگے ہی ہے ۔ نقب زن کی جان سے امان اٹھ جاتی ہے کوئی اسے قتل کر ڈالے تو اس کے خون کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ اگر چور سیند مارتے ہوئے دیکھا جائے اور کوئی اسے مار بیٹھے اور وہ مر جائے تو اس کے لئے خون نہ کیا جائے گا۔ (خروج 22 : 2) اس جگہ تو اجازت ہے لیکن دوسری جگہ نقب زن کے قتل کا حکم ملتا ہے ” اگر کوئی شخص اپنے بھائیوں بنی اسرائیل میں سے کسی کو چرانے میں پکڑا جائے اور اس کا بیوپار کرے اسے بیچ ڈالے تو چور مار ڈالا جائے اور تو شرک اپنے درمیان سے دفع کر۔ “ (استثناء 24 : 7) زیر نظر آیت کے آخری حصہ میں فرمایا ” اللہ غالب اور حکمت رکھنے والا ہے۔ “ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ 0038 گویا اس جگہ صفت عزیز لا کر یہ یاد دلا دیا کہ اللہ حاکم مطلق ہے ، وہ جس جرم کی جو سزا چاہے مقرر کردے اور یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جو وہ چاہتا ہے وہ عن عدل و انصاف ہی ہے جس پر کسی قسم کا اعتراض وہی کرسکتا ہے جو خود عقل وفکر سے کورا ہے اور صفت حکیم سے اشارہ اس طرف کردیا کہ اس کا کوئی حکم بھی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ، عقل کے کو روں کو کچھ نظر نہ آئے تو دوسری بات ہے۔ امام رازی (رح) نے اس مقام پر اصمعی کے حوالہ سے ایک حکایت نقل کی ہے کہ میں ایک روز ایک بدوی عرب کے سامنے سورة مائدہ زبانی پڑھ رہا تھا کہ یہ آیت آئی اور یہاں سہواً میری زبان سے غفور رحیم نکل گیا۔ بدوی نے کہا کہ یہ کس کا کلام ہے ؟ میں نے کہا کلام الٰہی ہے ۔ اس پر وہ بولا کہ اسے دوبارہ پڑھو۔ میں نے پھر پڑھا اور اب مجھے تنبیہ ہوگئی کہ بجائے عزیز حکیم کے میری زبان سے غفور رحیم نکل گیا تھا۔ بدوی نے کہا بیشک اب ٹھیک پڑھا۔ میں نے کہا تمہیں کیسے پتہ چلا اس نے جواب دیا کہ سیاق کلام سے یہاں جب ذکر سزا و عتاب کا ہے توعین مقتضائے بلاغت بھی یہی ہے کہ صفات بجائے غفور رحیم کے عزیز حکیم ہی لائی جائیں۔ فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ 0039 اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ؕ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ 1ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ 0040 پھر جس کسی نے اپنے ظلم کے بعد توبہ کرلی اور اپنے آپ کو سنوار لیا تو اللہ اس پر لوٹ آئے گا ، وہ بخشنے والا رحمت رکھنے والا ہے (116) ۔ 39 کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان و زمین کی ساری بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے وہ (اپنے قانون کے مطابق) جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے بخش دے اور وہ ہر بات پر قادر ہے (117) ۔ 40
Top