Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ
: اور چور مرد
وَالسَّارِقَةُ
: اور چور عورت
فَاقْطَعُوْٓا
: کاٹ دو
اَيْدِيَهُمَا
: ان دونوں کے ہاتھ
جَزَآءً
: سزا
بِمَا كَسَبَا
: اس کی جو انہوں نے کیا
نَكَالًا
: عبرت
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
اور جو چور ہو خواہ مرد ہو یا عورت تو اس کے ہاتھ کاٹ ڈالو جو کچھ انہوں نے کیا ہے یہ اس کی سزا ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت کی نشانی ، اللہ غالب اور حکمت رکھنے والا ہے
چور مرد ہو یا عورت ان کی دینوی سزا کا بیان واضح الفاظ میں : 114: پیچھے آپ ان کا حال پڑھ چکے ہیں جو زمین میں فساد بپا کرنے والے ہیں اور یہ بات بھی بالکل صحیح اور درست ہے کہ چور کا فعل بھی زمین میں فساد بپا کرنے کے ضمن میں آتا ہے اور کوئی شخص یہ بات نہیں کرسکتا کہ چوری کرنا ” فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ “ نہیں۔ پھر یہاں اس کی سزا الگ کر کے کیوں بیان کی گئی ہے ؟ نظم قرآنی سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ” فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ “ کی جو سزا وہاں بیان کی گئی ہے وہ محض چور کے لئے نہیں بلکہ ایک مجموعہ جرائم کی ملی جلی سزا تھی۔ اس لئے محض چور کی سزا کو اس آیت سے الگ کر کے بیان کردیا گا چ تاکہ کوئی بات مبہم نہ رہے۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اہل عرب کے نزدیک جن کی زبان اور محاورات و ضرب الامثال کے مطابق قرآن کریم نازل ہوا وہ سارق یعنی چور کی تعریف کیا کرتے ہیں۔ قرطبی کے بیان کے مطابق ” اہل عرب سارق اس کو کہتے ہیں جو پوشیدہ طور پر کسی محفوظ جگہ میں آئے اور وہاں سے ایسا مال اٹھا لے جائے جو اس کا اپنا نہیں۔ اس وضاحت کے بعد پتہ چل گیا کہ اہل اسلام میں چور کا ہاتھ کاٹنے کے لئے جن شرائط کا پایا جانا ضروری قرار دیا گیا ہے وہ انکا اپنا اضافہ نہیں بلکہ لفظ سارق لغوی مفہوم سے وہ ماخوذ ہیں قطع ید کے لئے جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں : 1۔ چوری کرنے والے مرد یا عورت کا بالغ ہونا۔ 2۔ چوری کرنے والے کا عاقل ہونا ، پاگل اور دیوانہ نہ ہونا مکمل طور پر یا عارضی طور پر۔ 3۔ چوری کرنے والا مال مسروقہ کا مالک نہ ہو کلی طور پر اور نہ جزوی طور پر۔ 4۔ مال مسروقہ وہ اشیاء ہوں جو سرقہ کی مد میں آتی ہیں اور یہ بھی کہ وہ مال کم از کم اتنا ہو جو مقررہ اسلامی حکومت نے سرقہ کی مقدار مقرر کرتے وقت مقرر کردیا ہو اس سے کم نہ ہو۔ 5۔ جس جگہ سے چوری کی گئی ہو وہ جگہ ایسی محفوظ ہو جہاں کسی چیز کا رکھنا عرف عام اور تشریح قانون میں مقام محفوظ میں آتا ہو یعنی وہ جگہ شارع عام اور اس طرح کا کوئی کھلا اور عام مقام نہ ہو جہاں آدمی جب چاہے داخل ہوسکے اس پر کوئی پابندی نہ ہو اور یہ بھی کہ وہ مال چھپا کرلیا گیا اعلانیہ لوٹانہ گیا ہو کیونکہ یہ بات ڈاکہ کی تعریف میں آتی ہے جس کا حکم پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ ہاں ! چوری ہوئی ہو اور چور کا پتہ بھی چل جائے لیکن وہ ان شرائط میں نہ آتا ہو تو اگرچہ حد تو اس پر قائم نہ ہوگی لیکن عدالت تعزیر اس پر لگانے کی مجاز ہے تاکہ جرائم کا انسداد ہو سکے اور اس کی تشریح کتب احادیث اور قانون اسلامی میں موجود ہے اور زیر نظر آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ چور کی یہ سزا حدود اللہ میں داخل ہے جس کو کوئی انسان اپنی طرف سے معاف نہیں کرسکتا خواہ مال مسروقہ کا مالک ہی کیوں نہ ہو۔ جس چوری پر حد جاری ہوگی اس کی مالیت حکومت وقت کی صوابدید پر رکھی گئی ہے صدر اول میں خود رسول اللہ ﷺ اس کے مجاز تھے کہ وہ جو حد مقرر فرمادیتے اس لئے جو وقت کے حالات کے مطابق آپ نے مقرر فرمایا وہ بالکل صحیح اور درست تھا اور اس طرح خلافت راشدہ میں جو اس کی حد مقرر کی گئی صحابہ کرام ؓ کے مشورہ سے وہ طے پائی اور قانون میں وہ داخل ہوگئی اور آج بھی حکومت اسلامی اس کی ایک خاص حد مقرر کرنے کی مجاز ہے اور اسلامی مقننہ جو اس میں مقرر کر دے گی وہی اس وقت کے لئے درست ہوگا اور وقت کے ساتھ اس میں مناسب ترمیم بھی کی جاسکے گی۔ اٹھنی ، چونی کی مقدار میں آپس کے جھگڑے اس سے سب ختم ہوجاتے ہیں اور حالات وقت کی رعایت بھی ملحوظ خاطر رکھی جاسکتی ہے۔ اس طرح یہ بات کہ ” شرعی ہاتھ “ کی مقدار کتنی ہے پنجہ تک ہے ، ہیلیی سمیت ہے یا علاوہ ہتھیلی کے ہے۔ کہنی تک ہے یا کندھے تک ہے۔ ہاتھ دایاں ہے یا بایاں ہے اگر چور دوبارہ چوری کرے تو کیا اس کا ہاتھ یعنی دوسرا ہاتھ کٹ جائے گا یا نہیں۔ ان ساری باتوں میں اختلاف کیا گیا ہے اور فقہاء کا اختلاف اس بات پر دال ہے کہ اس میں بات کی گنجائش ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے معاملات میں ہر آدمی کو بولنے کا حق نہیں ہوتا اور تنقید برائے تنقید کا کچھ مطلب نہیں۔ ہاں ! صرف ان لوگوں کا حق ہے کہ اس مسئلہ میں گفتگو کریں جو اسلامی حکومت کی مقننہ کے افراد ہوں عوام چاہیں تو جب ایک قانون بنایا جا رہا ہو وہ اپنی رائے پیش کردیں اور پھر قانون کی ذمہ دار پارٹی جو کچھ مقرر کر دے اس کے مطابق عمل ہوتا رہے۔ چور مرد ہو یا عورت اس نے اپنے کئے کی سزا پائی ہے : 115: چور کی یہ سزا مقرر کرنے کی دو وجوہات اس جگہ بتائی ہیں ایک یہ کہ ” جَزَآءًۢ بِمَا کَسَبَا “ یعنی یہ ان کے اپنے کئے کی سزا ہے اس لئے اب وہی اسکو بھگتیں گے دوسری وجہ یہ ارشاد فرمائی گئی کہ ” نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ 1ؕ“ نکال اس سزا کو کہتے ہیں جو دوسرے لوگوں کے لئے عبرت کا باعث ہو اور یہ دونوں مقصد اس طرح پورے ہو سکتے ہیں جیسے قرآن کریم نے حکم دیا۔ آج کئی لوگ ان سزاؤں کو بہت شدید اور سخت خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک غیر مہذب اور غیر متمدن سوسائٹی کے لئے تھیں جب کہ وہاں کوئی جیل خانہ موجود نہ تھا پھر اس زمانہ کے بعض متر جمین اور حاشیہ نویسوں نے اس پر بڑا زور قلم صرف کیا ہے کہ یہ سزا صرف عادی مجرموں کے لئے ہے جنہیں قید وبند کی سختیاں بھی درست نہ کرسکیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے جس پاکیزہ معاشرہ کا سنگ بنیاد رکھا ہے جس طرح قوم کے تمام افراد کے حقوق وفرائض کا توازن قائم کیا ہے۔ رعایا کے ہر فرد کی جان مال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت اسلامیہ پر عائد کی ہے ان تمام امور کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ سزائیں سخت اور شدید سہی لیکن عین حکمت ہیں۔ آپ خود انصاف کیجئے کہ آپ کی شفقت کا زیادہ مستحق کون ہے ؟ وہ بیوہ ، وہ یتیم ، وہ پر امن شہری جس کی عمر بھر کا اندوختہ راتوں رات لوٹ لیا گیا یا ہٹا کٹا چور۔ جب سے مظلوم سے زیاد ظالم ، لٹنے والے سے زیادہ لوٹنے والا شفقت و عنایت کا مستحق سمجھا جانے لگا ہے اس وقت سے جرموں اور مجرموں میں ہوش ربا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہم نے اپنے ہاں ہی دیکھیں ۔ پولیس ہے ، مجسٹریٹ ہیں ، جیل خانے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں لیکن جرائم میں زیادتی ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ جس علاج سے بیماری کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی چلی جا رہی ہو وہ علاج ناکام ہے۔ اگر ہم مریض کو واصل بحق کرنے ہی کا مصم ارادہ کرچکے ہیں تو یہ دوسری بات ہے ورنہ مریض اور اس کے سارے کنبے کی خیر خواہ کا تقاضا تویہی ہے کہ دوسرا علاج کیا جائے۔ تاریخ کہتی ہے کہ نبوامیہ کے ایک خلیفہ ہشام کو بھی تہذیب وشائستگی کا دورہ پڑا تھا اور اس نے بھی ہاتھ کاٹنے کی سزا ملک سے اٹھادی تھی لیکن جب چوری کی وارداتیں آئے دن بڑھنے لگیں اور کوئی دوسرا حیلہ کار گرنہ ہوسکا تو دہ سال کے قلیل عرصہ کے بعد پھر اسے قرآنی سزا نافذ کرنا پڑی۔ اس نے تو پھر اپنی غلطی کو بھانپ لیا اور دو سال کے بعد ہی اس کا ازالہ کردیا لیکن ہم تو حالات کی انتہائی نزاکت کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اگر ملک بھر میں دس بیس یا چالیس پچاس چوروں کے ہاتھ کٹ جائیں اور آپ کا پور املک چوری کی لعنت سے نجات حاصل کرلے اور اس ملک کی نئی پود میں یہ مجرمانہ خیالات سر ہی نہ اٹھائیں تو میرے ناقص خیال میں تہذیب و شائستگی کا یہ مظاہرہ اس مظاہرے سے بدرجہابہتر ہوگا کہ ہمارے ملک میں کسی کا مال محفوظ نہ ہو اور ہماری جیلوں میں سوسائٹی کے ان کرم فرماؤں یعنی چوروں کیلئے قورمہ اور پلاؤ پک رہا ہے اور انکی شہ بڑھائی جا رہی ہے کہ خوب تیار ہوجاؤ اور آئندہ اس طریقے سے چوری کرو کہ پکڑے نہ جاؤ ۔ یہ وقت وہ ہے کہ اس دنیا کے کسی حصے کی کوئی بات پوشیدہ نہیں رہی۔ ہر ملک کے حالات اس طرح دیکھے جاسکتے ہیں جیسے شیشے میں اپنا منہ۔ بچہ بچہ یہ بھی جانتا ہے کہ پوری دنیا میں یہ قانون اسلامی اگر کسی حد تک نافذ ہے تو صرف سعودیہ ہے۔ وہاں اب بھی چور کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جاتی ہے اور سعودیہ کا کوئی ایسا قصبہ یا شہر موجود نہیں جہاں کی کوئی بات آپ سے پوشیدہ ہو کبھی غور کیا آپ نے کہ وہاں کتنی تعداد ہاتھ کٹوں کی موجود ہے ؟ اگر کوئی بھی وہاں ہاتھ کٹا موجود ہی نہ ملے تو اس کا مطلب کیا ہوا یہی ناکہ وہاں چوری کا فعل نہیں ہوتا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہاں یہ سزا نافذ ہے جبھی کوئی چوری کرے گا اور پکڑا جائے گا تو اس کا ہاتھ کٹ جائے گا اور کسی طرح کی کوئی رعایت اس کو نہیں ملے گی اور چونکہ اس جگہ چوری کی بات ہو رہی تھی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں ہر ایک جرم کی یہی حقیقت ہے کہ جرائم اتنے کم ہیں کہ آپ کسی مہذب سے مہذب اور امیر ترین ملک کے ساتھ بھی اس معاملہ میں اس کا موازنہ نہیں کرسکتے۔ مختصر یہ کہ چوری شریعت اسلامی میں ایک بدترین جرم ہے۔ اسلام نے فرد و جماعت دونوں کے لئے امن وامان اور سکون خاطر کا جو بہترین وکامل ترین نظام قائم کیا ہے چور اس میں رخنہ ڈالنا اور اس ساری فضا کو درہم برہم کر ڈالنا چاہتا ہے۔ آیت کے اسی ٹکڑے نے واضح کردیا کہ چوری کا بدبخت مجرم ہے ہی ایسی سخت سزا کا مستحق۔ پھر شریعت موسوی کا قدم بھی اس باپ میں کچھ پیچھے نہیں کچھ آگے ہی ہے ۔ نقب زن کی جان سے امان اٹھ جاتی ہے کوئی اسے قتل کر ڈالے تو اس کے خون کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ اگر چور سیند مارتے ہوئے دیکھا جائے اور کوئی اسے مار بیٹھے اور وہ مر جائے تو اس کے لئے خون نہ کیا جائے گا۔ (خروج 22 : 2) اس جگہ تو اجازت ہے لیکن دوسری جگہ نقب زن کے قتل کا حکم ملتا ہے ” اگر کوئی شخص اپنے بھائیوں بنی اسرائیل میں سے کسی کو چرانے میں پکڑا جائے اور اس کا بیوپار کرے اسے بیچ ڈالے تو چور مار ڈالا جائے اور تو شرک اپنے درمیان سے دفع کر۔ “ (استثناء 24 : 7) زیر نظر آیت کے آخری حصہ میں فرمایا ” اللہ غالب اور حکمت رکھنے والا ہے۔ “ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ 0038 گویا اس جگہ صفت عزیز لا کر یہ یاد دلا دیا کہ اللہ حاکم مطلق ہے ، وہ جس جرم کی جو سزا چاہے مقرر کردے اور یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جو وہ چاہتا ہے وہ عن عدل و انصاف ہی ہے جس پر کسی قسم کا اعتراض وہی کرسکتا ہے جو خود عقل وفکر سے کورا ہے اور صفت حکیم سے اشارہ اس طرف کردیا کہ اس کا کوئی حکم بھی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ، عقل کے کو روں کو کچھ نظر نہ آئے تو دوسری بات ہے۔ امام رازی (رح) نے اس مقام پر اصمعی کے حوالہ سے ایک حکایت نقل کی ہے کہ میں ایک روز ایک بدوی عرب کے سامنے سورة مائدہ زبانی پڑھ رہا تھا کہ یہ آیت آئی اور یہاں سہواً میری زبان سے غفور رحیم نکل گیا۔ بدوی نے کہا کہ یہ کس کا کلام ہے ؟ میں نے کہا کلام الٰہی ہے ۔ اس پر وہ بولا کہ اسے دوبارہ پڑھو۔ میں نے پھر پڑھا اور اب مجھے تنبیہ ہوگئی کہ بجائے عزیز حکیم کے میری زبان سے غفور رحیم نکل گیا تھا۔ بدوی نے کہا بیشک اب ٹھیک پڑھا۔ میں نے کہا تمہیں کیسے پتہ چلا اس نے جواب دیا کہ سیاق کلام سے یہاں جب ذکر سزا و عتاب کا ہے توعین مقتضائے بلاغت بھی یہی ہے کہ صفات بجائے غفور رحیم کے عزیز حکیم ہی لائی جائیں۔ فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ 0039 اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ؕ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ 1ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ 0040 پھر جس کسی نے اپنے ظلم کے بعد توبہ کرلی اور اپنے آپ کو سنوار لیا تو اللہ اس پر لوٹ آئے گا ، وہ بخشنے والا رحمت رکھنے والا ہے (116) ۔ 39 کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان و زمین کی ساری بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے وہ (اپنے قانون کے مطابق) جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے بخش دے اور وہ ہر بات پر قادر ہے (117) ۔ 40
Top