Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 37
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْهَا١٘ وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ
يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہیں گے اَنْ : کہ يَّخْرُجُوْا : وہ نکل جائیں مِنَ : سے النَّارِ : آگ وَمَا : حالانکہ نہیں هُمْ : وہ بِخٰرِجِيْنَ : نکلنے والے مِنْهَا : اس سے وَلَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّقِيْمٌ : ہمیشہ رہنے والا
وہ چاہیں گے کہ آگ سے باہر نکل آئیں لیکن اس سے باہر ہونے والے نہیں ، ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے
وہ آگ سے نکلنا چاہیں گے لیکن نہیں نکل سکیں گے ، کیوں ؟ ان کا عذاب ابدی ہوگا : 113: دنیا میں ان کو باربار بتایا گیا اور مثالیں دے دے کر سمجھایا گیا لیکن وہ اتنے ضدی تھے کہ انہوں نے ہر سنی بات کو اَن سنی کردیا اور کسی کی مطلق پروانہ کی پھر ان کی یہ ضد کیا تھی ؟ ان کی یہ ضد ان کا ایک عمل ہی تو تھا پھر جب ہر عمل کے ساتھ اس کا نتیجہ باندھ دیا گیا ہے تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اس عمل کا نتیجہ نہ پائیں فرمایا جب وہ اس عمل کے نتیجہ سے دو چار ہوں گے تو وہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ مجھ میں اور میرے عمل میں یعنی عمل کے نتیجہ میں اتنی دوری ہوجائے جتنے آسمان و زمین ایک دوسرے سے دور ہیں یا جس قدر مشرق و مغرب ایک دوسرے سے دور رکھے گئے ہیں۔ فرمایا اس وقت ان کی یہ کوشش اکارت جائے گی اور ہزار کوشش کے باوجود بھی اس عذاب سے نجات حاصل کرسکیں گے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس سے نجات حاصل کرنے کا وقت نکل گیا اور ” گیا وقت پھر ہاتھ کب آتا ہے ؟ “ اس مضمون کو سورة الحج میں مزید تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے آگ کے لباس کاٹے جا چکے ہیں۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے ان کی کھالیں ہی نہیں پیٹ کے اندر کے حصے تک سب گل جائیں گے اور ان کی خبر لینے کے لئے لوہے کے گرز ہوں گے جب کبھی وہ گھبرا کر اس کھائی سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو ان پر گرز سے مار پڑے گی اور وہ اس میں پھر دھکیل دیئے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے والی آگ کا مزہ۔ “ (الحج 22 : 19 تا 22) ایک جگہ اس طرح ارشاد ہوا کہ : ” اور جنہوں نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اس میں دھکیل دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب اس آگ کے عذاب کا مزہ جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ “ (الم السجدہ 32 : 20) زیر نظر آیت میں بھی یہی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ : ” وہ چاہیں گے کہ آہ سے باہر نکل آئیں لیکن اس سے باہر ہونے والے نہیں۔ “ ظاہر ہے کہ دوزخیوں کو کیسی کچھ تڑپ ، کیسی کچھ حسرت ، کیسی کچھ تمنا اس عذاب سے نکل بھاگنے کی ہوگی۔ “ لیکن وہ اس سے باہر ہونے والے نہیں ان کے لئے قائم رہنے والا عذاب ہے۔ “ اس ارشاد سے ان بےنصیبوں پر گویا مہر لگ گئی کہ عذاب سے نکلنے کا نہ کوئی امکان ہے اور نہ ہی کوئی تدبیر کام دے سکتی بلکہ اب تو یہ بھی سنا دیا گیا کہ یہ عذاب جس درجہ کا شدید اور ہولناک ہوگا اسی طرح لازوال بھی ہوگا۔ بلاشبہ یہ ابدی عذاب انہی لوگوں کے لئے ہوگا جو کفر کی موت مرے ہوں گے اور عاصی اور خطاکار مسلمانوں کو معاف کردینے کا اعلان الٰہی بھی دوسری جگہ موجود ہے۔ بہرحال اس جگہ انہی بدبختوں کا ذکر ہو رہا ہے جو ابدی دوزخ کے مستحق ہوچکے ہوں گے اور یہ بات ” عذاب مقیم “ سے واضح ہوجاتی ہے کہ وہ عذاب پائیدار و مستقل ہے جو کبھی ہٹنے والا اور مٹنے والا نہیں۔ امام رازی ؓ نے اس جگہ خوب تقریر فرمائی ہے اور کہا ہے کہ ولھم عذاب مقیم کی ترکیب خود حصر پر دلالت کررہی ہے کہ یہ عذاب دائمی صرف کافروں کے لئے ہوگا ۔ لایغیرھم (کبیر) پیچھے اہل کتاب کا ذکر کر کے ان اہل کتاب کی طرف مضمون منتقل کیا تھا جو اہل کتاب ہونے کے باوجود عرف میں اہل کتاب کے نام سے معروف نہیں یعنی مسلمانوں کو مخاطب کرلیا پھر مسلمانوں کی اندرونی خرابیوں کی طرف اشارات کرتے ہوئے مضمون کو آخرت کی طرف منتقل کردیا گیا اب مضمون کو آخرت کی طرف منتقل کر کے دنیا کی معاشرتی زندگی کی طرف لایا جا رہا ہے جہاں اعمال ہی اعمال ہیں اور پھر اعمال میں سے اچھے اور برے اعمال کی پہچان کرائی جا رہی ہے پھر برے اعمال کی دینوی سزا بھی سنا دی تاکہ اسلامی معاشرہ کی اصلاح کا کام مکمل ہو سکے۔
Top