Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 39
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَمَنْ : بس جو۔ جس تَابَ : توبہ کی مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ظُلْمِهٖ : اپنا ظلم وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَتُوْبُ عَلَيْهِ : اس کی توبہ قبول کرتا ہے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
پھر جس کسی نے اپنے ظلم کے بعد توبہ کرلی اور اپنے آپ کو سنوار لیا تو اللہ اس پر لوٹ آئے گا ، وہ بخشنے والا رحمت رکھنے والا ہے
ظلم کرنے کے بعد جس شخص نے توبہ کرلی اس نے اپنے آپ کو سنوار لیا : 116: زیر نظر آیت سے یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا توبہ کرنے سے دنیوی سزا بھی ساقط ہوجاتی ہے یا نہیں ؟ امام احمد ، امام شافعی اور کچھ دوسرے علماء نے اس آیت سے یہی استدلال کیا ہے کہ اگر چور نے گرفتار ہونے سے پہلے توبہ کرلی تو اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔ ان لوگوں نے سورة النساء کی آیت 16 میں جو الفاظ آتے ہیں کہ : فَاِنْ تَابَا وَ اَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَا 1ؕسے بھی یہ استدلال کیا۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان آیات سے حد کے سقوط کا تصور صحیح نہیں ہے جب کہ کسی ملک میں اسلامی قانون جاری ہو اور حدود نافذ ہوں ۔ ہاں ! اگر حدود نافذہی نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ حدود کا نفاذ حکومت اسلامی کے ذمہ ہے ہر آدمی اپنی طرف سے حدود نافذ نہیں کرسکتا ۔ اس سے یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ حدود کے نافذ ہوجانے سے وہ آدمی جس پر حد نافذ ہوئی آخرت کے عذاب سے بھی بچ جائے گا یا نہیں ؟ بہت سے لوگ اس طرف گئے کہ معاف ہوجاتا ہے لیکن اکثر کا خیال یہ ہے کہ نہیں ہوتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت ؓ روای ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اردگرد صحابہ کی جماعت موجود تھی آپ ﷺ نے فرمایا مجھ سے بیعت کرو اس شرط پر کہ کسی کو اللہ کا شریک نہیں بناؤ گے ۔ چوری نہیں کرو گے۔ زنا نہیں کرو گے۔ اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے۔ دیدہ دانستہ کسی پر بہتان تراشی نہیں کرو گے اور کسی بھلائی کے کام میں نافرمانی نہیں کرو گے۔ تم میں سے جو شخص اس معاہدہ کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہوگا اور جو شخص مذکورہ افعال میں سے کسی فعل میں مبتلا ہوجائے اور اس کو دنیا میں اس کی سزا دے دی جائے تو اس کے گناہ کا ازالہ ہوجائے گا اور اگر مذکورہ افعال میں سے کوئی فعل کرنے کے بعد اللہ اس کے فعل پر پردہ ڈال دے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد رہے گا چاہے معاف کرے ، چاہے سزا دے لیکن حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ہاتھ کاٹنے اور داغنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اب اللہ تعالیٰ سے توبہ کر تو اس نے عرض کی کہ میں اللہ سے توہ کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے بھی تیری توبہ قبول فرمالی۔ اور صحیح یہی ہے کہ تو بہ شریعت کے مطابق وہی ہوگی کہ چرائی ہوئی چیز مالک کو واپس دے دے۔ اگر وہ موجود نہ تو اس کی قیمت واپس کرے یا کم از کم مالک سے معاف کر الے اور سزائے قطع ید جو حق العباد کی اتلاف کی سزا ہے محض توبہ سے معاف نہیں ہوتی اگرچہ اس میں اختلاف بھی ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ” وَ اَصْلَحَ “ یعنی آئندہ کیلئے ایسی عادتیں اور حرکتیں چھوڑ دے۔ تو بہ کا تعلق ماضی سے تھا اور اصلاح حال کا تعلق مستقبل سے ہے۔ ہاں ! ایک غلط فعل سے جب ایک شخص نے توبہ کرلی اور اپنی حالت کی اصلاح کرلی تو اس پر طعن کسی حال میں بھی جائز نہ رہا اور توبہ کرنے والا ایسا ہی ہوتا ہے گویا کہ اس نے گناہ نہیں کیا اسی لئے اب اس کو اس گناہ کی وجہ سے شرمندہ کرنا شرمندہ کرنے والے کے لئے نقصان دہ ہوگا۔
Top