Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 99
لَئِنْ اُخْرِجُوْا لَا یَخْرُجُوْنَ مَعَهُمْ١ۚ وَ لَئِنْ قُوْتِلُوْا لَا یَنْصُرُوْنَهُمْ١ۚ وَ لَئِنْ نَّصَرُوْهُمْ لَیُوَلُّنَّ الْاَدْبَارَ١۫ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ
لَئِنْ : اگر اُخْرِجُوْا : وہ جلا وطن کئے گئے لَا : نہ يَخْرُجُوْنَ : وہ نکلیں گے مَعَهُمْ ۚ : ان کے ساتھ وَلَئِنْ : اور اگر قُوْتِلُوْا : ان سے لڑائی ہوئی لَا يَنْصُرُوْنَهُمْ ۚ : وہ ان کی مد د نہ کریں گے وَلَئِنْ : اور اگر نَّصَرُوْهُمْ : وہ ان کی مدد کرینگے لَيُوَلُّنَّ : تو وہ یقیناً پھیریں گے الْاَدْبَارَ ۣ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ : پھر لَا يُنْصَرُوْنَ : وہ مدد نہ کئے جائینگے
اگر وہ نکالے جائیں گے تو یہ ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے اور اگر ان سے لڑائی ہوئی تو یہ ان کی مدد بھی نہ کریں گے اور اگر مدد کریں بھی تو پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلیں گے پھر ان کو (کہیں سے) مدد نہ ملے گی
منافقین کے قول کی تردید اور پہلی پیش گوئی جو من و عن پوری ہوئی 12 ؎ گزشتہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب نبی اعظم و آخر ﷺ نے بنو نضیر کو یہاں سے نکل جانے کا حکم صادر فرمایا تو بنو نضیر نے اپنے بھائیوں سے جو برائے نام اسلام کا دعویٰ کرتے تھے رابطہ کیا تو انہوں نے ان کو ڈھارس بندھائی کہ تم اپنی جگہ پر قائم رہو اگر تم کو وہاں سے نکلنا ہی پڑا تو ہم تمہارے ساتھ ہوں گے اور ہم ان لوگوں کی پیروی اس معاملہ میں ہرگز نہیں کریں گے اور اگر تم سے لڑائی لڑی گئی تو ہمارا ساتھ بھی تمہارے ساتھ ہی ہوگا ۔ جن منافقوں نے یہ بات کہی تھی ان کا جواب دیا جا رہا ہے اور قبل از وقت دیا جا رہا ہے تاکہ حق ثابت ہوجائے اور اس طرح نبی اعظم و آخر ﷺ اور مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی گئی ہے کہ تم نے جو حکم دیا ہے اس پر مطمئن رہو اور منافقین کے پروپیگنڈے کی پروانہ کریں ۔ اگر بنو نضیر نکلیں گے تو یہ لوگ کبھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے اور نہ ہی یہ اس جرأت کے مالک ہیں کہ ان کا کھلا ساتھ دے دیں اگر یہ لوگ اس جرأت و ہمت کے مالک ہوتے تو ان کو ایمان کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی جب کہ اسلام ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا تھا اور اگر بنو نضیر سے تمہاری لڑائی چھڑ گئی تو یہ لوگ کبھی بنو نضیر کا ساتھ بھی نہیں دیں گے کیونکہ کھل کر سامنے آنے کی ان کے اندر جرأت بالکل نہیں ہے اور اگر خفیہ طور پر ان کی مدد کریں گے بھی تو ان کو پیٹھیں پھیرتے ذرا دیر نہیں لگے گی۔ ہم پیچھے مختصر اشارہ کرچکے ہیں کہ جب نبی اعظم و آخر ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے تھے تو یہود کے تین قبیلے مدینہ اور اس کے مضافات میں رہ رہے تھے ۔ مدینہ کے اندر رہنے والوں کو بنو قنیقاع کہا جاتا تھا اور دوسرا قبیلہ بنو نضیر کا تھا اور تیسرا قبیلہ بنو قریظہ کا اور ان تینوں قبائل کے آپس میں بھی اختلافات موجود تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے مدینہ جاتے ہی جہاں دوسرے گروہوں سے معاہدے کیے ان تینوں گروہوں سے بھی معاہدے کیے تھے لیکن بنی قنیقاع نے تو بہت جلد ہی معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور وہ حدیبیہ سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے ۔ بنی نضیر کا ذکر اس جگہ زیر نظر آیات میں کیا جا رہا ہے اور بنو قریظہ کا معاملہ احزاب کے بعد طے ہوا ۔ بہر حال اس جگہ جو ذکر کیا جا رہا ہے اس ذکر کو بعض مفسرین نے بنی قریظہ کے ساتھ جوڑا ہے حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ ان آیات میں منافقین کی جس حرکت کی نشاندہی کی جا رہی ہے یہ حرکت انہوں نے بنی نضیر کو الٹی میٹم (Ultimatum) دینے کے وقت ہی خفیہ طور پر کی تھی اور اسی دوران ان کو بطور پیش گوئی اللہ تعالیٰ نے تردید کردی کہ یہ لوگ کبھی ایسا نہیں کرسکیں گے کہ جو گرجتے ہیں وہ بہت ہی کم برستے ہیں ۔ آپ لوگ ان منافقین کی بڑھکوں میں نہ آئیں اور پورا اطمینان رکھیں ، ان لوگوں نے تین باتیں کی ہیں اور یہ لوگ ان تینوں ہی باتوں میں جھوٹے ہیں ۔ دراصل یہ لوگ محض یہود کے قبیلہ بنو نضیر کو شہ دلانا چاہتے ہیں اس کے سوا ان لوگوں میں اتنی طاقت نہیں کہ کھل کر آپ لوگوں کے سامنے آئیں اور بحمد اللہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی ۔ بنی نضیر کے محاصرہ کے لیے جب لشکر اسلام میدان کارزار میں اترا اور چھ دنوں تک یہ لوگ کسی طرح کا کوئی رابطہ بنو نضیر سے نہ کرسکے تو انہوں نے چار و نچار آپ کے آرڈر کی توثیق کردی اور اجازت چاہی کہ آپ ﷺ ہم لوگوں کو یہاں سے نکل جانے کی اجازت دے دیں اور جتنا سامان اپنے اونٹوں پر لاد کرلے جاسکتے ہیں وہ لے جائیں اور باقی سب کچھ آپ ﷺ کے حوالہ کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ پھر وہ اس مدت کے اندر اندر نکل گئے اور منافقین کا ایک فرد بھی ان کے ساتھ نہ نکلا اور نہ ہی کوئی ان کی خبر گیری کے لیے سامنے آیا ۔ بنو نضیر نکل گئے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب بنو قریظہ کی بدعدیوں نے زور پکڑا اور وہ بھی اپنے انجام کو پہنچائے گئے لیکن اس کی وضاحت ہم نے عروۃ الوثقیٰ جلد ہفتم میں سورة الاحزاب کی آیت 26 کی تفسیر میں کردی ہے وہاں ملاحظہ کریں۔
Top