Mafhoom-ul-Quran - Al-Hashr : 21
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ
لَوْ اَنْزَلْنَا : اگر ہم نازل کرتے هٰذَا الْقُرْاٰنَ : یہ قرآن عَلٰي جَبَلٍ : پہاڑ پر لَّرَاَيْتَهٗ : تو تم دیکھتے اس کو خَاشِعًا : دبا ہوا مُّتَصَدِّعًا : ٹکڑے ٹکڑے ہوا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے خوف سے وَتِلْكَ : اور یہ الْاَمْثَالُ : مثالیں نَضْرِبُهَا : ہم وہ بیان کرتے ہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کیلئے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کریں
اور اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ دیکھتے کہ وہ اللہ کے ڈر سے دب جاتا ، پاش پاش ہوجاتا اور یہ مثالیں تو ہم (ان) لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سوچیں ، سمجھیں
اگر اس قرآن کریم کو پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو وہ لرزہ براندام ہو جاتے 21 ؎ ( الامثال) امثال جمع مثل اور مثل وہ چیز ہے جو دوسرے کے مشابہ ہو اور ایک سے دوسرے کی حالت کھل جائے گویا دوسرے کی تصویر دل کے ذریعہ سے نظر کے سامنے آجائے۔ مثل ، مثل ، مثیل سب کے معنی نظیر اور شیشہ کے ہیں ۔ یہ اصل معنی ہیں ۔ بعض اہل بلاغت نے مثل اور نظیر میں فرق کیا ہے اور کہا ہے کہ مثل کا ممثل لہ ٗ کے افراد میں سے ہونا ضروری ہے اور نظیر کے لیے یہ شرط نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نظیر منظر لہٗ کے افراد میں سے نہیں ہوتی جیسا کہ علامہ تفتازانی نے مطول میں بیان کیا ہے لیکن علامہ صاحب کی یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی ، کم از کم ہمیں اس سے اتفاق نہیں بلکہ اس کے مقابلہ میں بعض نے کہا ہے کہ صحیح بات وہ ہے جو علامہ بیضاوی نے بیان کی ہے کہ مثل اس مشہور کلام کو کہتے ہیں جو بلیغ بھی ہو اور اس کا محل استعمال محل وضع کے مشابہ ہو لیکن ہمارے خیال میں یہ بات بھی حقیقت کو واضح نہیں کرتی اور اس پر اعتراض بھی وارد ہوتے ہیں ۔ ہمارے خیال میں اس کو یوں کہنا چاہئے کہ مثل کا استعمال اس مشہور بلیغ کلام میں ہوتا ہے جو کسی حسن کا حامل ہو اور اس کے اندر کوئی گہری مشابہت پائی جائے ، کوئی اشارہ یا نادر کنایہ اس سے بھی آگے بڑھ کر مثل کا اطلاق اس مال یا صفت پر یا قصہ پر ہوتا ہے جس میں کوئی عجیب ندرت اور پر شکوہ عظمت ہو یا جلالت شان ہو ۔ عظمت کی شان کے لیے ( للہ مثل الاعلی) اللہ تعالیٰ کی عجیب عالی شان ہے اور ندرت کی مثال ( مثلھم کمثل الکلب) (7 : 176) (کمثل الحمار) (64 : 5) سے دی جاسکتی ہے۔ زیر نظر آیت میں اس طرح کی ندرت کے لیے اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ تعجب کی بات ہے کہ جہاں تک دلائل ، تعلیم اور تذکیر کا تعلق ہے ان میں تم انسانوں کو ( مراد ان انسانوں سے کافر ، مشرک اور منافقین ہیں) سمجھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور قرآن کریم میں تصریف آیات کے ذریعہ ایک ایک بات کو بیسیوں رنگوں سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن عجیب انسان ہو تم کو تم پر کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا حالانکہ یہ قرآن کریم اگر پہاڑ جیسی کسی سخت اور جامد و بےحس چیز پر اتارا جاتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے ڈر سے پاش پاش ہوجاتا لیکن تم ایسے انسان ہو کہ تم پر اس کا کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تم گویا ایسے ہی ہو جیسے بھینس کے سامنے بین بجانا ہے اور پھر اس کی وضاحت خود ہی ارشاد فرما دی کہ اس طرح کی مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں ۔ قرآن کریم کی امثال پر غور و فکر کرنے والوں کو معلوم ہوجائے گا کہ قرآن کریم نے جہاں جہاں بھی مثالیں پیش کی ہیں وہ انہی مقاصد کے لیے پیش کی ہیں تاکہ لوگوں کی تفہیم ہوجائے اور ایک نہ سمجھ آنے والی یا مشکل سے سمجھ آنے والی بات آسانی کے ساتھ سمجھ آجائے لیکن افسوس کہ ہمارے مفسرین کی اکثریت اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات کا مفہوم بیان کرتے کرتے کہاں سے کہاں نکل گئے لیکن اصل حقیقت کی طرف بہت کم توجہ دی کہ امثال بیان کرنے کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟ تمثیلیں محض اس مقصد کے لیے بیان کی جاتی ہیں کہ لوگ غور و فکر سے کام لیں اگر کوئی مؤثر سے مؤثر چزا بھی ان پر اثر انداز نہیں ہو رہی ہے تو اس میں قصور اس چیز کا نہیں قصور اس کا ہے جس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔ بیج ڈالنے والے نے اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، زمین کے ساتھ وہ ساری محنت کرتا ہے جو بیج ڈالنے سے پہلے کرنی ضروری تھی لیکن بیج ہے کہ اس نے اگنے سے صاف انکار کردیا تو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ زمین کاشت کے قابل ہی نہیں تھی اور ظاہر ہے کہ کیج بھی بیج کے اگنے کے لیے جس قدر دوسری چیزوں کی ضرورت ہے اسی قدر اس کی بھی ضرورت ہے کہ زمین قابل کاشت ہو بلکہ زمین قابل کاشت نہیں ہوگی تو باقی ساری کار آمد چیزیں بھی بیکار ہو کر رہ جائیں گی۔ زیر نظر آیت میں اس چیز کا بیان ہے اگرچہ مفسرین نے اس میں بہت تکلفات کیے ہیں مثلاً نقل ہے کہ ” پہاڑ کو عقل و فکر عطا کیا جاتا اور پھر قرآن کریم اس پر نازل کیا جاتا تو وہ اس کی ہیبت و جلال سے سر تسلیم خم کردیتا اور ریزہ ریزہ ہوجاتا ۔ انسان جو ایک مشت خاک ہے اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایسے کلام کے مواعظ میں غور نہ کرے اور اس چشمہ ٔ فیض سے سیراب نہ ہو “۔ یہ الفاظ خواہ کتنے ہی خوبصورت ہیں لیکن وہ بات جو تفہیم کرانا مقصود ہے وہ اس سے نہیں ہوتی ۔ اس کی مزید وضاحت چاہتے ہوں تو عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة البقرہ کی آیت 74 ، جلد چہارم سورة الرعد کی آیت 31 ، جلد ششم سورة الاحزاب کی آیت 72 کی تفسیر دیکھیں۔
Top