Madarik-ut-Tanzil - Al-Haaqqa : 17
وَّ الْمَلَكُ عَلٰۤى اَرْجَآئِهَا١ؕ وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَةٌؕ
وَّالْمَلَكُ : اور فرشتے عَلٰٓي اَرْجَآئِهَا : اس کے کناروں پر ہوں گے وَيَحْمِلُ : اور اٹھائے ہوئے ہوں گے عَرْشَ رَبِّكَ : تیرے رب کا عرش فَوْقَهُمْ : اپنے اوپر يَوْمَئِذٍ : اس دن ثَمٰنِيَةٌ : آٹھ (فرشتے)
اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور اس دن تیرے رب کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھا رہے ہوں گے
فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے جبکہ حاملین عرش کی تعداد آٹھ ہو گی 17 ؎ (ارجائھا) کی اصل ر ج و ہے اور بعض نے ر ج ا بتائی ہے اور آسمان کا رحاء اس کا کنارہ ہے۔ (راغب) (ارجا) کا لفظ قرآن کریم میں صرف اسی جگہ ایک بار استعمال ہوا ہے اور کسی دوسری جگہ اس کا استعمال نہیں ہوا اور اس کے معنی و مفہوم کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : الا رجاء جمتع الرجا و ھو الجانب من کل شیء اس مادہ سے اور الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں جیسے ترجون ، ترجو ، ترجوھا ، یرجو ، یرجون ، ارجوا ، مرجوا ، ترجی ، ارجہ ، مرجون ، ارجائھا جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں عالم انسانی کی ہدایت اور راہنمائی کے اصول بتائے گئے ہیں اور انسانوں کی ذہنی صلاحیتیں ایک جیسی نہیں ہیں بلکہ ان میں زمین و آسمان سے زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اتنی مختلف صلاحیتیں رکھنے والوں کے لئے الگ الگ ابواب قائم نہیں کئے تاکہ ہر ذہن اپنی صلاحیت کے باب سے فائدہ اٹھائے بلکہ اس کا پیرایہ انداز ایسا اختیار کیا گیا ہے کہ ہر صلاحیت کا انسان اس سے مستفید ہو سکتا ہے اور یہی وہ کمال ہے جو دنیا کی کسی ایک آسمانی کتاب میں بھی نہیں ملتا اور مخلوق کی تالیفات و تصنیفات میں تو اس کے اہتمام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور قرآن کریم کے معجزات میں سے یہی وہ معجزہ ہے جو اول سے آخر تک ہر انسان کے لئے زندہ و تابندہ ہے اور یہی وہ راز ہے جس کے باعث کوئی کلام اس کلام کے مشابہ نہیں ہو سکتا۔ اس جلد یہ بات اس لئے عرض کرنا پڑی کہ فرشتے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق قوتوں میں سے بعض قوتوں کا نام ہے اور جس طرح کوئی قوت بھی واضح طور پر بتانا مقصود ہو تو اس کے لئے ایک پیرایہ انداز اختیار کرنا پڑتا ہے یہ یہاں بھی کرنا پڑا اور ان میں سے بعض فرقوں کے نام رکھ دیئے گئے ہیں تاکہ ان کی پہچان اور ان کے کاموں کی شناخت ہو سکے جس کو جبرئیل وحی لانے والے فرشتہ ملک الموت ، جان نکالنے والے فرشتہ کے ناموں سے تعبیر کیا جاتا ہے اسی طرح ملائکہ کا تعلق آسمان سے معروف ہے اور اسی طرف کے مطابق جب آسمانوں کے پھٹنے کا ذکر آیا تو لوگوں کی تفہیم کے لئے ارشاد فرمایا کہ جب آسمان پھٹ جائیں گے تو فرشتے کناروں کی طرف چلے جائیں گے اس سے یہ بحث پیدا کرنا کہ کیا کنارے آسمان کے قائم رہیں گے اور رہیں گے تو کتنے کتنے ہوں گے اور آسمان کہاں تک پھٹے گا ؟ اس طرح کی بحثیں بےفائدہ اور فضول ہیں۔ پھر جیسا کہ اس نظام کے چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکام کی وضاحت تفہیم ہی کے لئے کرائی گئی کہ بادلوں کو ہانکنے والی ہوائوں کو چلانے والے ، گرمی کی تمازت کو بڑھانے اور کم کرنے والے ، بارش برسانے والے ، احکام الٰہی کو ان قوتوں کی طرف منسوب کر کے سمجھا یا گیا تھا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو پوری طاقت و قوت کے ساتھ دوسرے نظام کو چلانے کا ذکر کرنا مقصود تھا اور یہ تخیل بھی دیا گیا ہے کہ اس دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے عرش الٰہی کے حامل چار فرشتے ہیں اور اس طاقت و قوت میں مزید اضافہ ثابت کرنے کے لئے اس نظام کو ختم کرکے دوسرا انتظام کرنے کے لئے چار کی بجائے آٹھ فرشتوں کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ سب کو معلوم ہوجائے اور ہر ذہن و دماغ میں یہ بات واضح ہوجائے کہ اس دنیا کے جو انتظامات کئے گئے ہیں ان سے دوگنا انتظام ہوں گے اور اس طرح سب کے لئے سمجھنا آسان ہوگیا۔ کسی عام سطحی ذہن کے آدمی کو بھی کوئی بات باور کرانا ہو تو کسی ایک انتظام کو اس کی آنکھوں کے سامنے لا کر اگر اس کو کیا جائے کہ یہ انتظام جو آپ دیکھ رہے ہیں ہم جو انتظام کریں گے وہ اس سے دوگنا ہوگا تو اس کی سمجھ میں اس آنے والے انتظام کا ایک نقشہ مر قسم ہوجائے گا اور یہی ذہن نشین کرانا مقصود اصل ہے۔ رہا فی نفسہٖ عرش اور استویٰ علی العرش اور حاملین عرش تو یہ سب کے سب استعارات ہیں جو محض تفہیم کے لئے اختیار کئے گئے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کے لئے ہاتھ ، پائوں اور چہرے کا ذکر بھی کتاب و سنت میں آیا ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ لیس کمثلہ شی۔ لا مثل لہ ولا مثال لہ۔ لا ضدلہ ولا تدلہ تو اس سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہونے سے مراد اس کی طاقت و قوت کا اظہار ہے اور اس کی تفہیم کے لئے یہ سب استعارات ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ شکل و صورت سے پاک ہے اور اس کا تصور کرنا کہ ایسا ہوگا ، ابتدائے شرک ہے اور شرک سب ظلموں سے بڑا ظلم ہے۔ اس کی وضاحت کے لئے آپ غزوۃ الوثقی جلد سوم سورة الاعراف کی آیت 54 ، جلد چہارم سورة التوبہ کی آیت 129 ، سورة یونس کی آیت 2 ، سورة الرعد کی آیت 3 ، جلد پنجم سورة الاسراء کی آیت 42 ، سورة طہ کی آیت 5 ، جلد ششم سورة الانبیاء کی آیت 22 ، سورة المؤمنون کی آیت 86 ، 116 ، سورة الفرقان کی آیت 59 ، سورة النمل کی آیت 26 ، جلد ہفتم سورة السجدہ آیت 4 ، سورة الزمر کی آیت 75 ، سورة غافر کی آیت 7 ، 15 ، جلد ہشتم 82 جلد ہذا سورة الحدید کی آیت 4 میں اس کی وضاحت کرا دی گئی ہے ان مقامات کی تفسیر ملاحظہ کریں۔
Top