Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 16
قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
قَالَ : وہ بولا فَبِمَآ : تو جیسے اَغْوَيْتَنِيْ : تونے مجھے گمراہ کیا لَاَقْعُدَنَّ : میں ضرور بیٹھوں گا لَهُمْ : ان کے لیے صِرَاطَكَ : تیرا راستہ الْمُسْتَقِيْمَ : سیدھا
اس پر ابلیس نے کہا چونکہ تو نے مجھ پر راہ بند کردی تو اب میں بھی ایسا ضرور کروں گا کہ تیری سیدھی راہ سے بھٹکانے کے لیے بنی آدم کی تاک میں بیٹھوں
ابلیس کا کہنا کہ تو نے مجھ پر راہ بند کردی ہے تو میں بھی تیری راہ سے بھٹکاتا رہوں گا : 16: خیر و شر کا خالق ایک ہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ اور ایسا ہونا لازم تھا کیونکہ ہرچیز اضداد سے پہچانی جاتی ہے بغیر ضد کے کوئی ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے کہ ” لا ضدلہ وندلہ “ نہ اس کی ضد ہے اور نہ کوئی شریک ہے۔ ذات الٰہ کے سوا کوئی چیز ایسی نہیں جس کی ضد موجود نہ ہو۔ خیر جب ہی خیر ہے کہ اس کے ساتھ شر بھی موجود ہو اگر شر موجود نہ ہوتا تو خیر نام کی شے دنیا میں موجود ہی نہ ہوتی کیونکہ دنیا کا نظام اضداد پر قائم ہے۔ نافرمان قوت ضد ہے فرمانبردار قوت کی پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی فرمانبردار قوت موجود ہو اور نافرمان قوت موجود نہ ہو نام اس کا چاہے جو رکھیں قرآن کریم کی زبان میں جس کو ملائکہ کہا گیا وہ وہی فرمانبردار قوتیں ہیں جن میں نافرمانی کا عنصر موجود ہی نہیں اور اس کے مقابلہ میں کوئی قوت ایسی ہونی چاہئے جو نافرمان ہو اور فرمانبرداری کا عنصر اس میں موجود ہی نہ ہو وہ ابلیس ہے۔ لہٰذا ابلیس کا یہ کہنا کہ تو نے مجھے سیدھی راہ سے روک دیا ہے یا یہ کہ تو نے مجھ پر سیدھی راہ بند کردی ہے اس کی نافرمانی کی بالکل صحیح عکاسی کرتا ہے ورنہ اللہ نے اس پر صحیح راہ بند نہ کی تھی بلکہ اس کو صحیح راہ چلنے کا حکم دیا تھا پھر اگر وہ سیدھی راہ چل پڑتا تو اس کا نام تو فرمانبرداری تھا پھر وہ فرمانبرداری کر کے نافرمان کیسے ہوتا اس کو اس حکم نے ہی مجبور کیا کہ وہ الٹی راہ چلے اور اپنی فطری حالت کے مطابق نافرمان ہوتا کہ فرمانبرداروں کی پہچان ہو سکے اور انسان چونکہ دونوں طاقتوں کے مجموعہ کا نام ہے اس لئے جب وہ نافرمانی کی طاقت و قوت رکھنے کے باوجود فرمانبرداری اختیار کرے گا تو یہی اس کا کمال ہوگا اس لئے نافرمانی کی طاقت اور قوت کا یہ اعلان کہ ” تیری سیدھی راہ میں بیٹھ کر تیری راہ کو روکنے کی پوری کوشش کروں گا “ اپنی فطری حالت کا بالکل صحیح بیان ہے۔ جن لوگوں نے ابلیس کے اس بیان کو ” ابلیس کا حواس باختہ ہو کر رب العزت کو چیلنج دے دیا “ کے الفاظ تحریر کئے ہیں انہوں نے یا تو حقیقت کو نہیں سمجھایا پھر اس کو کسی خاص مصلحت کے تحت چھپانے کی کوشش کی ہے۔ ابلیس نے ابلیس ہونے کے باوجود یہ بات بالکل سچ کہہ دی کہ آدم (علیہ السلام) اور ابن آدم (علیہ السلام) کے اندر جب تو نے مجھ کو یعنی نافرمانی کی طاقت وقوت کو رکھا تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنا کام نہ کروں ؟ ہاں ! میرے ساتھ تو نے اس میں یعنی آدم (علیہ السلام) اور بنی آدم (علیہ السلام) میں فرمانبرداری کی طاقت وقوت کو بھی رکھ دیا ہے یعنی ابلیس کی ضد کو اب وہ بھی اپنا کام کرے گی پھر دیکھتے ہیں کہ ووٹ اس کے زیادہ ہوتے ہیں یا میرے۔
Top