Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 17
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِهِمْ١ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَاٰتِيَنَّهُمْ : میں ضرور ان تک آؤں گا مِّنْ : سے بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَ : اور مِنْ خَلْفِهِمْ : پیچھے سے ان کے وَ : اور عَنْ : سے اَيْمَانِهِمْ : ان کے دائیں وَ : اور عَنْ : سے شَمَآئِلِهِمْ : ان کے بائیں وَلَا تَجِدُ : اور تو نہ پائے گا اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر شٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
پھر اس (طاقت نے جس کا نام ابلیس رکھا گیا ہے ، کہا) کہ میں ان کے سامنے سے ، ان کے پیچھے سے ، داہنے سے ، بائیں سے ان پر آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا
ابلیس کا اپنے مقابل کی طاقت پر ” شش پا “ کی طرح قبضہ کرلینے کا اعلان : 17: اپنے مد مقابل قوتوں پر چاروں طرف سے حملہ آور ہونے کا اعلان کیوں اور کیسے ؟ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ابلیس ایک بزدل دشمن نہیں بلکہ ایک نہایت ہی طاقتور دشمن ہے جو اپنے مقابل کی قوتوں کو پوری طرح للکار رہا ہے کہ میں آگے ، پیچھے ، دائیں اور بائیں سے حملہ کروں گا اور اس کا یہ اعلان اور پھر فی الواقعہ ” شش پا “ کی طرح پوری طاقت سے حملہ کرنا کیا ہے ؟ یہ وہی وسوسہ اندازی ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اور خصوصاً سورة ” الناس “ میں بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ ” وسوس “ کے معنی بار بار وسوسہ ڈالنے والے کے ہیں اور وسوسے کے معنی ہیں پے در پے ایسے طریقے یا طریقوں سے کسی کے دل میں کوئی بری بات ڈالنا کہ جس کے دل میں وہ ڈالی جا رہی ہے اسے یہ محسوس نہ ہو سکے کہ وسوسہ انداز اس کے دل میں ایک بری بات ڈال رہا ہے۔ پھر یہ خیال اسے کیونکر آئے گا جب کہ اس کو باہر سے کوئی طاقت ایسا کرتے نظر نہیں آئے گی اور اس کی اپنے اندر ہی وہ طاقت بار بار اکسا رہی ہوگی جس کو قرآن کریم نے فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا سے تعبیر کیا ہے اور نبی اعظم وآخر ﷺ نے ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان پیدا ہونے سے بیان فرمایا ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ وسوسہ عمل شر کا نقطہ آغاز ہے وہ جب ایک غافل یا خالی الذہن آدمی کے اندر اثر انداز ہوجاتا ہے تو پہلے اس میں برائی کی خواہش پیدا ہوتی ہے پھر مزید وسوسہ اندازی اس بری خواہش کو بری نیت اور برے ارادے میں تبدیل کردیتی ہے پھر اس سے آگے جب وسوسے کی تاثیر بڑھتی ہے تو ارادہ وعزم بن جاتا ہے اور اس کا آخری قدم عمل شر ہوتا ہے۔ اس کو راستے میں اگر فرمانبرداری کی قوت کسی مقام پر دبالے اور اس کو بےقابو نہ ہونے دے تو یہ انسان کے لئے فائدہ مند ہے اور اگر اس کے معرض وجود میں آنے تک اس کو دبا نہ سکے تو یہ انسان کے لئے خسر الدنیا والاخرۃ کا سبب بن جاتی ہے اور یہی بات وہ نافرمانی کی طاقت و قوت یعنی ابلیس بول بول کر کہہ رہا ہے کہ تو اے خدا ! ان کے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا یعنی اتنی وضاحت سے سمجھانے کے باوجود وہ وہی کریں گے جو ان کی ہلاکت کا باعث ہوگا اور اس کے قریب بہت کم جائیں گے جو ان کے لئے دین و دنیا میں نفع کا باعث ہو۔ یعنی اس قادر مطلق نے ابلیس جو انسان کے قوائے ملکوتی کا ابدی دشمن ہے سے صاف صاف لفظوں میں اعلان کروا دیا تاکہ کوئی بات مبہم نہ رہے اور کل کوئی شخص یہ عذر نہ پیش کرسکے کہ اس ابدی دشمن کو ہم پہچان نہ سکے اور اس کے متعلق ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا اس لئے وہ اپنا دائو لگا گیا اگر ہم کو معلوم ہوجاتا تو کبھی ایسا نہ ہوتا۔ اس مخالف کی زبان سے وہ سب کچھ کہلوا دیا جو کچھ کرنا اس کی فطرت میں داخل تھا۔ لیکن علماء اسلام نے اس سارے قصہ کو بڑے عجیب رنگ میں پیش کیا اور جب ان پر کسی طرف سے کوئی سوال کیا گیا تو وہ بوکھلا کر وہی کچھ کرنے لگے جس کے کرنے کا وہ اعلان کرچکا تھا اور ان کو یہ یاد نہ رہا کہ وہ کم بخت ہمارے ساتھ بھی ہے بلکہ ہمارے جسموں کے اندر ہے اور وہی ہم سے ایسے ایسے بیان دلوا رہا ہے اور ہم اسی کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
Top