Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 201
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اتَّقَوْا : ڈرتے ہیں اِذَا : جب مَسَّهُمْ : انہیں چھوتا ہے (پہنچتا ہے طٰٓئِفٌ : کوئی گزرنے والا (وسوسہ) مِّنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان تَذَكَّرُوْا : وہ یاد کرتے ہیں فَاِذَا : تو فوراً هُمْ : وہ مُّبْصِرُوْنَ : دیکھ لیتے ہیں
جو لوگ متقی ہیں اگر انہیں شیطان کی وسوسہ اندازی سے کوئی خیال چھو بھی جائے تو فوراً چونک اٹھتے ہیں اور پھر اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں
متقی لوگ شیطان کی وسوسہ اندازی سے فورا چونک اٹھتے ہیں : 230: خطاب اگرچہ نبی کریم ﷺ کو ہے لیکن آپ ﷺ کے واسطہ سے تمام انسانیت کے لئے یہ حکم ہے کہ جو لوگ جہالت کی بجائے تقویٰ کی روش اختیار کرتے ہیں جب کبھی ان کو جاہلوں اور شیاطین کی شیطنت کو کوئی جھٹکا لگتا ہے تو وہ اپنے رب کو یاد کرتے ہیں جس سے فورا ان کا باطن روشن ہوجاتا ہے اور سارے خبیثوں کی خباثت کے باوجود ان کی راہ ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے پاتی اور اس طرح وہ شیطان کی وسوسہ اندازی سے فورا چونک جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کو صاف دکھائی دینے لگتا ہے کہ ان کے لئے صحیح طریق کار کیا ہے ، انسان کی زندگی میں بعض اوقات نہایت ہی نازک موڑ آجاتے ہیں اور اس کے لئے زندگی کا سفر نہایت ہی مشکل ہوجاتا ہے ۔ ایسے حالات میں زندگی کی گاڑی کسی وقت بھی الٹ جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اس لئے نہایت ہی احتیاط سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ذرا قدم پھسلا تو وہ کسی ایسی کھائی میں جا گرا اور زندگی کی گاڑی چکنا چور ہوگئی اور اگر خوش قسیتے سے وہ بچ بھی گئی تو وہاں سے نکلنا نہایت ہی مشکل ہوگیا۔ ایسے حالات میں اللہ کی یاد ہی انسان کے لئے وہ سہارا ہے جس کے بل بوتے پر وہ دوبارہ اٹھ کر چلنے کے قابل ہوجاتا ہے ورنہ بڑے بڑے پہلوان دل چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لئے یاد رکھئے کہ اس سے محفوظیت کے تین درجے ہیں جن میں سے درجہ اول یہ ہے کہ وسوسہ کا اثر ہی سرے سے نہ ہو اور درجہ ثانی یہ ہے کہ وسوسہ اثر دکھائے مگر معاََ تنبیہ بھی ہوجائے اور وسوسہ کے شر سے حفاظت رہے اور درجہ ادنیٰ یہ ہے کہ پھسلے مگر معاً سنبھل جائے ، ڈرے ، جھج کے اور باز آجائے تو اس طرح گویا اس کو توبہ نصیب ہوگئی اور اس طرح وہ ڈوبنے سے بچ نکلا۔
Top