Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 91
وَ مِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَ الْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّ رِزْقًا حَسَنًا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
وَ : اور مِنْ : سے ثَمَرٰتِ : پھل (جمع) النَّخِيْلِ : کھجور وَالْاَعْنَابِ : اور انگور تَتَّخِذُوْنَ : تم بناتے ہو مِنْهُ : اس سے سَكَرًا : شراب وَّرِزْقًا : اور رزق حَسَنًا : اچھا اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : عقل رکھتے ہیں
جو لوگ کافر ہوئے اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے وہ اگر (نجات حاصل کرنی چاہیں اور) بدلے میں زمین بھر کر سونا دیں تو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ان لوگوں کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا اور ان کی کوئی مدد نہیں کرے گا
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ : جن لوگوں نے کفر کیا اور کفر سے توبہ نہ کی اور کفر کی حالت میں ہی مرگئے۔ فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَھَبًا : اگر بالفرض انہوں نے زندگی میں زمین بھر سونا خیرات کیا ہوگا تب بھی قیامت کے دن قبول نہیں کیا جائے گا اس سے کم کا تو ذکر ہی کیا ہے کیونکہ ایمان، تمام صدقات و عبادات کے قبول ہونے کی شرط ہے بلکہ عبادت عبادت ہی نہیں ہوتی جب تک ایمان اور خلوص کے ساتھ نیت نہ ہو۔ چونکہ الذین میں شرط کا مفہوم ہے اس لیے اِنّ کی خبر یعنیفَلَنْ یُّقْبَلَ میں فاء (جزائیہ) لائی گئی اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ کفر کی حالت میں مرنا خیرات قبول نہ ہونے کا سبب ہے۔ وَّلَوِ افْتَدٰى بِهٖ : اگر قیامت کے دن بالفرض وہ زمین بھر سونا بدلہ میں دے تب بھی قبول نہ ہوگا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ عذاب قیامت کے عوض اگر کوئی زمین بھر کر اور اسکے ساتھ اتنا ہی اور سونا دیگا تب بھی قبول نہ ہوگا جیسے دوسری آیت میں آیا ہے کہ : وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَہٗ مَعَہٗ (گویا بِہٖ سے مراد ہے بمثلہ۔ لفظ مثل محذوف ہے) چونکہ دو ایک طرح کی چیزوں کا حکم ایک ہی ہوتا ہے اس لیے کسی ایک چیز کے ذکر کے وقت اس جیسی دوسری چیز بھی اس کے ساتھ بکثرت مراد لے لی جاتی ہے۔ وَلَوْ افتدیٰ میں لَو وصلیہ نہیں ہے (یعنی اگرچہ اور خواہ کا معنی نہیں ہے) کیونکہ شرط وصلی کی صورت میں نقیض شرط کا جزاء ہونا بدرجہ اولیٰ صحیح ہوتا ہے جیسے آیت : یَکَادُ زَیْتُھَا یُضِیی وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ کا مفہوم یہ ہے کہ (درخت زیتون اتنا چمکیلا اور شفاف ہوتا ہے کہ) اس کا تیل آگ کے چھوتے ہی مشتعل ہوجائے اور آگ اس کو نہ لگے تب بھی مشتعل ہوجائے اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہوگا کہ اگر وہ اپنے بدلہ میں زمین بھر سونا نہ دے تو قبول نہیں کیا جائے گا اور دے تب بھی قبول نہ ہوگا (اور یہ مطلب غلط ہے) بعض علماء نے توجیہ مطلب اس طرح کی ہے کہ کوئی عوض قبول نہ ہوگا اگر زمین بھر سونے سے کم دے تب قبول نہ ہوگا اور زمین بھر سونا دے تب قبول نہ ہوگا۔ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ : اور انہی کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ اس آیت میں پر زور تخویف ہے کیونکہ جس کی طرف سے کوئی معاوضہ (جرم) قبول نہ ہو اس کو (بلامعاوضہ) محض کرم ذاتی کے زیر اثر معافی مل جانا بہت کم ہوتا ہے (مگر ہوسکتا ہے پس جب درد ناک عذاب میں مبتلا ہونے کی صراحت کردی تو) اس سے معافی کی طرف سے بالکل ناامید بنا دیا۔ وَّمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ : اور ان کا کوئی حمایتی نہ ہوگا کہ عذاب کو دفع کرسکے۔ مِن کی زیادتی مفید استغراق ہے (یعنی کوئی بھی مددگار نہ ہوگا) حضرت انس بن مالک ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : قیامت کے دن خفیف ترین عذاب والے دوزخی سے اللہ فرمائے گا اگر تیرے پاس روئے زمین کی تمام چیزیں ہوں تو کیا (آج) عذاب سے چھوٹنے کے لیے تو وہ سب چیزیں دے دے گا دوزخی کہے گا جی ہاں اللہ فرمائے گا جب تو آدم کی پشت میں تھا اس وقت میں نے تجھ سے اس سے بہت زیادہ آسان چیز کی خواہش کی تھی کہ (پیدا ہونے کے بعد) میرے ساتھ کسی کو شریک نہ قرار دینا مگر تو بغیر شرک کئے نہ رہا۔ (متفق علیہ)
Top