Tafseer-e-Usmani - Al-Israa : 20
كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ١ؕ وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا
كُلًّا : ہر ایک نُّمِدُّ : ہم دیتے ہیں هٰٓؤُلَآءِ : ان کو بھی وَهٰٓؤُلَآءِ : اور ان کو بھی مِنْ : سے عَطَآءِ : بخشش رَبِّكَ : تیرا رب وَ : اور مَا كَانَ : نہیں ہے عَطَآءُ : بخشش رَبِّكَ : تیرا رب مَحْظُوْرًا : روکی جانے والی
ہر ایک کو ہم پہنچائے جاتے ہیں ان کو تیرے رب کی بخشش میں سے اور تیرے رب کی بخشش کسی نے نہیں روک لی2
2 یعنی حق تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے موافق بعض طالبین دنیا کو دنیا اور تمام طالبین آخرت کو آخرت عطا فرماتا ہے۔ اس کی عطا میں کوئی مانع و مزاحم نہیں ہوسکتا۔ یا یہ مطلب ہے کہ طالب دنیا ہو یا طالب آخرت دنیاوی امداد سے دونوں کو حسب مصلحت حصہ پہنچتا ہے۔ محض کفر و عصیان کی وجہ سے دنیاوی بخشش کے دروازے بند نہیں کردیے جاتے۔
Top