Tafseer-e-Usmani - Maryam : 51
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى١٘ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مُخْلَصًا : برگزیدہ وَّكَانَ : اور تھا رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور مذکور کر کتاب میں موسیٰ کا3 بیشک وہ تھا چنا ہوا اور تھا رسول نبی4
3 یعنی قرآن کریم میں جو حال موسیٰ (علیہ السلام) کا بیان کیا جا رہا ہے لوگوں کے سامنے ذکر کیجئے کیونکہ اسحاق و یعقوب (علیہما السلام) کی نسل سے اسرائیلی سلسلہ کے اولوالعزم پیغمبر اور مشرّع اعظم ہوئے ہیں۔ اور جس طرح حضرت یحییٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کے تذکرہ میں خصوصیت کے ساتھ عیسائیوں کی اصلاح اور ابراہیم (علیہ السلام) کے ذکر میں مشرکین مکہ کو متنبہ کرنا مقصود تھا، حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کے تذکرہ سے شاید " یہود " کو بتانا ہو کہ قرآن کس قدر کشادہ دلی سے ان کے مقتدائے اعظم کے واقعی کمالات و محاسن کا اعلان کرتا ہے۔ یہود کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے اس جلیل القدر پیغمبر کی صریح پیشین گوئی کے موافق اسمٰعیلی نبی (محمد ﷺ کی رسالت و نبوت کا کھلے دل سے اعتراف کریں شاید اسی لیے حضرت موسیٰ کے بعد روئے سخن حضرت اسماعیل کی طرف پھیر دیا گیا۔ 4 جس آدمی کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئے وہ " نبی " ہے انبیاء میں سے جن کو خصوصی امتیاز حاصل ہو، یعنی مکذبین کے مقابلہ پر جداگانہ امت کی طرف مبعوث ہوں یا نئی کتاب اور مستقل شریعت رکھتے ہوں وہ " رسول نبی " یا " نبی رسول " کہلاتے ہیں۔ شرعیات میں جزئی تصرف مثلاً کسی عام کی تخصیص یا مطلق کی تقیید وغیرہ رسول کے ساتھ مخصوص نہیں عام انبیاء بھی کرسکتے ہیں۔ باقی غیر انبیاء پر رسول یا مرسل کا اطلاق جیسا کہ قرآن کے بعض مواضع میں پایا جاتا ہے وہ اس معنی مصطلح کے اعتبار سے نہیں۔ وہاں دوسری حیثیات معتبر ہیں۔ واللّٰہ اعلم۔
Top