Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
6  صاف جواب ہے اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی، ان مشرکوں کو جن سے تمہارا عہد ہوا تھا
6  سورة انفال اوائل ہجرت میں اور یہ سورة براءۃ اواخر ہجرت میں نازل ہوئی۔ آنحضرت ﷺ کی عادت یہ تھی کہ جو آیات قرآنی نازل ہوتیں۔ فرما دیتے کہ ان کو فلاں سورت میں فلاں موقع پر رکھو۔ ان آیات کے متعلق (جنہیں اب سورة " توبہ " یا " براءۃ " کہا جاتا ہے) آپ نے کوئی تصریح نہیں فرمائی کہ کس سورت میں درج کی جائیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقل سورت ہے کسی دوسری سورت کا جز نہیں لیکن عام قاعدہ یہ تھا کہ جب نئی سورت نازل ہوتی تو پہلی سورت سے جدا کرنے کے لیے " بسم اللہ " آتی تھی۔ سورة توبہ کے شروع میں " بسم اللہ " نہ آئی۔ جو مشعر ہے کہ یہ جداگانہ سورت نہیں۔ ان وجوہ پر نظر کر کے مصاحف عثمانیہ میں اس کے شروع میں " بسم اللہ " نہیں لکھی گئی لیکن کتابت میں اس کے اور انفال کے درمیان فصل کردیا گیا کہ نہ پوری طرح اس کا استقلال ظاہر ہو اور نہ دوسری سورت کا جز ہونا۔ باقی انفال کے بعد متصل رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ مضامین باہم اس قدر مرتبط و منتسق واقع ہوئے ہیں کہ گویا براءۃ کو " انفال " کا تتمہ اور تکملہ کہا جاسکتا ہے۔ سورة انفال تمام تر غزوہ بدر اور اس کے متعلقات پر مشتمل ہے۔ یوم بدر کو قرآن نے " یوم الفرقان " کہا کیونکہ اس نے حق و باطل، اسلام و کفر اور موحدین و مشرکین کی پوزیشن کو بالکل جدا جدا کر کے دکھلا دیا۔ بدر کا معرکہ فی الحقیقت خالص اسلام کی عالمگیر اور طاقتور برادری کی تعمیر کا سنگ بنیاد اور حکومت الٰہی کی تاسیس کا دیباچہ تھا۔ (وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ) 8 ۔ الانفال :73) کے مقابلہ میں جس خالص اسلامی برادری کے قیام کی طرف " انفال " کے خاتمہ پر (تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ) 8 ۔ الانفال :73) کہہ کر توجہ دلائی ہے اس کا صریح اقتضاء ہے کہ اس عالمگیر برادری کا کوئی طاقتور اور زبردست مرکز حسی طور پر دنیا میں قائم ہو، جو ظاہر ہے کہ جزیرۃ العرب کے سوا نہیں ہوسکتا جس کا صدر مقام مکہ معظمہ ہے " انفال " کے اخیر میں یہ بھی جتلا دیا گیا تھا کہ جو مسلمان مکہ وغیرہ سے ہجرت کر کے نہیں آئے اور کافروں کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے ہیں، دارالاسلام کے آزاد مسلمانوں پر ان کی ولایت ورفاقت کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ (مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُهَاجِرُوْا) 8 ۔ الانفال :72) ہاں حسب استطاعت ان کے لیے دینی مدد بہم پہچانی چاہیے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مرکز اسلام میں موالاۃ و اخوت اسلامی کی کڑیوں کو پوری مضبوطی کے ساتھ جوڑنے کے لیے دو باتوں میں سے ایک ہونی چاہیے یا تمام عرب کے مسلمان ترک وطن کر کے مدینہ آجائیں اور اسلامی برادری میں بےروک ٹوک شامل ہوں اور یا آزاد مسلمان مجاہدانہ قربانیوں سے کفر کی قوت کو توڑ کر جزیرۃ العرب کی سطح ایسی ہموار کردیں کہ کسی مسلمان کو ہجرت کی ضرورت ہی باقی نہ رہے یعنی تقریباً سارا جزیرۃ العرب خالص اسلامی برادری کا ایسا ٹھوس مرکز اور غیر مخلوط مستقر بن جائے جس کے دامن سے عالمگیر اسلامی برادری کا نہایت محکم اور شاندار مستقبل وابستہ ہو سکے۔ یہ دوسری صورت ہی ایسی تھی جس سے روز روز کے فتنہ فساد کی بیخ کنی ہوسکتی تھی، اور مرکز اسلام کفار کے اندرونی فتنوں سے بالکل پاک و صاف اور آئے دن کی بدعہدیوں اور ستم رانیوں سے پورا مامون و مطمئن ہو کر تمام دنیا کو اپنی عالمگیر برادری میں داخل ہونے کی دعوت دے سکتا تھا۔ اسی اعلیٰ اور پاک مقصد کے لیے مسلمانوں نے 2 ہجری میں پہلا قدم میدان بدر کی طرف اٹھایا تھا۔ جو آخرکار 6  ہجری میں مکہ معظمہ کی فتح عظیم پر منتہی ہوا جو فتنے اشاعت یا حفاظت اسلام کی راہ میں مزاحم ہوتے رہتے تھے فتح مکہ نے ان کی جڑوں پر تیشہ لگایا۔ لیکن ضرورت تھی کہ (وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ) 8 ۔ الانفال :39) کے امتثال میں اسلامی برادری کے مرکز اور حکومت الٰہیہ کے مستقر (جزیرۃ العرب) کو فتنہ کے جرائم سے بالکلیہ صاف کردیا جائے، تاکہ وہاں سے تمام دنیا کو اسلامی دیانت اور حقیقی تہذیب کی دعوت دیتے وقت تقریباً سارا جزیرۃ العرب یک جان و یک زبان ہو اور کوئی اندرونی کمزوری یا خلفشار بیرونی مزاحمتوں کے ساتھ مل کر اس مقدس مشن کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ پس جزیرۃ العرب کو ہر قسم کی کمزوریوں اور فتنوں سے پاک کرنے اور عالمگیر دعوت اسلامی کے بلند ترین مقام پر کھڑا کرنے کے لیے لازم ہوا کہ دعوت اسلام کا مرکز خالص اسلامیت کے رنگ میں رنگین ہو۔ اس کے قلب و جگر سے صدائے حق کے سوا کوئی دوسری آواز نکل کر دنیا کے کانوں میں نہ پہنچے۔ پورا جزیرہ سارے جہان کا معلم اور ہادی بنے اور ایمان و کفر کی کشمکش کا ہمیشہ کے لیے یہاں سے خاتمہ ہوجائے۔ سورة براءۃ کے مضامین کا یہی حاصل ہے۔ چناچہ چند روز میں خدا کی رحمت اور سچائی کی طاقت سے مرکز اسلام ہر طرح کے وسائس کفر و شرک سے پاک ہوگیا اور سارا عرب متحد ہو کر شخص واحد کی طرح تمام عالم میں نور ہدایت اور عالمگیر اسلامی اخوت پھیلانے کا کفیل وضامن بنا فللہ الحمد علی ذلک الغرض سورة انفال میں جس چیز کی ابتداء تھی سورة توبہ (براء ۃ) میں اس کی انتہاء ہے۔ اسی لیے " اول بآخر نسبتے دارد " کے موافق " براء ۃ " کو " انفال " کے ساتھ بطور تکملہ ملحق کردیا گیا۔ اور بھی مناسبات ہیں جن کو علماء نے تفاسیر میں بیان کیا ہے۔
Top