Tafseer-Ibne-Abbas - An-Noor : 51
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ : کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا ظَنَّ : گمان کیا الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتوں بِاَنْفُسِهِمْ : (اپنوں کے) بارہ میں خَيْرًا : نیک وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ھٰذَآ : یہ اِفْكٌ : بہتان مُّبِيْنٌ : صریح
مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب خدا اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
(51) اب اللہ تعالیٰ کامل مومنوں کا ذکر فرماتا ہے جیسا کہ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا تھا کہ میں تمہارے ساتھ رسول اکرم ﷺ کے پاس جاؤں گا اور آپ ہمارے درمیان جو فیصلہ فرمائیں گے میں اس پر راضی ہوں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی کہ خالص ایمان والوں کی شان اور ان کا قول تو یہ ہے کہ جس وقت ان کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان خدائی فیصلہ فرمائے تو وہ بخوشی کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے قبول کیا اور جس چیز کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس کو ہم نے مان لیا اور یہی حضرات یعنی حضرت عثمان ؓ اللہ تعالیٰ کے غصہ اور اس کی ناراضگی سے آخرت میں فلاح پائیں گے۔
Top