Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 12
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ : کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا ظَنَّ : گمان کیا الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتوں بِاَنْفُسِهِمْ : (اپنوں کے) بارہ میں خَيْرًا : نیک وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ھٰذَآ : یہ اِفْكٌ : بہتان مُّبِيْنٌ : صریح
جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا ؟ اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے ؟
قول باری ہے : (لو لا اذ سمعتموہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا وقالوا ھذا افک مبین۔ جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اس وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے) اس میں اہل ایمان کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ان لوگوں کے متعلق نیک گمان رکھیں جن کا ظاہر عدالت اور پاکدامنی کی نشاندہی کرتا ہو اور ان کے متعلق صرف گمان کی بنا پر فیصلہ نہ کریں ۔ وہ اس لئے کہ جن لوگوں نے حضرت عائشہ ؓ پر بہتان لگایا تھا انہوں نے مشاہدہ کی بنا پر یہ بات نہیں کہی بلکہ صرف اپنے گمان اور اٹکل کی بنا پر الزام تراشی کی تھی۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ حضرت عائشہ ؓ لشکر اسلام سے پیچھے رہ گئیں اور صفوان بن المعطل کے اونٹ پر سوار ہوکر آئیں جس کی مہار صفوان ؓ پکڑے ہوئے تھے تو انہوں نے بہتان طرازی شروع کردی۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کا ظاہر اس کی عدالت یعنی سلامت روی کی نشاندہی کرتا ہو اس کے متعلق حسن ظن رکھنا اور سوء ظن نہ رکھنا واجب ہے۔ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ مسلمانوں کے تمام امور کو جن کا تعلق ان کے عقود ان کے افعال اور ان کے تمام تصرفات سے ہو صحت اور جواز پر محمول کیا جائے انہیں فساد پر محمول کرنا اور گمان نیز اٹکل کی بنا پر انہیں غلط معنی پہنانا جائز نہیں ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ پایا جائے اور پھر دونوں نکاح کا اعتراف کرلیں تو ان کی تکذیب جائز نہیں ہے بلکہ ان کی تصدیق واجب ہے۔ امام مالک کا خیال ہے کہ اگر یہ دونوں اپنے نکاح کا ثبوت پیش نہ کرسکیں تو انہیں حد لگائی جائے گی۔ ہمارے اصحاب کا یہ قول بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک دینار اور ایک درہم دو درہموں اور دو دیناروں کے بدلے فروخت کردے تو ہم درہم ودیناروں اور ایک دینار دو درہموں کے بالمقابل قرار دیں گے۔ کیونکہ ہمیں اہل ایمان کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ نیز یہ حکم بھی ہے کہ ان کے معاملات کو ہواز کے پہلو پر محمول کریں۔ اس لئے اس سودے کو بھی جواز کے پہلو پر محمول کیا جائے گا اور اس کی وہی صورت ہے جو ابھی بیان ہوئی ہے اسی طرح اگر کوئی شخص جڑائو تلوار جس میں ایک سو درہم کی چاندی لگی ہو دو سو درہم میں فروخت کردے تو ہم ایک سو درہم کو ایک سو درہم کے بالمقابل قرار دیں گے اور باقی ایک سو کو تلوار کا بدل بنادیں گے اس طرح ہم بائیں اور مشتری کے اس سودے کو جائز سودے پر محمول کریں گے، عدم جواز یا فساد پر محمول نہیں کریں گے۔ تمام مسلمان عادل ہیں یہ چیز امام ابوحنیفہ کے اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ تمام مسلمان عادل ہیں جب تک کسی سے کوئی شک میں ڈالنے والی بات کا صدور نہ ہوجائے اس لئے کہ ہم جب مسلمانوں کے ساتھ حسن ظن رکھنے اور ظن وتخمین کی بنا پر ان پر ایسی بہتان طرازی کرنے والے کی تکذیب پر مامور ہیں جن سے ان کی ثقاہت اور عدالت مجروح ہوجائے تو ہمیں اس کا بھی حکم ہے کہ ان سے دوستی رکھیں اور ان کی ظاہری حالت پر ان کے متعلق ثقاہت و عدالت کا فیصلہ دیں۔ یہ بات انہیں پاک صاف قرار دینے اور ان کی گواہی قبول کرنے کی موجب ہے جب تک ان سے شک وشبہ میں ڈالنے والی کوئی ایسی حرکت صادر نہ ہوجائے جس سے ان کی گواہی کے متعلق توقف کرنا یا اسے رد کردینا واجب نہ ہوجائے۔ ارشاد باری ہے (ان الظن لا یغنی من الحق شیئا ۔ بیشک گمان حق کے سلسلے میں کسی چیز کا فائدہ نہیں دیتا) حضور ﷺ کا ارشاد ہے : (ایاکم والظن قانہ اکذاب الحدیث) گمان سے بچو کیونکہ یہ سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔ قول باری۔ (ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا) میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک تو یہ کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے متعلق حسن ظن رکھیں جس طرح یہ قول باری ہے : (فاذا دخلتم بیوتا نسلموا علی انفسکم) جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے آپ کو سلام کہو۔ یعنی ایک دوسرے کو سلام کہو۔ یا جس طرح یہ ارشاد ہے : لا تقتلوا انفسکم۔ اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ تمام اہل ایمان کو ان پر گزرنے والے احوال کے لحاظ سے ایک جان کی طرق قرار دیا گیا ہے۔ اگر ان میں سے ایک کو بھی کسی صدمے کا سامنا کرنا پڑے تو گویا اس صدمے سے سب کے سب دوچار ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں ابو عبداللہ احمد بن دوست نے ، انہیں جعفر بن حمید نے، انہیں الولید بن ابوثورنے، انہیں عبدالملک بن عمیر نے حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (مثل المومنین فی تواصلھم وتراحمھم والذی جعل اللہ بینھم کمثل الحسد اذوجع بعضہ وجع کلہ بالسھر والحمی۔ ) مسلمانوں کی آپس کی دوستی، ایک دوسرے کے ساتھ رحمدلی اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اخوت ومودت کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر اس کے ایک حصے کو کوئی تکلیف لاحق ہوجائے تو سارا جسم بےخوابی اور بخار کی تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن محمد ابن ناجیہ نے انہیں محمد بن عبدالملک بن زتجویہ نے ، انہیں عبداللہ بن ناصح نے، انہیں ابومسلم عبداللہ سن سعید نے مالک بن مغول سے اور انہوں نے حضرت ابوبردہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (المومنون للمومنین کا لبتیان یشد بعضہ بعضا۔ ) مسلمان ایک دوسرے کے لئے اس طرح ہیں جس طرح ایک عمارت ہو کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔
Top