Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 61
لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُیُوْتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآئِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوْ صَدِیْقِكُمْ١ؕ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا١ؕ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَیِّبَةً١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
لَيْسَ : نہیں عَلَي الْاَعْمٰى : نابینا پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلَي الْاَعْرَجِ : لنگڑے پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلَي الْمَرِيْضِ : بیمار پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ : خود تم پر اَنْ تَاْكُلُوْا : کہ تم کھاؤ مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اٰبَآئِكُمْ : یا اپنے باپوں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ : یا اپنی ماؤں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ : یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ : یا اپنی بہنوں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ : یا اپنے تائے چچاؤں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ : یا اپنی پھوپھیوں کے اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ : یا اپنے خالو، ماموؤں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ : یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے اَوْ : یا مَا مَلَكْتُمْ : جس (گھر) کی تمہارے قبضہ میں ہوں مَّفَاتِحَهٗٓ : اس کی کنجیاں اَوْ صَدِيْقِكُمْ : یا اپنے دوست (کے گھر سے) لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَاْكُلُوْا : تم کھاؤ جَمِيْعًا : اکٹھے مل کر اَوْ : یا اَشْتَاتًا : جدا جدا فَاِذَا : پھر جب دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا : تم داخل ہو گھروں میں فَسَلِّمُوْا : تو سلام کرو عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ : اپنے لوگوں کو تَحِيَّةً : دعائے خیر مِّنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاں مُبٰرَكَةً : بابرکت طَيِّبَةً : پاکیزہ كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ اللّٰهُ : اللہ واضح کرتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : سمجھو
نہ تو اندھے پر کچھ گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر اور نہ خود تم پر کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا اس گھر سے جس کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے (اور اسکا بھی) تم پر کچھ گناہ نہیں کہ سب مل کر کھانا کھاؤ یا جدا جدا اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھر والوں کو) سلام کیا کرو (یہ) خدا کی طرف سے مبارک (اور) پاکیزہ (تحفہ) ہے اس طرح خدا اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو
نابینائوں سے پردے کی کیفیت قول باری ہے : (لیس علی الاعمی حرج) ندھے کے لئے کوئی حرج نہیں۔ تاآخر آیت ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کے سبب نزول اور اس کی تاویل میں سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں ابوعبیدہ نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے قول باری (لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج ولا علی المریض حرج ) اندھے کے لئے کوئی حرج نہیں ہے، لنگڑے کے لئے کوئی حرج نہیں اور مریض کے لئے کوئی حرج نہیں کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ جب آیت (ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل) اور تم آپس میں ایک دسوورے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائونازل ہوئی تو مسلمانوں نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے سے منع کردیا ہے۔ کسی کے پاس جاکر کچھ کھانا حلال نہیں ہے۔ چناچہ لوگ ایک دوسرے کے پاس جاکر کچھ کھانے سے باز آگئے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث نازل فرمائی۔ یہ اس آیت کی ایک تاویل ہوئی۔ ہمیں جعفر بن ۔۔ سے روایت بیان کی انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں حجاج نے ابن جریج سے اور انہوں نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر کی کچھ اپاہج ، نابینا، لنگڑے اور حاجتمند قسم کے لوگ تھے جنہیں کچھ دوسرے لوگ اپنے ساتھ گھروں کو لے آتے تھے۔ اگر ان کے گھروں میں کچھ موجود نہ ہوتا تو وہ انہیں اپنے ساتھ اپنے باپ دادا کے گھروں میں لے جاتے۔ اس بات کو ان معذور لوگوں نے پسند کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جہاں سے بھی طعام مل جائے کھانا حلال کردیا۔ آیت کی یہ دوسری تاویل ہے ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں ابن مہدی نے ابن المبارک سے اور انہوں نے معمر سے، وہ کتے ہیں کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ اندھے لنگڑے اور مریض کا بیان کیوں ذکر ہوا ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ مجھے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی ہے کہ لوگ جب کسی غزوہ پر جاتے تو اپنے گھروں میں معذور لوگوں کو چھوڑ جاتے اور گھروں کی چابیاں ان کے حوالے کردیتے اور یہ کہہ دیتے کہ ہم نے تمہیں ان گھروں سے کھانے کی اجازت دے دی۔ لیکن یہ معذور افراد ان گھروں سے کچھ کھانا گناہ سمجھتے اور کہتے کہ مالکوں کی غیر حاضری میں ان گھروں میں داخل نہیں ہوں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں انہیں اس بات کی رخصت دے دی گئی آیت کی یہ تیسری تاویل ہے۔ ایک چوتھی تاویل بھی مروی ہے جسے سفیان نے قیس بن مسلم سے اور انہوں نے مقسم سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ لوگ اندھے ، لنگڑے اور مریض کے ساتھ بیٹھ کر کھانے سے پرہیز کرتے تھے کیونکہ اس صورت میں یہ لوگ اتنا نہیں کھا سکتے تھے جتنا ایک تندرست آدمی کھا لیتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن بعض اہل علم نے اس تاویل پر تنقید کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اندھے کے ساتھ بیٹھ کر کھانے میں تمہارے لئے کو حرج نہیں ہے۔ “ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اندھے سے نیز اس کے ساتھ مذکورہ لوگوں سے کھانے کے معاملے میں حرج کا ازالہ فرمایا ہے۔ یہ تو رہی اللہ کے متعلق بات جب وہ دوسرے کے مال میں سے کچھ کھالے، آیت کے متعلق سلف سے منقول توجیہات میں سے یہ بھی ایک توجیہ ہے۔ تاہم مقسم کی توجیہ احتمال بعید کی حامل ہے جبکہ حضرت ابن عباس ؓ کی توجیہ بالکل واضح ہے کیونکہ قول باری ہے : (ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم۔ ) اور مل بیٹھ کر کھانا تجارت کی صورت نہیں تھی اس لئے لوگ اس سے باز آگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث نازل کرکے اس کی اباحنت کردی۔ مجاہدنے آیت کی جو توجیہ کی ہے وہ بھی دو وجوہ سے درست ہے۔ ایک تو یہ کہ لوگوں کی عادت تھی کہ وہ اپنے رشتہ داروں اور ساتھ آنے والوں کو طعام میں شریک کرلیتے تھے۔ اس عادت اور رسم کی حیثیت یہ تھی کہ گریا زبان سے اس کا ذکر کردیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اندھے، لنگڑے اور مریض کے لئے اس صورت میں کھانے کی اباحت کردی جب دوسرے لوگ انہیں اپنے ساتھ گھروں کو لے جائیں۔ اس صورت میں یہ معذور لوگ ان لوگوں کے گھروں میں یا ان کے باپ دادا کے گھروں میں جاکر کھانا کھا سکتے تھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہیں طعام کی ضرورت ہوتی تھی اس زمانے میں ایسے لوگوں کی مہمان نوازی واجب تھی اور لوگوں میں یہ ضرورت مند لوگ بقدر طعام حق رکھتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے معذوروں کے لئے اس بات کی اباحت کردی کہ وہ اجازت کے بغیر بھی لوگوں کے اموال میں بقدر ضرور ت کھاپی سکتے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ اگر تم اپنے دوست کے گھر جاکر کھانا کھالو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ ارشاد باری ہے (او صدیقکم یا اپنے دوست کے گھر) روایت میں ہے کہ ایک بدوی حسن بصری کے پاس آیا وہاں اس نے کھانے کا دستر خوان لٹکا ہوا دیکھا۔ دستر خوان اتار کر اس نے کھانا شروع کردیا۔ یہ دیکھ کر حسن رونے لگے۔ جب ان سے رونے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ اس بدوی نے یہ کام کرکے مجھے اپنے بھائیوں کی یاد دلادی جواب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ ان کی مراد یہ تھی کہ لوگ کھانے کے معاملے میں بےتکلفی سے کا م لیتے تھے اور اجازت وغیرہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ یہ بھی ان کی عادت اور رسم پر مبنی بات تھی جو ان لوگوں کے درمیان جاری وساری تھی۔ کن گھروں سے معذور لوگ کھانا کھا سکتے ہیں قول باری ہے : (ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم) اور نہ تمہارے اوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھائو یعنی……واللہ اعلم……ان گھروں سے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں جن میں یہ رہتے ہوں اور دوسروں کے عیال میں شمار ہوتے ہوں۔ مثلاً ایک شخص کی بیوی، اس کی اولاد نے اس کے نوکر چاکر اور دیگر افراد، ایسے لوگ اس شخص کے گھر سے کھاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے گھروں کی نسبت ان لوگوں کی طرف کردی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس گھر میں رہنے والے ہیں اگرچہ وہ کسی اور کے عیال میں شمار ہوتے ہیں جو گھر کا مالک ہوتا ہے کیونکہ یہ مراد لینا درست نہیں ہے کہ انسان کو اپنے مال میں سے کھانے کی اباحت کردی جائے اس لئے کہ خطاب کی ابتداء ظاہری طور پر اس بات پر مشتمل ہے کہ ایک شخص کے لئے دوسرے کے مال میں سے کھانے کی اباحت ہے۔ ارشاد باری ہے : (او بیوت ابائکم اوب بیوت امھاتکم او بیوت اخانکم او بیوت اخواتکم) یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے۔ اللہ تعالیٰ نے ان محرم اقرباء کے گھروں سے کھانے کی اباحت کردی کیونکہ عادت اور رسم یہ تھی کہ اس جیسے رشتہ داروں کو کھانے میں شریک کرلیا جاتا تھا اور ان کے لئے کوئی ممانعت نہیں تھی۔ اولاد کے گھروں سے کھانے کا ذکر نہیں ہوا اس لئے قول باری : (ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم) سے یہ بات از خود معلوم ہوگئی تھی اس لئے کہ ایک شخص کا مال اس کے باپ کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہ : انت ومالک لا بیک تو اور تیرا مال سب کچھ تیرے باپ کا ہے۔ آپ کا یہ بھی ارشاد ہے (ان اطیب مااکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ فکلوا من کسب اولادکم) انسان کے لئے پاکیزہ ترین کھانا وہ ہے جس اس کی اپنی کمائی سے حاصل ہوا ہو، انسان کی اولاد اس کی اپنی کمائی ہے اس لئے تم اپنی اولاد کی کمائی کھائو۔ اس بنا پر آیت میں (من بیوتکم) کے ذکر پر اکتفا کرلیا گیا اور اولاد کے گھروں کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی گئی کیونکہ اولاد کے گھر بھی ان کے آباء کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ گھروں کی کنجیاں کن کے سپرد کی جائیں ؟ قول باری ہے : (اوما ملکتم مغاتحہ او صدیقکم) یا ان کے گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ علی ابن ابی طلحہ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ قول باری (او ما صلکتم مفاتعہ) کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو کھانا وغیرہ تیار کرنے یا جانوروں سے دودھ نکالنے یا پھل وغیرہ اتارنے کا کام سپرد کردے اور پھر اسے اس طعان یا دودھ یا پھل میں سے کھانے کی اجازت دے دے۔ عکرمہ سے اس قول باری کی تفسیر میں مروی ہے کہ جب گھر کی کنجی کسی کے سپرد کردی جائے تو ایسا کرنا درست ہوتا ہے اور اس شخص کے لئے اس گھر سے تھوڑا بہت کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ سعید نے قتادہ سے قول باری : (لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج ) کی تفسیر میں یہ روایت کی ہے کہ کوئی شخص کسی کو مہمان نہیں بناتا تھا اور نہ ہی خود کسی دوسرے کے گھر سے کچھ کھاتا تھا۔ ا ایسا کرکے وہ گناہ سے بچنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اندھے ، لنگڑے اور مریض کو اجازت دی اور پھر تمام لوگوں کو اس کی اجازت دے دی اور فرمایا : (ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم) تا قول باری (او ما صلکتم مفاتحہ) یعنی ” اے ابن آدم جو کچھ تیرے پاس ہے اس میں سے اگر کچھ کھالے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ پھر ارشاد ہوا (اوصدیقکم) یعنی اگر تو اپنے دوست کے گھر چلا جائے اور اس کی اجازت کے بغیر وہاں سے کچھ کھالے تو یہ تیرے لئے حلال ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات بھی عادت اور رواج پر مبنی تھی جس کے تحت کھانے کی اجازت ہوتی تھی اس لئے معتاد طریقے کو زبان سے کہی ہوئی بات کی طرح سمجھا جاتا تھا اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بیوی شوہر سے پیشگی اجازت لئے بغیر اس کے گھر میں بچا ہوا روٹی کا کوئی ٹکڑا یا اس جیسی کوئی چیز صدقہ کردے تو اس کی اجازت تھی کیونکہ یہ ان کے درمیان ایک متعارف بات تھی اور وہ اس سے اپنی بیویوں کو روکتے نہیں تھے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ عبدماذون یعنی ایسا غلام جسے آقا کی طرف سے تجارت وغیرہ کرنے کی اجازت ہو، اسی طرح مکاتب کسی کو اپنے کھانے میں شریک کرلیں یا ان کے پاس جو ملا ہو اس میں سے تھوڑا بہت صدقہ کردیں تو ان کے لئے آقا کی اجازت کے بغیر ایسا کرنا جائز ہوتا ہے قول باری (اوصدیقکم) کی تفسیر میں اعمش نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے :” میں تو یہ سمجھے لگا ہوں کہ ایک مسلمان اپنے درہم ودینار کا اپنے مسلمان بھائی سے بڑھ کر حق دار نہیں ہوتا۔ “ عبداللہ الرصافی نے محمد بن علی سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام کا یہ تصور تھا کہ ان میں سے کوئی بات اپنے آپ کو اپنے بھائی سے بڑھ کر درہم ودینار کا حق دار نہیں سمجھتا تھا۔ اسحاق بن کثیر نے روایت کی ہے کہ انہیں الرصافی نے بتایا کہ وہ ایک دن ابوجعفر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے یہ سوال کیا کہ آیا تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آستین یا جیب میں ہاتھ ڈال کر وہاں موجود رقم لے سکتا ہے ؟ حاضرین نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر انہوں نے فرمایا ، پھر تم آپس میں بھائی بھائی نہیں ہو۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اپنے محرم رشتہ دار کے گھر چوری کا ارتکاب کرلے تو اس جرم پر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ محرم رشتہ داروں کے لئے گھروں کے بغیر اجازت داخل ہونے اور ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہونے کی اباحت کردی ہے اس بنا پر ان رشتہ داروں سے گھر کے مالکوں کا مال محفوظ جگہ میں رکھا ہوا نہیں سمجھا جائے گا۔ جبکہ قطع ید کے لئے محفوظ کیے ہوئے مال کا چرانا شرط ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس بنیاد پر دوست کے گھر سے مال چرانے پر بھی قطع ید کی سزا نہیں ملنی چاہیے کیونکہ آیت میں دوست کے گھر سے بھی کھانے کی اباحت ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جو شخص اپنے دوست کے گھر سے مال چرانے کی نیت رکھتا ہو وہ اس کا دوست نہیں ہوتا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت قول باری : (لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تسانسوا) کی بنا پر منسوخ ہوچکی ہے۔ نیز حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی اس آیت کے نسخ پر دلالت کرتا ہے کہ (لا بجل مال امری مسلم الا بطیبۃ من نفسہ ) کسی مسلمان کا مال اس وقت تک حلال نہیں ہوتا جب تک وہ خوش دل کے ساتھ اسے کسی کو نہ دے دے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا آیت وخبر میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو آیت زیر بحث کے نسخ کو واجب کررہی ہو اس لئے کہ آیت زیر بحث صرف ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کا اس میں ذکر ہوا ہے جبکہ دوسری آیت باقی ماندہ تمام لوگوں کے لئے ہے جو ان پہلے لوگوں سے الگ ہیں۔ یہی کیفیت حضور ﷺ سے مروی روایت کی ہے۔ قول باری ہے :(لیس علیکم جناح ان تاکلوا جمیعا او اشتاتا) اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھائو یا الگ الگ ۔ سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بنو خزیمہ کے قبیلہ کنانہ کا ہر فرد یہ سمجھتا تھا کہ تنہا بیٹھ کر کھانا کھانا حرام ہے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ اونٹوں کا گلہ ہانکتے ہانکتے ایک شخص بھوک سے تڑپ اٹھتا لیکن جب تک اسے کھانے میں شرکت کرنے والا کوئی نہ مل جاتا اس وقت تک وہ کچھ نہ کھاتا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر درج بالا آیت نازل فرمائی۔ ولید بن مسلم نے روایت کی ہے، انہیں وحشی بن حرب نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے والد وحشی سے کہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام نے ایک دفعہ آپ سے عرض کیا کہ ہم کھانا تو کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” شاید تم لوگ الگ الگ کھاتے ہو۔ “ انہوں نے اثبات میں جواب دیا ۔ اس پر آپ نے فرمایا : ایک ساتھ بیٹھ کر کھائو اور کھانے پر بسم اللہ پڑھ لیا کرو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اس کھانے میں برکت ڈال دے گا۔ “ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ (جمیعا او اشتاتا) کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص اپنے گھر میں فقیر کو بھی کھانے میں شریک کرلے۔ ابو صالح کا قول ہے کہ جب کسی کے گھر کوئی مہمان آتا تو وہ ان کے ساتھ مل کر کھانے کے سوا تنہا بیٹھ کر کھانے کو گناہ سمجھتے تھے۔ ایک قول کے مطابق ہر انسان کو اس بات کا خطرہ رہتا کہ اگر وہ دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر کھائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ خودوسرے آدمی سے زیادہ نہ کھالے اس بنا پر ہر شخص دوسرے کے ساتھ مل کر کھانے سے پرہیز کرتا۔ ابوبکر حبصاص اس تاویل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس تاویل کا بھی احتمال موجود ہے۔ اس مفہوم پر قول باری : (ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیر وان تخالطوھم فاخوانکم) اور پوچھتے ہیں یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے کہو، جس طرز عمل میں ان کے لئے بھلائی ہو وہی اختیار کرنا بہتر ہے اگر تم اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں۔ دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں کے لئے اپنے طعام کے ساتھ یتیم کے طعام کو ملا کر اکٹھے بیٹھ کر کھانے کی اباحت کردی۔ اس طرح یہ قول باری بھی ہے : (فابعثوا احدکم بورقکم ھذہ الی المدینۃ فلینظر ایھا ازکی طعاما فلیاتکم برزق منہ) چلو اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے وہاں سے وہ کچھ کھانے کے لئے لائے۔ چاندی کا سکہ ان سب کا تھا اور طعان ان سب کے درمیان مشترک تھا اور انہوں نے اس کھانے کو اکٹھے بیٹھ کر تناول کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ اسی طرح یہ قول باری بھی ہے : (لیس علیکم جناح ان تاکلوا جمیعا) ممکن ہے کہ ا س سے مراد یہ ہو کہ تمام لوگ کھانا درمیان میں رکھ کر اکٹھے مل کر کھالیں جس طرح سفر پر جانے والے لوگ کرتے ہیں کہ گروہ کا ہر شخص مساوی رقم ادا کرتا ہے اور سب مل کر اس رقم سے تیار شدہ کھانا کھالیتے ہیں۔ اس میں یہ خیال نہیں رکھا جاتا کہ کس نے زیادہ کھالیا اور کس نے کم، اسے مناہدہ کہتے ہیں۔ گھروں میں داخل ہوتے وقت سلام کہیں قول باری ہے : (فاذا دخلتم بیوتا فسلموا علی انفسکم تحیۃ من عندالل مبارکۃ طیبۃ) البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعائے خیر ، اللہ کی طرف سے مقرر قرمائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ ، معمر نے حسن سے روایت کی ہے کہ مفہوم یہ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرو جس طرح یہ قول ہے : (ولا تقتلوا انفسکم) اور تم اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔ مفہوم یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ معمر نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ بیوت سے مراد مسجدیں ہیں، جب تم مسجد میں داخل ہو تو یہ کہو ” السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین۔ “ (ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو) نافع نے حضرت عمر ؓ کے متعلق روایت کی ہے کہ وہ جب مسجد میں داخل ہوتے تو کہتے ” (بسم اللہ السلام علی رسول اللہ کے نام کے ساتھ اور اللہ کے رسول پر سلام) جس کسی گھر میں داخل ہوتے اور وہاں کوئی موجود ہوتا تو کہتے ” السلام علیکم “ اور اگر گھر خالی ہوتا تو فرماتے ” السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین “ زہری کا قول ہے کہ (فسلموا علی انفسکم) کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم اپنے ھگر میں داخل ہو تو اہل خانہ کو السلام علیکم کہو کیونکہ تم جن لوگوں کو سلام کہتے ہو ان میں سب سے بڑھ کر اس سلام کے حق دار تمہارے اہل خانہ ہیں، اور جب تم خالی گھر میں داخل ہو تو السلام علینا وعلی ٰ عباد اللہ الصالحین “ کہو ہر شخص کو اس کا حکم دیا گیا ہے اور ہمیں یہ روایت ملی ہے کہ فرشتے اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جب آیت کے الفاظ میں ان تمام توجیہات کا احتمال موجود ہے جو سلف سے منقول ہیں تو اس سے ضروری ہے کہ عموم لفظ کے دائرے میں یہ تمام مراد لی جائیں۔ قول باری (تحیۃ من عنداللہ مبارکۃ طیبۃ) کا مفہوم یہ کہ لفظ السلام، اللہ کی طرف سے تحیت ہے کیونکہ اللہ ہی نے اس کا حکم دیا ہے۔ یہ تحیت بہت برکت والی اور پاکیزہ ہے کیونکہ یہ سلامتی کی دعا پر مشتمل ہے اس لئے اس دعا کا اثر اور اس کی منفعت ختم نہیں ہوگی۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ قول باری : (فاذا حییتم بتحیۃ فجبوا باحسن منھا اور دوھا) اور جب احترام کے ساتھ تمہیں کوئی سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اسی طرح ، میں سلام مراد ہے۔
Top