Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 23
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ١٘ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ١٘ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ١ۙ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ
حُرِّمَتْ
: حرام کی گئیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اُمَّھٰتُكُمْ
: تمہاری مائیں
وَبَنٰتُكُمْ
: اور تمہاری بیٹیاں
وَاَخَوٰتُكُمْ
: اور تمہاری بہنیں
وَعَمّٰتُكُمْ
: اور تمہاری پھوپھیاں
وَخٰلٰتُكُمْ
: اور تمہاری خالائیں
وَبَنٰتُ الْاَخِ
: اور بھتیجیاں
وَبَنٰتُ
: بیٹیاں
الْاُخْتِ
: بہن
وَاُمَّھٰتُكُمُ
: اور تمہاری مائیں
الّٰتِيْٓ
: وہ جنہوں نے
اَرْضَعْنَكُمْ
: تمہیں دودھ پلایا
وَاَخَوٰتُكُمْ
: اور تمہاری بہنیں
مِّنَ
: سے
الرَّضَاعَةِ
: دودھ شریک
وَ
: اور
اُمَّھٰتُ نِسَآئِكُمْ
: تمہاری عورتوں کی مائیں
وَرَبَآئِبُكُمُ
: اور تمہاری بیٹیاں
الّٰتِيْ
: جو کہ
فِيْ حُجُوْرِكُمْ
: تمہاری پرورش میں
مِّنْ
: سے
نِّسَآئِكُمُ
: تمہاری بیبیاں
الّٰتِيْ
: جن سے
دَخَلْتُمْ
: تم نے صحبت کی
بِهِنَّ
: ان سے
فَاِنْ
: پس اگر
لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ
: تم نے نہیں کی صحبت
بِهِنَّ
: ان سے
فَلَا جُنَاحَ
: تو نہیں گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَحَلَآئِلُ
: اور بیویاں
اَبْنَآئِكُمُ
: تمہارے بیٹے
الَّذِيْنَ
: جو
مِنْ
: سے
اَصْلَابِكُمْ
: تمہاری پشت
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَجْمَعُوْا
: تم جمع کرو
بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ
: دو بہنوں کو
اِلَّا مَا
: مگر جو
قَدْ سَلَفَ
: پہلے گزر چکا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
رَّحِيْمًا
: مہربان
تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کردی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کرچکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے ہو (وہ بھی حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (تو ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرلینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہوچکا (سو ہوچکا) بیشک خدا بخشنے والا (اور) رحم والا ہے
سات نسبی اور سات سسرالی رشتے حرام ہیں قول باری ہے (محرمت علیکم امھا تکم وبناتکم، تم پر تمہاری مائیں اور تمھاری بیٹیاں حرام کردی گئی ہیں) تاآخر آیت۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں محمد بن الفضل بن سلمہ نے انہیں سنیدبن داؤدنے، انہیں وکیع نے ، انہیں علی بن صالح نے سماک سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ قول باری (حرمت علیکم امھاتکم، تاقول باری (وینات الاخت، اور بہن کی بیٹیاں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے سات نسبی رشتے اور مصاہرت کی بناپرحاصل ہونے والے سات سسترالی رشتے حرام کردیئے ہیں۔ پھر فرمایا (کتاب اللہ علیکم واحل لکم ماوراء ذلکم، اللہ تعالیٰ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر فرض کردی گئی ہے اور ان کے ماسواجتنی عورتیں ہیں انہیں تمہارے لیے حلال کردیا گیا ہے) یعن ان محرمات کے ماسوا۔ پھر فرمایا (وامھا تکم اللانی اد ضعنکم واخواتکم منالرضاعۃ اور تمھاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے اور تمہاری رضاعی بہنیں) تاقول باری (والمحصنات من النساء الا ماملکت ایمانکم، اور وہ عورتیں جو دوسروں کے نکاح میں ہوں البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو جنگ میں تمہارے ہاتھ آئیں) یعنی جنگ میں گرفتارشدہ عورتیں۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (حرمت علیکم) میں ان تمام خواتین کے لیے عموم ہے جو حقیقت کے لحاظ سے اس اسم کے تحت آتی ہوں۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ نانیاں خواہ واسطوں کے لحاظ سے کتنی دورکیوں نہ ہوں حرام ہیں۔ آیت میں ان کا ذکر نہیں ہے اور صرف ماؤں کے ذکرپراکتفا کیا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امھات کا لفظ ان سب کو شامل ہے جس طرح آباء کا لفظ دادوں کو شامل ہے خواہ واسطوں کے (رح) لحاظ سے وہ کتنی دورکیوں نہ ہوں۔ قول باری (ولاتنکحوامانکح اباء کم ) سے خودیہ بات سمجھ میں آتی تھی کہ دادوں کے عقد میں آنے والی خواتین حرام ہیں اگرچہ جد کے لیے خاص اسم ہے جس میں باپ شامل نہیں ہوتالیکن ایک اسم عام یعنی ابوت (نسبت پدری) ان سب کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے۔ اس طرح قول باری (وبناتکم) بیٹوں کے علاوہ اولاد کی بیٹیوں یعنی پوتیوں اور نواسیوں کو بھی شامل ہے خواہ واسطوں کے لحاظ سے وہ کس قدرنیچے کیوں نہ ہوں اس لیے کہ بنات کا اسم انہیں شامل ہے جس طرح آیاء کا اسم اجداد کو شامل ہے۔ قول باری ہے (واخواتکم وعماتکم وخالاتکم وبنات الاخ وبنات الاخت، اور تمھاری ب نہیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، بھتیجیاں اور بھانجیاں) بھتیجیوں اور بھانجیوں کا الگ سے ذکر کیا اس لیے کہ بھائی اور بہن کا اسم ان کو شامل نہیں تھا جس طرح بنات کا اسم اولاد کی بنات کو شامل تھا۔ نسب کی جہت سے یہ وہ سات خواتین ہیں جو نص قرانی کی بنیاد پر محرمات قراردی گئیں۔ پھر فرمایا (وامھا تکم اللاتی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ وامھات نساء کم ورباء بکم اللاتی فی حجورکم من نساء کم اللاتی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلاجناح علیکم وحلائل ابناء کم الذین من اصلابکم فان تجمعوا بین الاختین الاماقد سلف۔ اورتمھاریوہمائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایاہو اورتمھاری دودھ شریک ب نہیں اور تمھاری بیویوں کی مائیں اور تمھاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے، ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمھاراتعلق زن وشوہوچکا ہو ورنہ اگر (صرف نکاح ہواہو اور) تعلق زن وشونہ ہواہو توا نہیں چھوڑکران کی لرکیوں سے نکاح کرلینے میں) تم پر کوئی مواخذہ نہیں اور تمھارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمھاری صلت سے ہوں اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرومگرجوپہلے ہوچکاسوہوچکا) ۔ اس سے پہلے فرمایا (وماتنکحوامانکح اباء کم من النساء، جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہوں ، ان سے ہرگز نکاح نہ کرو) یہ سات عورتیں ہوگئیں جو سسرالی رشتے کی جہت سے محرمات قراردی گئیں۔ قول باری (وبنات الاخ وبنات الاخت) سے یہ بات خود سمجھ میں آگئی کہ ان میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جوان سے نچے طبقوں میں ہوں گی جس طرح قول باری (امھاتکم) وہ عورتیں بھی ان میں شامل سمجھی گئیں جوان سے اونچے طبقوں میں ہوں گے۔ یہی بات قول باری (بناتکم) سے بھی سمجھ میں آگئی کہ ان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جوان سے نچلے طبقوں میں ہوں گی، نیزقول باری (وعماتکم) سے باپ اور ماں کی پھوپھیوں کی تحریم بھی سمجھ آگئی اسی طرح قول باری (وخالاتکم) سے باپ اور ماں کی خالاؤں کی تحریم معلوم ہوگئی جس طرح باپ کی امھات یعنی دادی، پڑدادی اوپرتک کی تحریم کا حکم معلوم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے پھوپھیوں اور خالاؤ کو تحریم کے حکم ساتھ خاص کردیا، ان کی اولاد کو اس میں شامل نہیں کیا۔ پھوپھی اور خالہ کی بیٹیوں سے نکاح کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ قول باری ہے (وامھاتکم اللاتی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ) یہ بات تو واضح ہے کہ امومت (مادری نسبت) اور اخوت (خواہری نسبت) کی علامت کا استحقاق رضاعت کی بناپرہوا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس علامت اور نشان کو رضاعت کے فعل کے ساتھ ملحق کردیاتویہ نشان رضاعت کے وجود کے ساتھ امومت اور اخوت کے اسم کا مقتضی ہوگیا یہ چیز قلیل مقدار میں بھی رضاعت کی بناپرتحریم کی مقتضی ہے کیونکہ اس صورت پر بھی رضاعت کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ قول باری (وامھاتکم اللاتی ارضعنکم) قائل کے اس قول کی طرح ہے۔ ، وامھاتکم اللاتی اعطینکم، وامھاتکم اللاتی کسونکم، (تمھاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں عطیے دیئے یالباس پہنایا) اس صورت میں ہمیں یہ ثابت کرنے کی ضرورت پیش آئے گی کہ وہ اس صفت کی بناپرماں قرارپائی ہے تاکہ اس دودھ پلایاوہ تمہاری مائیں ہیں، اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات اس وجہ سے غلط ہے کہ خودرضاعت کے فعل نے دودھ پلانے والی عورت کو مال ہونے کانشان دلوایا ہے اس لیے جب رضاعت کے وجود کی بناپر اس اسم کا استحقاق پیدا ہواتو اس کے ساتھ حکم کا تعلق بھی ہوگیا۔ شریعت اور لغت دونوں کے لحاظ سے رضاعت کا اسم قلیل وکثیر دونوں کو شامل ہے اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ دودھ پلانے والی عورت رضاعت کے وجود کے ساتھ ہی ماں کا درجہ حاصل کرلے۔ کیونکہ قول باری ہے (وامھاتکم اللاتی ارضعنکم۔ معترض نے قائل کے قول کی جو مثال دی ہے اس کی حیثیت یہ نہیں ہے کیونکہ لباس مہیا کرنے کے وجود کے ساتھ امومت کے اسم کا کوئی تعلق نہیں ہے جس طرح اس کا رضاعت کے ساتھ تعلق ہے۔ اس بناپر ہمیں اسم اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے فعل کے حصول کی ضرورت پیش آئی۔ اسی طرح قول باری (واخواتکم من الرضاعۃ) کی کیفیت ہے کہ اس کا ظاہر رضاعت کے وجود کے ساتھ ہی دودھ شریک بچی کے رضاعی بہن بن جانے کا متقاضی ہے ۔ کیونکہ اخوت کے اسم کا حصول رضاعت ہی کی بناپرہوا ہے کسی اور چیز کی بنیاد پر نہیں۔ یہی خطاب باری کا مفہوم اور قول باری کا مقتضیٰ ہے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے۔ جسے عبدالوہاب بن عطاء نے ابولربیع سے، اور انہوں نے عمروبن دینار سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عمر ؓ سے آکرکہنے لگا کہ عبداللہ بن زبیر ؓ یہ کہتے ہیں ایک یادومرتبہ دودھ پلانے میں کوئی حرج نہیں یعنی اس سے تحریم واقع نہیں ہوتی یہ سن کر حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : اللہ کا فیصلہ حضرت ابن الزبیر ؓ کے فیصلے سے بہتر ہے اللہ نے فرمادیا (واخواتکم من الرضاعۃ) اس طرح حضرت ابن عمر ؓ نے آیت کے ظاہر لفظ سے قلیل رضاعت کی بناپر تحریم کا مفہوم اخذ کرلیا۔ سلف نیز ان کے بعد آنے والے اہل علم کے مابین قلیل رضاعت کی بناپرتحریم کے بارے میں اختلاف رائے ہے حضرت عمر ؓ حضرت علی ؓ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حسن، سعیدبن المسیب، طاؤس، ابراہیم نخعی، زہری اور شعبی سے مروی ہے کہ دوسالوں کے اندرقلیل وکثیررضاعت سے تحریم واقع ہوجاتی ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف ، امام محمد، زفر، امام مالک، ثوری، اور زاعی اور لیث بن سعد کا یہی قول ہے۔ لیث بن سعدکاکہنا ہے کہ مسلمان اس پر مفق ہیں کہ قلیل وکثیر رضاعت پن گھوڑے میں تحریم کی موجب ہوجاتی ہے۔ جبکہ مقداراتنی ہو جس سے روزہ دارکاروزہ کھل جائے۔ حضرت ابن الزبیر ؓ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓ کا قول ہے کہ ایک یادودفعہ کی رضاعت تحریم کی موجب نہیں ہوتی۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جب تک متفرق اوقات میں پانچ مرتبہ رضاعت نہ ہو اس وقت تک تحریم واقع نہیں ہوتی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سورة بقرہ میں رضاعت کی مدت اور اس کے متعلق اہل علم کے مابین اختلاف رائے پر گفتگو کی ہے۔ قلیل مقدار میں رضاعت کی صورت میں ایجاب تحریم پر آیت کی دلالت کا ہم پہلے ذکرکر آئے ہیں۔ ہم یہاں یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تحریم کی موجب رضاعت کی تحدید کتاب اللہ یاسنت متواترہ کے علاوہ کسی اور ذریعے سے کرے کیونکہ یہی دونوں چیزیں صحیح علم کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ ہمارے نزدیک قلیل رضاعت کی بناپرتحریم کی موجب آیت کے حکم کی اخبارآحاد کے ذریعے تخصیص قابل قبول نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ ایک محکم آیت ہے۔ اس کے معنی میں کوئی خفاء نہیں اور اس سے لی گئی مراد بھی واضح ہے نیز اس کی تخصیص کے عدم ثبوت پر بھی اتفاق ہے۔ اس لیے جو آیت ان صفات کی حامل ہو اس کے حکم کی تخصیص خبرواحد یاقیاس کے ذریعے درست نہیں ہوتی۔ سنت کی جہت سے بھی اس پر وہ روایت دلالت کررہی ہے جس کے راوی مسروق ہیں۔ جنہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے یہ نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (انماالرضاعۃ منا لمجاعۃ، رضاعت وہ ہے جو بھوک کی بناپرہوتی ہے) اس ارشاد میں حضور ﷺ نے قلیل وکثیررضاعت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا اس لیے آپ کے اس ارشاد کو دونوں صورتوں پر محمول کیا جائے گا۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی حضور ﷺ سے تواتر کی صورت میں بکثرت روایت ہوئی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے (یحرم امن الرضاع مایحرم من النسب، رضاعت کی بناپروہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب کی بناپرہوتے ہیں۔ حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ نے حضور ﷺ سے اس کی روایت کی ہے۔ نیزاہل علم نے اسے قبول کرکے اس پر عمل کیا۔ جب حضور ﷺ نے رضاعت کے سبب وہ رشتے حرام قراردے دیئے جو نسب کے سبب حرام ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ اگر ایک جہت سے نسب کا ثبوت ہوجائے تو یہ موجب تحریم ہوجاتا ہے خواہ دوسری جہت سے اس کا ثبوت نہ بھی ہو۔ تواب یہ ضروری ہوگیا کہ رضاعت کا بھی یہی حکم ہو اور ایک دفعہ کی رضاعت تحریم کی موجب بن جائے اس لیے کہ حضور ﷺ نے ان کے ساتھ تحریم کے حکم کو متعلق کرتے ہوئے ان دونوں کو یکساں مقام پر رکھا ہے۔ امام شافعی نے پانچ دفعہ متفرق طورپررضاعت کو تحریم کا سبب قراردینے میں اس روایت سے استدلال کیا ہے جو حضرت عائشہ ؓ ، حضرت ابن الزبیر ؓ اور حضرت الفضل ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لاتحرم المصۃ ولاالمصتان، ایک یادودفعہ دودھ چوسنے سے تحریم نہیں ہوتی) نیزان کا حضرت عائشہ ؓ کے اس قول سے بھی استدلال ہے کہ قرآن مجید میں رضاعت کی بناپرتحریم کے سلسلے میں پہلے دس متعین مرتبہ دودھ پینے کا حکم نازل ہوا تھا پھر یہ منسوخ ہوکرپانچ متعین دفعہ کا حکم باقی رہ گیا اور حضور ﷺ کے انتقال کے وقت قرآن کی آیتوں میں اس کی تلاوت ہوتی تھی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ان روایات کو ظاہرقول باری (وامھاتکم اللاتی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ کے عموم میں رکاوٹ کا ذریعہ بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ ایسا ظاہر قرآن جس کا خصوص ثابت نہ ہواہو اور اس کے معانی واضح اور اس سے لی گئی مراد بھی واضح اور بین ہو، اخبارآحاد کے ذریعے اس کی تخصیص جائز نہیں ہے یہ تو ایک وجہ ہوئی جس کی بناپر خبرواحد کے ذریعے اس کے عموم میں رکاوٹ پیدا کرنے کا اقدام غلط ہوگیا۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے، ہمیں ابوالحسن کر فی نے روایت بیان کی ہے ، انہیں الحضرمی نے، انہیں عبداللہ بن سعید نے، انہیں ابوخالد نے حجاج سے انہوں نے حبیب بن ابی ثابت سے، انہوں نے طاؤس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ رضاعت کے متعلق گفتگو کے سلسلے میں (طاؤس) نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک یادومرتبہ کی رضاعت موجوب تحریم نہیں ہوتی۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ایک یادومرتبہ کی رضاعت کی بات پہلے تھی اب تو ایک دفعہ کی رضاعت بھی موجب تحریم ہے۔ محمد بن شجاع نے ایک روایت بیان کی ہے جسے انہیں اسحاق بن سلیمان نے حنظلہ سے اور انہوں نے طاوس سے نقل کیا کہ پہلے دس مرتبہ رضاعت کی شرط تھی پھر یہ کہہ دیا گیا کہ ایک مرتبہ کی رضاعت بھی تحریم کی موجب ہے۔ درج بالادونوں روایتوں سے یہ بات سامنے آئی کہ حضرت ابن عباس ؓ اور طاؤس نے رضاعت کی تعداد کے متعلق روایت کی تصدیق کی اور یہ بتایا کہ یہ تعداد اب ایک دفعہ کی رضاعت کی بناپرتحریم کے حکم کی وجہ سے منسوخ ہوچکی ہے۔ اس میں اس تاویل کی بھی گنجائش ہے کہ تحدید کی شرط بالغ کو دودھ پلانے کے سلسلے میں تھی۔ حضور ﷺ سے بالغ کو دودھ پلانے کی روایت بھی موجود ہے۔ اگرچہ فقہاء امصار کے نزدیک یہ حکم اب منسوخ ہوچکا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ رضاعت میں تحدید کا تعلق بالغ کو دودھ پلانے کے حکم سے ہو۔ پھرجب یہ حکم منسوخ ہوگیا توتحدید بھی ختم ہوگئی کیونکہ تحدید اس حکم میں شرط تھی۔ ایک اور پہلو سے غورکیاجائے تو امام شافعی پر تین دفعہرضاعت کی وجہ سے تحریم کا ایجاب لازم آتا ہے کیونکہ حضور ﷺ کے ارشاد (لاتحرم الرضعۃ ولاالرضعتان، کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ اس مخصوص صورت میں بیان کردہ تعداد سے زائد پر ایجاب تحریم کا حکم عائدہوجائے۔ رہ گئی حضرت عائشہ کی روایت تو اس کے انداز بیان سے اس کی صحت کا اعتقاد جائز نظر نہیں آتا اس لیے کہ ان کے قول کے مباطق رضاعت کی جو تعداد قرآن میں نازل ہوئی تھی وہ دس تھی پھر یہ منسوخ ہوکرپانچ رہ گئی اور جب حضور ﷺ کی وفات ہوئی تو اس تعداد کی قرآن کی آیتوں میں تلاوت ہوتی تھی۔ حالانکہ کوئی بھی مسلمان حضور ﷺ کی وفات کے بعد قرآن کی کسی آیت کے نسخ کے جواز کا قائل نہیں اگر قرآن میں پانچ کی تعدادوالی آیت موجود ہوتی اور حکم کا ثبوت ہوتاتو اس آیت کی بھی تلاوت کی جاتی۔ اب جبکہ اس کی تلاوت بھی موجود نہیں اور دوسری طرف حضور ﷺ کی وفات کے بعد کسی قرانی آیت کے نسخ کا جواز بھی نہیں تو اس روایت کے متعلق دو میں سے ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے۔ یاتویہ روایت اصل کے لحاظ سے موخول ہے جس کے حکم کا کوئی ثبوت نہیں ہے یا یہ کہ اگر اس کا حکم ثابت بھی تھا تو حضور ﷺ کی زندگی میں ہی یہ منسوخ ہوچکا تھا اور ایسے حکم پر عمل ساقط ہوجاتا ہے۔ اس میں یہ گنجائش بھی ہے کہ اس میں دراصل بالغ کے رضاعت کی تحدید کی گئی ہے۔ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات میں صرف حضرت عائشہ ؓ ہی بالغ کی رضاعت کی صورت میں ایجاب تحریم کی قائل تھیں۔ ہمارے ہاں نیزامام شافعی کے ہاں بھی بالغ کی رضاعت کے حکم نسخ ثابت ہوچکا ہے۔ اس لیے حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں مذکورتحدید کا حکم ساقط ہوگیا۔ اس کے باوجود بھی یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ خبرواحدہونے کی حیثیت سے اسے ظاہر قرآن کے عموم کی سدراہ نہیں بنایا جاسکتا جبکہ اس کے مفہوم میں عدم امکان اور احتمال کا پہلو بھی موجود ہے جس کی طرف ہم سابقہ سطور میں اشارہ کر آئے ہیں۔ تحدید کے اعتبار کے سقوط پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ رضاعت ہمیشہ کی تحریم کی موجب ہے اس لیے یہ اس ہمبستری کی مشابہ ہوگئی جو موطوء ہ کی ماں اور بیٹی کی تحریم کی موجب ہے نیز اس عقد کی بھی جو مثلا بیٹیوں کی بیویوں اور باپ کی منکوحات کی تحریم کی موجب ہے۔ جب تحریم کے حکم کے لزوم کے (رح) لحاظ سے اس ہمبستری اور عقد کی قلیل صورت اس کی کثیر صورت کی طرح ہے توا س سے یہ بات لازم ہوگئی کہ ضمناعت کی کثیر اور قلیل مقدار کی بناپرتحریم کا بھی یہی حکم ہو۔ لبن فحل کے حکم کے متعلق بھی اہل علم میں اختلاف رائے ہے لبن فحل کی یہ صورت ہے۔ ایک شخص کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے اور پھر عورت کے بطن سے اس کے ہاں بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ عورت کے دودھ بھی اترآتا ہے عورت اپنا یہ دودھ کسی اور بچے کو بھی پلادیتی ہے۔ جوحضرات لبن فحل کی تحریم کے قائل ہیں ان کے نزدیک اس شخص کی اولاد پر اس بچے کی تحریم کا حکم عائد کرتے ہیں خواہ اس کی یہ اولاد کسی اور بیوی سے کیوں نہ ہو اس کے برعکس جو حضرات لبن فحل کی تحریم کا اعتبار نہیں کرتے ان کے نزدیک اس شخص کی کسی بیوی سے پیدا ہونے والی اولاد پر یہ بچہ حرام نہیں ہوتا۔ حضرت ابن عباس ؓ پہلے مسلک کے قائل تھے۔ زہری نے عمروبن الشرید کے واسطے سے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ نقل کیا ہے کہ جب آپ سے ایک شخص کے متعلق مسئلہ پوچھا گیا جس کی دوبیویاں تھیں ایک نے ایک لڑکے کو دودھ پلایا تھا اور دوسری نے ایک لڑکی کو، آیا اس لڑکی کے ساتھ اس لڑکے کا نکاح ہوسکتا ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا تھا : نہیں ہوسکتا کیونکہ دونوں عورتوں کو جاگ تو ایک ہی مرد کا لگا ہے۔ قاسم سالم، عطاء اور طاؤس کا بھی یہی قول ہے۔ خفاف نے سعید سے اور انہوں نے ابن سیرین سے اس کے متعلق نقل کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے اسے ناپسند کیا ہے اور کچھ لوگوں کو اس میں کوئی حرج کی بات نظر نہیں آئی، تاہم ناپسند کرنے والے حضرات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ فقاہت کے مالک تھے۔ عبادبن منصورنے ذکرکیا ہے کہ میں نے قاسم بن محمد سے پوچھا کہ میرے والد کی بیوی نے ایک بچی کو میرے بھائی بہن کے ساتھ وہ دودھ پلایا تھا جو میرے والد کے واسطے سے اس کے پستانوں میں اترآیا تھا، آیا اس بچی سے میرانکاح حلال ہوگا ؟ انہوں نے جواب میں کہا : نہیں۔ تمھارباپ اس بچی کا بھی باپ ہے۔ میں نے یہی مسئلہ پھر طاؤس اور حسن سے بھی پوچھاتو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ مجاہد نے اس مسئلے کے متعلق فرمایا۔ اس مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے اس لیے اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں نے محمد بن سیرین سے جب یہی بات پوچھی تو انہوں نے بھی مجاہد کی طرح جواب دیا۔ میں نے جب یوسف بن ماھک سے یہ سوال کیا تو انہوں نے ابوقیس کی حدیث کا ذکر کیا۔ امام ابوحنیفہ، امام یوسف امام محمد، زفر، امام مالک، امام شافعی، سفیان ثوری، اور زعی اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ لبن فحل موجب تحریم ہے۔ سعیدبن المسیب، ابراہیم نخعی، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، عطاء ، بن یسار اور سلیمان بن یسارکاقول ہے کہ لبن فحل مردوں کی جانب سے کسی تحریم کا موجب نہیں ہوتا۔ حضرت رافع بن خد ؓ یج سے اسی قسم کا قول منقول ہے۔ رضاعی چچا سے پردہ نہیں پہلے مسلک کی صحت کی دلیل زہری اور ہشام بن عروہ کی وہ روایت ہے جو انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے نقل کی ہے کہ ابوقعیس کا بھائی افلح جو حضرت عائشہ ؓ کا رضاعی چچالگتا تھا، پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد حضرت عائشہ کے پاس آیا اور اندرآنے کی اجازت طلب کی ، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے اسے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ جب حضور ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ کو یہ بات بتائی۔ آپ نے سن کر فرمایا : وہ بیشک اندر آجائے آخروہ تمھاراچچا ہے۔ میں نے عرض کیا : مجھے تو عورت نے دودھ پلایا تھا، مردنے نہیں، آپ نے یہ سن کر فریاما : بھلی مانس، اسے اندرآجانے دو ، وہ تمھاراچچا ہے، ابوقعیس اس عورت کا شوہر تھا جس نے حضرت عائشہ ؓ کو دودھ پلایا تھا۔ عقلی طورپر بھی اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ چھاتی میں دودھ اترآنے کا سبب مرد اور عورت کا جنسی ملاپ ہے۔ اس لیے کہ حمل کے استقرار میں دونوں کی شرکت ہوتی ہے۔ تو جس طرح بچے کی پیدائش کے معاملے میں دونوں شریک ہوتے ہیں اسی طرح رضاعت میں بھی دونوں کو شریک قراردینا ضروری ہے اگرچہ اس سلسلے میں دونوں کا کردارمختلف ہوتا ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ امام مالک نے عبدالرحمن بن القاسم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے یہ روایت کی ہے کہ جن بچوں کو آپ کی بہنوں اور آپ کو بھتیجیوں نے دودھ پلایا تھا ان سے آپ پردہ نہیں کرتی تھیں البتہ ان لوگوں سے پردہ کرتی تھیں جو آپ کے بھائیوں کی جو پوں کادودھ چکے تھے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات لبن فحل کے متعلق واردروایت کے خلاف نہیں جاتی اس لیے کہ یہ حضرت عائشہ ؓ کی اپنی مرضی تھی کہ اپنے محارم میں سے جس سے چاہیں پردہ کرلیں اور جسے چاہیں اندرآنے کی اجازت دے دیں یعنی پردہ نہ کریں۔ عقلی طورپر بھی اس پر اس پہلو سے دلالت ہورہی ہے کہ بیٹی دادا پر حرام ہوتی ہے ۔ حالانکہ اس کے وجود میں دادا کے نطفے کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ داداتو اس کے باپ کے وجود کا سبب بنا تھا اور اس کے باپ کی پیدائش دادا کے نطفے سے ہوئی تھی۔ اسی طرح جب ایک شخص عورت کے دودھ اترنے کا سبب بن جائے تو اس کے ساتھ تحریم کے حکم کا متعلق ہوجانا ضروری ہوجاتا ہے۔ اگرچہ یہ دودھ مرد کے نہیں اترا تھا مرد تو صرف اس کا سبب بنا تھا۔ جس طرح ماں کی طرف سے تحریم کا حکم اس کے ساتھ لازم ہوجاتا ہے۔ رضاعت کے سلسلے میں قرآن کے اندرصرف رجاعی ماؤں اور بہنوں نے کامنصوص طریقے پر ذکرہوا ہے۔ تاہم حضور ﷺ سے بکثرت روایت یعنی نقل مستفیض کے ذریعے جو موجب علم ہے۔ یہ بات ثابت ہے کہ نسب کی بنیادپرجورشتے حرام ہوجاتے ہیں وہ رشتے رضاعت کی بنیاد پر بھی حرام ہوجاتے ہیں۔ اس حدیث پر عمل کے متعلق فقہاء کے درمیان اتفاق رائے بھی ہے۔ واللہ اعلم۔ بیویوں کی مائیں اور گودوں میں پرورش پانے والی لڑکیاں قول باری ہے (وامھات نساء کم وربائبکم اللاتی فی حجور کم من انساء کم اللاتی دخلتم بھن، اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمھاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہاراتعلق زن وشوہوچکاہو۔ ) امت میں اس بارے اختلاف نہیں ہے کہ ربائب (گودوں میں پرورش پانے والی لڑکیاں) کی مال سے عقد کی بناپرتحریم نہیں ہوتی جب تک کہ اس سے اگلامرحلہ یعنی تعلق زن وشومکمل نہ ہوجائے یا مرد کی طرف سے شہوت کے تحت لمس یا نظر کا عمل رونمانہ ہوجائے جو موجب تحریم ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ نص تنزیل یعنی قول باری (فان لم تکونوادخلتم بھن فلاجناح علیکم، اگر تمھارا ان کے ساتھ تعلق زن وشونہ ہواہو وا نہیں چھوڑکران کی لڑکیوں سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں) میں یہ بات مذکور ہے۔ بیویوں کی ماؤ کے متعلق اس مسئلے میں سلف درمیان اختلاف رائے ہے کہ آیایہ عقد نکاح کے ساتھ ہی حرام ہوجاتی ہیں یا نہیں ؟ حمادبن سلمہ نے قتادہ سے، انہوں نے خلاس سے یہ روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ نے اس شخص کے متعلق یہ فرمایا تھا جس نے اپنی بیوی کو تعلق زن وشوقائم ہونے سے پہلے ہی طلاق دے دی تھی کہ وہ مطلقہ کی ماں سے نکاح کرسکتا ہے اور اگر اس نے اس کی ماں سے نکاح کرکے دخول سے پہلے ہی اسے طلاق دے دی ہو تو وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے ان دونوں کا معاملہ یکساں ہے۔ لیکن فن روایت کے ماہرین کے نزدیک حضرت علی ؓ سے خلاس کی روایتیں ضعیف شمار ہوتی ہیں۔ حضرت جابربن عبداللہ ؓ سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ مجاد اورحضرت عبداللہ بن الزبیر ؓ کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے دوروایتیں ہیں۔ ایک روایت ابن جریج نے ابوبکربن حفص سے نقل کی ہے، انہوں نے عمروبن مسلم بن عویمر بن الاجدع سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ بیوی کی ماں صرف دخول یعنی ہمبستری کی صورت میں شوہرپرحرام ہوجاتی ہے۔ دوسری روایت عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کی ہے کہ نفس عقد کے ساتھ ہی ساس دامادپرحرام ہوجاتی ہے۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت ابن مسعو ؓ د، حضرت عمران بن صین ؓ ، مسروق، عطاء، حسن اور عکرمہ کا قول ہے کہ عقد کے ساتھ ہی تحریم ہوجاتی ہے خواہ تعلق زن وشوہویانہ ہو۔ ابواسامہ نے سفیان سے انہوں نے ابوفروہ سے انہوں نے ابوعمروشیبانی سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د سے روایت کی ہے۔ کہ حضرت عبداللہ ؓ نے ایک عورت کے متعلق جسے ایک شخص نے نکاح کے بعد ہمبستری سے قبل طلاق دے دی تھی یا عورت کی وفات ہوگئی تھی یہ فتوی دیا تھا کہ اگر شوہر اس کی ماں سے نکاح کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن جب حضرت ابن مسعو ؓ مدینہ منورہ واپس آگئے تو اپنے قول سے رجوع کرکے لوگوں کو اس سے رک جانے کا فتوی دیا اس وقت تک اس عورت کے بطن سے کئی بچے پیدا ہوچکے تھے۔ ابراہیم نے قاضی شریح سے یہ روایت کی ہے کہ حضرت ابن مسعو ؓ د بیویوں کی ماؤں سے نکاح کے مسئلے میں پہلے حضرت علی ؓ کے مسلک کے قائل تھے اور اسی کے مطابق فتوے دیتے تھے پھر حج کے دوران دیگر صحابہ سے ان کی ملاقائیں ہوئیں اور اس مسئلے پر تبادلہ خیال ہواصحابہ کرام نے اس نکاح پر اپنی ناپسندید گی کا اظہار کیا۔ جب حضرت ابن مسعو ؓ دواپس ہوئے تو اپ نے جن لوگون کو اس قسم کے نکاح کے جو ازکا فتوی دیا تھا انہیں اس روک دیا۔ یہ لوگ بنوفزاردہ کے مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان سے آپ نے یہ فرمایا کہ میں اصحاب رسول ﷺ سے اس مسئلے پر گفتگو کی تھی۔ ان سب نے اسے ناپسند کیا تھا۔ قفادہ نے سعید بن المیسب سے روایت کی ہے کہ حضرت زیدبن ثابت ؓ نے ایک شخص کے متعلق فرمایا تھا جس نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے طلاق دے کر اس کی ماں سے نکاح کا ارادہ ظاہر اور اگر اس کی بیوی مرگئی ہو تو وہ اس کی ماں سے نکاح نہیں کرسکتا۔ تاہم اصحاب حدیث سعیدبن المسیب سے قتادہ کی اس روایت کو ضعیف قراردیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سعید بن المسیب سے قتادہ کی اکثرروایتوں میں درمیان سے راوی غائب ہوتے ہیں نیز سعید سے قتادہ کی روایتیں ان کے اکثر ثقہ شاگردوں کی روایتوں کی مخالف ہوتی ہیں۔ عبدالرحمن بن مہدی کا قول ہے کہ مجھے سعیدبن المسیب سے امام مالک کی روایتیں ان سے قتادہ کی روایتوں کی بہ نسبت زیادہ پسند ہیں۔ یحییٰ بن سعید انصاری نے حضرت زیدبن ثابت ؓ سے قتادہ کی روایت کے برعکس روایت کی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یحییٰ کی روایت اگرچہ مرسل ہوتی ہے۔ لیکن سعید سے قتادہ کی روایت کے مقابلے میں زیادہ قوی ہوتی ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ درج بالاامورکاتعلق اصحاب حدیث کے طریق کار سے ہے ، فقہاء کے نزدیک روایات کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے سلسلے میں اس طریق کارکا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا۔ ہم نے یہاں ان امورکاذکر صرف اس مقصد کے تحت کیا ہے کہ اس کے ذریعے اصحاب حدیث کا طریق کار واضح ہوجائے۔ یہ مقصد ہرگز نہیں کہ یہ طریق کا رقابل اعتبار سمجھا گیا اور اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ حضرت زیدبن ثابت ؓ نے تحریم کے سلسلے میں طلاق اور موت کی صورتوں کے درمیان فرق کیا ہے۔ یہ شاید اس لیے کہ ہمبستری سے قبل طلاق کی صورت میں دخول یعنی ہمبستری سے متعلقہ احکام میں سے کوئی حکم بھی لازم نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس صورت مٰن مرد پر نصف مہرواجب ہوتا ہے اور عورت پر عدت واجب نہیں ہوتی لیکن جہاں تک موت کا تعلق ہے۔ وہ مہر کے استحقاق اور وجوب عد ت کے لحاظ سے چونکہ ہمبستری کے حکم میں ہوتی ہے اس لیے حضرت زید نے تحریم کے حکم کے اندر بھی اسے یہی حیثیت دے دی۔ بیویوں کی مائیں عقد نکاح کے ساتھ ہی حرام ہوجاتی ہیں اس کی دلیل یہ قول باری ہے۔ (وامھات نساء کم) اس میں ابہام اور عموم ہے جس طرح کہ یہ قول باری ہے۔ (وحلال ئل ابناء کم) یا (ولاتنکحوامانکح اباء کم من النساء۔ ان آیات میں جو عموم ہے کسی دلالت کے بغیر اس کی تخصیص جائز نہیں نہیں ہے۔ اور قول باری (وربائبکم اللاتی فی حجورکم من نساء کم اللاتی دخلتم بھن) میں جو حکم ہے وہ ربائب یعنی گودوں میں پرورش پانے والی لڑکیوں تک محدود ہے۔ بیویوں کی ماؤں سے اس حکم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ اول یہ کہ قول باری (وامھات نساء کم) اور قول باری (وربائبکم اللاتی فی حجورکم من نساء کم اللاتی دخلتم بھن) میں سے ہر ایک اس حکم کے ایجاب میں خود کفالت کی صفت کا حامل ہے جو اس میں مذکورہوا ہے اور ہر ایسا کلام جو کسی اور کلام کی تضمین اور اس پر محمول ہوئے بغیر اپنے مفہوم کو ادا کرنے میں خود کفیل ہوا سے دوسرے کلام کے ساتھ جوڑنے اور ملحق کرنے کی بجائے اس کے الفاظ کے مقتضیٰ پرچلاناواجب ہوتا ہے۔ اب جبکہ قول باری (وامھات نساء کم) ایک خود مکتفی فقرہ ہے جس کا عموم تعلق زن وشو کے جود اورعدم دونوں صورتوں میں بیویوں کی ماؤں کی تحریم کا مقتضی ہے۔ اوردوسری طرف قول باری (وربا ئبکم اللاتی فی حجورکم من نساء کم اللاتی دخلتم بھن) بھی دخول کی اس شرط کے ساتھ جو اس میں مذکور ہے اپنی جگہ قائم بالذات ہے تو ایسی صورت میں ہمارے لیے ایک فقرے کو دوسرے فقرے پر مبنی کرنا درست نہیں ہوگابل کہ یہ لازم ہوگا کہ مطلق کو اطلاق کی حالت میں رہنے دیاجائے اور مقید کو اس کی تقیید اور شرط کے بموجب لیا جائے۔ الایہ کہ کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے جس سے یہ معلوم کرلیاجائے کہ ایک فقرہ دوسرے فقرے پر مبنی ہے نیز اس کی شرط پر محمول ہورہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری (وربائبکم اللاتی فی حجورکم من نساء کم اللاتی دخلتم بھن فان لم تکونوادخلتم بھن فلاجناح علیکم) میں مذکورہ شرط استثناء کا مفہوم اداکررہی ہے، گویا یوں فرمایا گیا : اورتمھاری گودوں میں پرورش پانے والی لڑ کیا جو تمھاری بیویوں کے بطن سے پیداہوئی ہوں مگر وہ بیویاں جن سے تمھاراتعلق زن وشونہ ہواہو۔ استثناء کے اس مفہوم کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے بعض صورتوں کو خارج کردیاگیا ہے جو عموم میں داخل تھیں جب مذکورہ شرط استثناء کے معنوں میں ہے اور استثناء کا ایک اصول یہ ہے کہ وہ فقرے کے اس حصے کی طرف راجع ہوتا ہے جو اس سے متصل ہوتا ہے۔ الایہ کہ کسی دلالت کی بناپریہ ثابت ہوجائے کہ وہ گذشتہ کلام کی طرف راجع ہے۔ اس لیے اس کے حکم کو ربائب تک محدود رکھنا واجب ہے۔ اور اسے کسی دلالت کے بغیر گذشتہ فقرے کی طرف راجع کرنا درست نہیں ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ہمبستری کی شرط لفظ کے عموم کی تخصیص کا باعث ہے۔ ربائب کے سلسلے میں اس کا مؤثرہونا ایک تویقینی ام رہے لیکن بیویوں کی ماؤں کی طرف اس کاراجع ہونا ایک مشکوک ام رہے، اور شک کی بناء پر عموم کی تخصیص جائز نہیں ہوتی۔ اس لیے عموم کو اس کی اصل حالت پر برقراررکھتے ہوئے بیویوں کو ماؤں کی تحریم میں اس کا اعتبار کرنا ضروری ہے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ امھات النساء، میں النساء کے ساتھ ہمبستری کی شرط کو محذوف ماننا درست نہیں ہے اس لیے کہ امھات النساء کو (من نساء کم اللاتی دخلتم بھن) کے ساتھ الفاظ میں ظاہر کرنے کی صورت میں فقرے کا مفہوم درست نہیں رہا۔ فقرے کی یہ ساخت صحیح نہیں ہے، وامھات نساء کم من نساء کم اللاتی دخلتم بھن، کیونکہ ہماری عورتوں کی مائیں ہماری عورتوں میں سے نہیں ہوتیں البتہ ربائب ہماری عورتوں میں سے ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ بیٹی ماں سے ہوتی ہے، ماں بیٹی سے نہیں ہوتی۔ جب شرط کے ساتھ امھات النساء، کو الفاظ میں ظاہر کرنے کی بناپرمفہوم درست نہیں رہتا۔ تو اس کے ساتھ اس کا اضمار یعنی محذوف ماننا بھی درست نہیں ہوگا۔ اس وضاحت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری (من نساء کم اللاتی دخلتم بھن) دراصل ربائب کا وصف ہے بیویوں کی ماؤں کا نہیں ۔ اس کے علاوہ یہ وجہ بھی ہے کہ اگر ہم قول باری (من نساء کم اللاتی دخلتم بھن) کو، امھات النساء، کی صفت قراردیں اور فقرے کی ساخت یہ تسلیم کرلیں کہ ، وامھات نساء کم من نساء کم اللاتی دخلتم بھن، تو اس صورت میں ربائب اس حکم سے خارج ہوجائیں گیا ور شرط صرف بیویوں کی ماؤں کی حدتک موثر رہے گی۔ یہ بات سراسر نص قرانی کے خلاف ہے۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہم بستری کی شرط صرف ربائب کے حکم تک محدود ہے ہویوں کو ماؤں کی تحریم کے حکم ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں اسماعیل بن الفضل نے، انہیں قتیبہ بن سعید نے انہیں ابن لھیعہ نے عمروبن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا۔ (ایمارجل نکح امراۃ فدخل بھافلایحل لہ نکاح ابن تھا وان لم یدخل بھا فلینکح ابن تھا وایمارجل نکح امراۃ فدخل بھا اولم یدخل بھافلایحل لہ نکاح امھا جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کرلیا اور ہمبستری بھی کرلی تواب اس کی بیٹی سے اس کا نکاح حلال نہیں ہوگا۔ اگرہمبستری نہ کی ہو تو اس کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے اور جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کرلیا پھر ہمبستری کی یا نہ کی اب اس کی ماں کے ساتھ اس کا نکاح حلال ہوگا۔ ربیبہ کے حکم کے متعلق بھی سلف سے اختلاف رائے منقول ہے۔ ابن جریج نے ابراہیم بن عبیدبن رفاعہ سے انہوں نے مالک بن اوس سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر ربیبہ شوہر کی گود میں پرورش نہ پارہی ہوبل کہ کسی اور شہر میں ہو پھر شوہر نے اپنی بیوی یعنی ربیبہ کی ماں سے تعلق زن وشوہوجانے کے بعد علیحد گی اختیار کرلی ہو تو اس صورت میں اس ربیبہ سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ محدث عبدالرزاق نے اس روایت کے ایک راوی ابراہیم کا نسب بیان کرتے ہوئے ایک دوسری روایت میں اسے ابراہیم بن عبید بتایا ہے یہ ایک مجہول شخص ہے اور راوی کی روایت کی بناپر کوئی حکم ثابت نہیں ہوسکتا۔ اہل علم نے اسے رد کردیا ہے اور اسے سند قبولیت عطاء نہیں کی ہے۔ قتادہ نے خلاص سے روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ کا قول ہے : ربیبہ اور ماں دونوں کا معاملہ یکساں حکم رکھتا ہے۔ یہ بات مذکورہ بالاروایت کے خلاف ہے کیونکہ بیٹی کے ساتھ ہمبستری کے بعد ماں لامحالہ حرام ہوجاتی ہے اور حضرت علی ؓ نے ربیبہ کو ماں کی طرح قراردیا ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ماں کے ساتھ ہمبستری کے بعد بیٹی کی تحریم ہوجائے گی خواہ یہ بیٹی اپنی ماں کے شوہر کی گود میں پرورشی پارہی ہویا نہیں۔ ابراہیم کی مذکورہ بالاروایت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے اس مسئلے میں قول باری (وربا ئبکم اللاتی فی حجورکم) سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر ربیبہ گود میں پرورش نہ پارہی ہو تو حرام نہیں ہوگی۔ اس استدلال کی حکایت ہی اس روایت کے ضعف اور اس کے کھوکھلے پن پر دلالت کرتی ہے کیونکہ حضرت علی ؓ سے ایسے استدلال کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں (وربائبکم) کے الفاظ سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ماں کے شوہرکا اسے اپنی پرورش میں رکھنا تحریم میں شرط نہیں ہے۔ اور یہ کہ اگر وہ اس کی پرورش نہیں کرے گا تو وہ اس پر حرام نہیں ہوگی بیوی کی بیٹی کو ربیبہ کا نام اس لیے دیا گیا کہ اکثر اوقات اور عام حالات میں شوہرہی اس کی پرورش کرتا ہے۔ پھر یہ بھی معلوم ہے کہ اسم کی اس معنی پر دلالت تحریم میں شوہر کی پرورش کو شرط قرار دینے کی موجب نہیں اسی طرح (فی حجورکم) اکثراوقات اور عام حالات کے تحت شوہر کی گود میں پرورش پانے کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے اور یہ صفت تحریم کے لیے شرط نہیں ہے۔ جس طرح شوہر کی پرورش اس حکم کے لیے شرط نہیں ہے۔ یہ بات حضور ﷺ کے اس قول کی طرح ہے کہ پچیس اونٹوں میں ایک بنت مخاض اور تینتیس میں ایک بنت لبون زکواۃ کے طورپرنکالی جائے گی آپ کے اس قول میں ماں یعنی اونٹنی کا دردزہ میں مبتلاہونایادودھ کا تھنوں میں موجودہونا، زکواۃ میں نکالی جانے والی بنت مخاص یابنت لبون کے لیے شرط نہیں ہے۔ آپ نے اس لیے یہ فرمایا کہ اکثراوقات اور عام حالات میں جب اونٹنی کی مادہ بچی دوسرے سال میں داخل ہوتی ہے تو اس کی ماں بچہ دینے کے قریب ہوتی ہے اور جب وہ تیسرے سال میں داخل ہوتی ہے۔ تو اس وقت اس کی ماں دودھ دے رہی ہوتی ہے۔ اس طرح آپ کا یہ قول عام حالات کے تحت ہے، ٹھیک اسی طرح قول باری (فی حجورکم) کا بھی یہی مفہوم ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ان رشتوں کی تحریم کے مسئلے میں اہل علم کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے جن کا پہلے ذکرہوچکا ہے اور جو ملکیت میں آنے کی بعد ملکیت حاصل کرنے والے رشتہ دارپراز خودآزاد نہیں ہوجاتے نیز یہ کہ رضاعی ماں اور رضاعی بہن ملک یمین کی بناپر اسی طرح حرام ہیں جس طرح نکاح کی بناپر۔ اسی طرح بیوی کی ماں اور بیوی کی بیٹی بھی حرام ہوجاتی ہیں بشرطیکہ ہمبستری ہوچکی ہو۔ ان دونوں میں سے ہر ایک ہمیشہ کے لیے اس وقت حرام ہوجاتی ہے جب دوسری کے ساتھ ہمبستری ہوجائے۔ اہل علم کے درمیان ملک یمین کے تحت ماں اور بیٹی کو اکٹھا کرنے کے عدم جو ازپر کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت عائشہ سے یہی منقول ہے۔ نیز یہ بھی ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ ملک یمین کے تحت ہمبستری سے وہ تمام رشتے ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتے ہیں۔ جو نکاح کے تحت ہمبستری سے ہوتے ہیں۔ قول باری ہے (وحلال ئل ابناء کم الذین من اصلابکم، اور ان بیٹوں کی بیویاں جو تمھارے صلب سے ہوں۔ ) عطاء بن ابی رباح کا قول ہے کہ یہ آیت حضور ﷺ کے متعلق اس وقت نازل ہوئی جب آپ نے زید ؓ کی بیوی سے جنہیں طلاق ہوگئی نکاح کرلیا۔ نیز یہ آیتیں بھی نازل ہوئیں (وماجعل ادعیاکم ابناء کم ، اللہ تعالیٰ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارے بیٹے قرار نہیں دیا) اور (ماکا محمد ابااحدمن رجالکم، محمد (ﷺ ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں) ۔ حضرت زید ؓ حضور ﷺ کے منہ بولے بیٹے تھے اور انہیں زید ؓ بن محمد ( ﷺ کے نام سے پکاراجاتا تھا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ م، حلیلۃ الابن ، بیٹے کی بیوی کو کہتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق اسے حلیلہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک بستر پر اس کے ساتھ شب باشی حلال ہوتی ہے ایک اور قول کے مطابق وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ عقد نکاح کی بناپرہمستری حلال ہوتی ہے اس کے برعکس لونڈی حلیلہ نہیں کہلاتی اگرچہ مالک یمین کی بناپر اس کی شرمگاہ اس کے لیے حلال قرارپاتی ہے۔ ان دونوں میں ایک اور فرق ہے وہ یہ کہ لونڈی اس وقت تک باپ کے لیے حرام نہیں ہوتی جب تک بیٹے نے اس کے ساتھ ہمبستری نہ کی ہو جب کہ حلیلہ کے ساتھ عقدنکاح ہوتے ہی وہ اس کے باپ پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حلیلہ کا اسم صرف بیوی کے ساتھ مختص ہے۔ ملک یمین کے ساتھ نہیں ۔ اب جبکہ آیت میں تحریم کے حکم کو نام کے ساتھ ملحق کردیا گیا اور ہمبستری کا ذکر نہیں کیا گیا تویہ اس بات کا مقتضی ہوگیا کہ باپ کے لیے بیٹوں کی بیویاں عقدنکاح کے ساتھ ہی حرام ہوجاتی ہیں۔ اس تحریم کے لیے ہمبستری کی کوئی شرط نہیں ہے۔ اگر ہم ہمبستری کی بھی شرط ہو تو اس سے نص پر اجافہ لازم آئے گاجونسخ کا موجب بن جائے گا۔ کیونکہ یہ اضافہ اس حکم کو منسوخ کردے گا جس کی آیت میں ممانعت کی گئی ہے۔ اس کے متعلق مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (الذین من اصلابکم) سب کے نزدیک پوتے کی بیوی کی داداپرتحریم کو بھی شامل ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پوتے پر یہ اطلاق ہوسکتا ہے کہ وہ دادا کے صلب سے ہے اس لیے کہ سب کے نزدیک آیت کا اطلاق اس بات کا مقتضی ہے۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ پوتا ولادت کی بناپردادا کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ آیت میں بیٹے کی بیوی کی تحریم کے حکم میں بیٹے کے صلبی ہونے کی جو تخصیص کی گئی ہے اس سے یہ آیت اس قول باری (فلماقضی زید منھا وطرا زوجنکھا لکیلا یکون علی المؤمنین حرج فی ازواج ادعیاء ھم اذاقضوا منھن وطرا۔ جب زید کا اس سے جی بھرگیا تو ہم نے اس سے تمھارانکاح کرادیا۔ تاکہ اہل ایمان پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کے سلسلے میں کوئی تنگی نہ ہو جب ان سے ان کاجی بھرجائے) کے ہم معنی ہوگئی کیونکہ یہ دوسری آیت متبنیٰ کی بیوی سے نکاح کی اباحت کو متضمن ہے۔ قول باری (فی ازواج ادعیاء ھم) اس پر دلالت کرتا ہے کہ، حلیلۃ الابن، بیٹے کی بیوی کو کہتے ہیں۔ کیونکہ اس مقام پر ان بیویوں کو ازواج کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور پہلی آیت میں حلائل کے نام سے ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ قول باری ہے (وان تجمعوابین الاختین الاماقدسلف) اور یہ کہ تم ایک نکاح میں دو بہنیں جمع کردومگر جو پہلے ہوچکاسوہوچکا) ۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ آیت دو بہنوں کو جمع کرنے کی تمام صورتوں کی تحریم کی مقتضی ہے کیونکہ آیت کے الفاظ میں عموم ہے۔ جمع بین الاختین کی کوئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ دو بہنوں سے ایک ساتھ عقدنکاح کرلے اس صورت میں کسی کے ساتھ نکاح درست نہیں ہوگا اس لیے کہ اس نے دونوں کو جمع کردیا اور عقدنکاح کے لیے ان دونوں میں سے کوئی بھی دوسری سے بڑھ کر نہیں ہے اور ان دونوں کے نکاح کو درست قراردیناجائز نہیں ہوگاجب کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کواکٹھا کردینے کے فعل کو حرام قراردیا ہے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو پسند کرلینے کا شوہر کو اختیاردینا بھی جائز نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ نکاح کا انعقادہی فاسد بنیاد پر ہوا تھا اور اس کی وہی حیثیت تھی جو عدت نکاح کی یاشوہر والی عورت سے نکاح کی ہوتی ہے ۔ اس لیے یہ نکاح کبھی بھی درست نہیں ہوسکتا۔ جمع بین الاختین کی ایک صورت یہ ہے کہ پہلے ایک بہن سے نکاح کرلے اور پھر دوسری بہن کو عقدنکاح میں لے آئے۔ اس میں دوسری کے ساتھ نکاح درست نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اس نے یہ قدم اٹھاکرجمع بین الاختین کی صورت پیداکردی۔ اور دوسری سے نکاح ایک ممنوع شکل میں وقوع پذیرہواجب کہ پہلی سے نکاح مباح شکل میں عمل میں آیا۔ اس لیے شوہر اور دوسری بہن کے درمیان علیحد گی کردی جائے گی۔ جمع کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ملک یمین کے تحت ہمبستری میں دونوں کو اکٹھاکردے کہ پہلی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے بعد اسے اپنی ملکیت سے نکالے بغیر دوسری کے ساتھ ہمبستری کرلے۔ یہ بھی جمع کی ایک قسم ہے۔ اس مسئلے میں سلف کے درمیان پہلے اختلاف رائے تھا جو بعد میں ختم ہوگیا اور ملک یمین کے تحت دو بہنوں کو اکٹھا کرنے کی تحریم پر سب کا اجماع ہوگیا۔ حضرت عثمان ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے اس کی اباحت مروی ہے۔ ان دونوں کا قول ہے کہ ایک آیت نے اسے مباح قراردیا ہے اور دوسری آیت نے اس کی تحریم کی ہے۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت ابن مسعو ؓ د، حضرت زبیر ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت عمار ؓ اور حضرت زیدبن ثابت ؓ کا قول ہے کہ ملک یمین کے تحت دو بہنوں کو جمع کردینا جائز نہیں ہے۔ شعبی کا قول ہے کہ حضرت علی ؓ سے اس کے متعلق جب پوچھاگیا تو آپ نے فرمایا کہ ایک آیت نے اسے حلال قراردیا ہے اور دوسری آیت نے اسے حرام قراردیا ہے۔ جب ایک آیت سے حلت اور دوسری سے حرمت ثابت ہورہی ہوتوحرام اولیٰ ہوگا۔ عبدالرحمن المقری نے کہا ہے کہ ہمیں موسیٰ بن ایوب الغافتی نے یہ روایت بیان کی ہے اور انہیں ان کے چچا ایاس بن عامرنے کی میں نے حضرت علی ؓ سے ملک یمین کے تحت دو بہنوں کو جمع کردینے کے متعلق دریافت کیا نیز یہ کہ ایک سے ہمبستری ہوچکی ہے۔ آیاوہ دوسری سے ہمبستری کرسکتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا، جس کے ساتھ ہمبستری کی ہے اسے آزاد کردے پھر دوسری کے ساتھ ہمبستری کرلے، اور فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آزادعورتوں کے سلسلے میں جو چیزحرام کردی ہے۔ لونڈیوں کے سلسلے میں بھی اسے حرام قراردیا ہے۔ صرف چارشادیوں کا حکم اس سے مستثنیٰ ہے۔ حضرت عما ؓ رسے بھی اس قسم کی روایت ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ملک یمین کے تحت دو بہنوں کو جمع کرنے کی حلت سے اس قول باری (والمحصنات من النساء الا ماملکت ایمانکم، اور جو عورتیں کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو جنگ میں تمہارے ہاتھ آئیں) کی طرف اشارہ ہے۔ اور حرمت کی آیت سے یہ قول باری (وان تجمعو ابین الاختین) مراد ہے۔ حضرت عثمان ؓ سے اس کی اباحت مروی ہے، آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے تحریم اور تحلیل دونوں کا ذکر کردیا اور پھر فرمایا : نہ میں اس کا حکم دیتاہوں اور نہ ہی اس سے روکتا ہوں۔ آپ کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ اس مسئلے میں غوروفکرکے مرحلے ہی میں رہے اور تحریم وتحلیل کے متعلق کسی قطعی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ اس لیے یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ پہلے آپ اس کی اباحت کے قائل تھے پھر تو قف کیا اور تحریم کے متعلق آپ کی رائے قطعی ہوگئی۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ کا مسلک یہ تھا کہ جب اباحت اور ممانعت دونوں پائی جائیں اور ان میں سبب کی یکسانیت ہو تو ممانعت کا حکم اولی ہوگا۔ اس لیے حضور ﷺ سے منقول روایات میں ان دونوں کے حکم کا بھی اسی طرح ہوناضروری ہے۔ ہمارے اصحاب کا مسلک بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان حضرات کا قول بھی یہی ہے۔ اسے ہم نے اصول فقہ میں بیان کردیا ہے۔ ایا س بن عامرنے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ آپ کا قول لوگ نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک آیت نے ان دونوں کو حلال کردیا اور دوسری آیت نے انہیں حرام کردیا ہے۔ حضرت علی ؓ نے جواب میں فرمایا کہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں، آپ کے اس قول میں یہ احتمال ہے کہ آپ کی مراد دونوں آیتوں کے مقتضیٰ میں یکساں نیت کی نفی کرنا ہے۔ نیزان لوگوں کے مسلک کا ابطال مقصود ہے جو اس میں توقف کے قائل ہیں۔ جیسا کہ حضرت عثمان ؓ سے مروی ہے ۔ کیونکہ شعبی کی روایت کے مطابق حضرت علی ؓ نے فرمایا تھا کہ ایک آیت نے اسے حرام قراردیا ہے اور دوسری نے حلال اور تحریم اولیٰ ہے اب تحلیل وتحریم کی ان آیتوں سے آپ کا انکار اس وجہ سے ہے کہ یہ دونوں آیتیں اپنے اپنے مقتضی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں ۔ اور تحریم تحلیل کے مقابلہ میں اولی ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ مطلقایہ کہنا کہ ایک آیت اس کی تحلیل کرتی ہے اور دوسری تحریم ایک ناپسند یدہ بات ہے کیونکہ اس قول کا مقتضیٰ یہ ہوگا کہ ایک چیز بیک وقت مباح بھی ہو اور ممنوع بھی۔ اس لیے یہ کہنے کی گنچائش موجود ہے کہ شاید حضرت علی ؓ نے اس وجہ کی بناپرعلی الاطلاق یہ کہنا پسند نہ کیا ہو کہ ایک آیت تحلیل کی مقتضی ہے اور دوسری آیت تحریم کی۔ البتہ جب بات علی الاطلاق نہ کی جائے بلکہ اسے کسی ایک وجہ کی قطعیت کے ساتھ مقید کرکے بیان کیا جائے تو یہ صورت درست ہوگی جیسا کہ آپ سے دوسری ایک روایت میں منقول ہے۔ اگر دوآیتیں ایجاب حکم کے لحاظ سے یکساں ہوں تو تحریم اولیٰ ہوتی ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ایک شخص ممنوع کام کرنے پر سزاکا مستحق ہوجاتا ہے جبکہ مباح کے ترک سے کسی سزاکاسزاوار نہیں ہوتا اب احتیاط اسی میں ہے کہ جو کام کرکے سزا سے بچنے کا امکان نہ ہو اس کام سے پرہیز کیا جائے۔ عقل کی عدالت کا یہی فیصلہ ہے۔ اس میں ایک اور پہلو بھی ہے۔ دونوں آیتیں تحلیل وتحریم کی ایجاب میں یکساں نہیں ہیں اب ایک کے ذریعے دوسری پر اعتراض کرنا جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک آیت دوسری آیت سے مختلف سبب کے تحت نازل ہوئی ہے کیونکہ قول باری (وان تجمعوابین الاختین) تحریم کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ جس طرح کہ قول باری (وحلال ئل ابناء کم) اور قول باری (وامھات نساء کم) اور باقی ماندہ تمام محرمات کے بیان پر مشتمل آیتیں تحریم کے سلسلے میں نازل ہوئیں لیکن (والمحصنات من النساء الا ماملکت ایمانکم) کا نزول اس گرفتار شدہ عورت کی اباحت کے سلسلے میں ہوا۔ جس کا شوہردارلحرب میں موجود ہوتا ہے ۔ اس آیت نے یہ بتادیا کہ اس گرفتارشدہ عورت کی اپنے شوہر سے علیحد گی ہوگئی اور میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کے ذریعے بچاؤ کا جوبندھن تھا وہ ٹوٹ چکا۔ اس لیے اس آیت پر اسی صورت کے بموجب عمل ہوگا جس میں اس کا نزول ہواتھا یعنی گرفتار شدہ عورت اور اس کے شوہر کے درمیان علیحدگی ہوجائے گی اور یہ اپنے مالک کے لیے مباح ہوجائے گی اس لیے اس آیت کے ذریعے جمع بین الاختین کی تحریم والی آیت پر اعتراض کرنا درست نہ ہوگا کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک آیت کا جو سبب نزول ہے وہ دوسری آیت کے سبب نزول سے مختلف ہے اس لیے ہر ایک آیت پر اس کے نزول کے سبب کے دائرے میں عمل ہوگا۔ اس پر یہ ات بھی دلالت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قول باری (والمحصنات من النساء الا ماملکت ایمانکم) بیٹوں کی بیویوں ، بیویوں کی ماؤں اور ان تمام عورتوں کے حکم میں آڑے نہیں آیاجن کی تحریم کا ذکر آیت میں ہوا ہے نیز اس پر بھی اتفاق ہے کہ ملک یمین کے تحت بیٹے کی بیوی اور بیوی کی ماں سے ہمبستری جائز نہیں ہے۔ قول باری (الاماملکت ایمانکم) ان کی تخصیص کا موجب نہیں بناکیون کہ اس کا نزول ایسے سبب کے تحت ہوا تھا جو دوسری آیت کے نزول کے سبب سے مختلف تھا اس لیے جمع بین لاختین کی تحریم کے حکم میں بھی اس آیت کو آڑے نہیں آنا چاہیے۔ حضرت علی ؓ اور ان کے ہم خیال صحابہ کرام کی طرف سے جمع بین الاختین کی تحریم کے حکم میں بھی اس آیت کو آڑے نہ آنے دینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دوآیتوں کا حکم جب دواسباب کے تحت نازل ہواہو اور ایک آیت تحلیل کی موجب ہو اوردوسری تحریم کی تو ایسی صورت میں ہر آیت کے حکم کو اس کے سبب نزول تک محدودرکھا جائے گا اور اس کے حکم کو دوسری آیت کے حکم کے آڑے آنے نہیں دیاجائے گا۔ یہی طرز عمل ایسی دوردایتوں کے متعلق بھی اختیار کرنا چاہیے جو درج بالا کیفیت کے اندر حضور ﷺ سے منقول ہوئی ہوں۔ ہم نے اصول فقہ میں اس بات کی پوری وضاحت کردی ہے۔ اس پر ایک اور پہلو سے غورکیجیئے، ہمیں اس بات میں مسلمانوں کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں کہ دو بہنوں کو اس طرح جمع کرنے کی بھی ممانعت ہے کہ ایک عقدنکاح کے تحت آئی ہو اور دوسری ملک یمین کے تحت، مثلاایک شخص کے عقد میں کوئی عورت ہو اور وہ اپنی سالی کو لونڈی ہونے کی بناپرخرید لائے تواب ان دونوں سے ہمبستری جائز نہیں ہوگی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جمع بین الاختین کی تحریم کا حکم نکاح کی طرح ملک یمین کے تحت جمع کو بھی شامل ہے اور قول باری (وان تجمعوابین الاختین) کا عموم جمع کی تمام صورتوں کی تحریم کا متقاضی ہے۔ نیز یہ مطلقہ بیوی کی عدت میں اس کی بہن سے نکاح کی تحریم کا بھی موجب ہے، اس لیے یہ اس لحاظ سے جمع بین الاختین کی صورت ہے کیونکہ اس شکل میں دونوں بہنوں کی اولاد کو باپ سے اپنا سلسلہ نسب قائم کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ اور شوہر پر دونوں بہنوں کانان ونفقہ اور رہائش نکاح کی طرح واجب ہوجاتی ہے یہ تمام باتیں جمع کی صورتیں ہیں۔ اس لیے اسے ممنوع قراردینا اور اس کی نفی کرنا واجب ہے کیونکہ اس نے ان دونوں کو بیک وقت اپنے عقد میں رکھ کر قول باری میں واردتحریم کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگریہ کہا جائے کہ قول باری (وان تجمعو ابین الاختین) نکاح تک محدود ہے۔ اس میں اس کے علاوہ اور کوئی صورت داخل نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ ملک یمین کے تحت دو بہنوں کو جمع کرنے کی تحریم پر فقہاء امصار کا اتفاق ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ حالانکہ ملک یمین نکاح کی صورت نہیں ہوتی اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ جمع بین الاختین کی تحریم کا حکم صرف نکاح تک محدود نہیں ہے۔ نیز جمع بین الاختین کی دوسری تمام صورتوں کو چھوڑکرتحریم کے حکم کو صرف نکاح تک محدود کرنا کسی دلالت کے بغیر حکم میں تخصیص کے مترادف ہے جس کی اجازت کسی کو بھی حاصل نہیں ہے تاہم اس مسئلے میں سلف اور فقہاء امصار کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت زیدثابت، عبید ہ سلمانی ، عطاء، محمد بن سیرین، مجاہدنیزدوسرے تابعین کا قول ہے کہ مطلقہ کی عدت کے اندراس کی بہن سے نکاح نہیں کرسکتا اسی طرح چوتھی بیوی کی عدت کے دوران پانچویں عورت سے عقد نہیں کرسکتا۔ ان میں بعض حضرات نے عدت کو مطلق رکھا ہے یعنی یہ عدت خواہ کسی قسم کی طلاق کی وجہ سے لازم ہوئی ہو۔ یہی امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر، ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے، عروہ بن الزبیر، قاسم بن محمد اور خلاس سے مروی ہے کہ اگر عورت طلاق بائن کی وجہ سے عدت گزاررہی ہو تو اس کی بہن سے نکاھ کرسکتا ہے۔ امام مالک، اوزاعی، لیث بن سعد اور امام شافعی کا یہی قول ہے سعید بن المسیب، حسن اور عطاء سے اس مسئلے میں دوروایتیں منقول ہیں ایک یہ کہ نکاح کرسکتا ہے اور دوسری یہ کہ نکاح نہیں کرسکتا۔ قتادہ کا قول ہے کہ بہن کی عدت کے اندردوسری بہن سے نکاح کرنے کے جواز کے قول سے حسن نے رجوع کرلیا تھا ہم نے تحریم جمع بین الاختین پر آیت کی جس دلالت اور عموم کا ذکرگذشتہ سطور میں کیا ہے وہ ایک بہن کی عدت کے اختتام تک دوسری بہن سے نکاح کی تحریم کے ایجاب کے حق میں جاتا ہے۔ عقلی طورپر بھی یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ملک یمین کے تحت آنے والی دو بہنوں سے ہمبستری کی تحریم پر سب کا اتفاق ہے۔ اس میں قابل غوربات یہ ہے کہ ہم بستری کی اباحت نکاح سے تعلق رکھنے والے احکام میں سے ایک حکم ہے۔ خواہ نکاح یاعقدنہ بھی ہواہو۔ اس بناپرایسی دو بہنوں کو جمع کرنے کی تحریم کے حکم کا بھی نکاح کے احکام میں شمارہونا واجب ہے۔ جب استحقاق نسب ، نان ونفقہ اور رہائش کا وجوب بھی نکاح کے احکام میں شمار ہوتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ اسے نکاح کے تحت ایسی دو بہنوں کو جمع کرنے سے روک دیاجائے۔ اگریہ کہاجائے کہ ایک بہن کی عدت میں دوسری بہن سے نکاح کرلینے کی صورت میں وہ جمع بین الاختین کا مرتکب کیسے قرارپائے گا جب کہ طلاق کی وجہ سے ایک بہن سے زوجیت کا تعلق ختم ہوکر وہ اس کے لیے اجنبی عورت بن چکی ہوتی ہے۔ اگر تین طلاقوں کی صورت میں عدت کے دوران وہ اس سے ہمبستری کرلیتا ہے تو اس پر حدزنا واجب ہوجاتی ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ مطلقہ اس کے لیے اجنبی عورت بن جاتی ہے۔ اس لیے اسے اس کی بہن سے نکاح کرلینے سے روکا نہیں جاسکتا ۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ حد کے وجوب میں دونوں یکساں ہوتے ہیں۔ اس ہمبستری کی بناپرجس طرح مرد پر حدواجب ہوگی۔ اسی طرح عورت پر بھی واجب ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود عورت کے لیے اس حالت عدت میں نکاح کرلینا جائز نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ درست ہوگا کہ پہلے نکاح کے حقوق کی موجودگی میں کوئی اور شوہر کرلے۔ ہمبستری کے عمل میں مرد کا ساتھ دینے اور ضامند ہوجانے کی بناپروجوب حد کسی اور مرد سے اس کے نکاح کی اباحت کا موجب نہیں بن سکے گا بل کہ دوسراشوہر کرلینے کی ممانعت میں اس کی حیثیت اس عورت جیسی ہوگی اس کے شوہر کے حبالہ عقد میں ہے ٹھیک اسی طرح شوہر کے لیے بھی اس حالت میں اس کی بہن کو اپنے حبالہ عقد میں لے آنادرست نہیں ہوگا جبکہ نکاح کے قوق ابھی باقی ہیں اگرچہ اس حالت میں اس کے ساتھ ہمبستری حد کی موجوب بن جائے گی۔ ایک دلیل اور بھی ہے وہ یہ کہ جب بیوی کی بہن سے جمع بین الاختین کی صورت میں نکاح کی تحریم ہے یعنی ایک عورت کا بیک وقت دوشوہروں کے عقد رہن احرام ہے۔ پھرہم نے یہ بھی دیکھا کہ عدت جمع بین الاختین کی ان صورتوں کے لیے مانع بن جاتی ہے تو ان امور کی روشنی میں یہ بات بھی واجب ہوجاتی ہے جن کے لیے خود نکاح مانع ہوتا ہے کہ شوہر بھی بیوی کی عدت کے اندراس کی بہن کے ساتھ نکاح سے اسی طرح باز رہے جس طرح نکاح باقی رہنے کی صورت میں اس سے باز رہتا ہے۔ کیونکہ عدت بھی جمع بین الاختین کی ان تمام صورتوں کے لیے اسی طرح مانع ہے جس طرح خود نکاح مانع ہوتا ہے۔ اور جس طرح عدت کی مدت کے اختتام سے پہلے مطلقہ کو کسی اور شخص سے نکاح کرنے کی ممانعت میں عدت کی وہی حیثیت ہے جو نکاح کی ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ مطلقہ کی عدت کے اختتام تک شوہر کو اس کی بہن کے ساتھ نکاح سے روک کر آپ نے ایک طرح شوہر کو عدت گذار نے پر لگادیاتو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نکاح کی تحریم کا قتصارعدت پر نہیں ہوتا کہ اگر ہم مطلقہ بیوی کی عدت کے اختتام تک شوہر کو اس کی بہن کے ساتھ نکاح سے روک دیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے اسے عدت میں بٹھا دیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ طلاق رجعی کی بناپر عدت گزارنے والی بیوی کی بہن سے شوہر کو نکاح کی ممانعت ہے اور یہ بات شوہر کو عدت گزارنے پر لگانے کی موجب نہیں ہے اور اسی طرح طلاق سے قبل میاں بیوی میں سے ہر ایک کو اس بات کی ممانعت ہے کہ شوہربیوی کی بہن سے عقد کرلے اور بیوی کوئی دوسراشوہر کرلے حالانکہ ان میں سے کوئی بھی عدت میں نہیں ہوتا۔ قول باری ہے (الاماقد سلف) البتہ جو کچھ پہلے ہوچکاسوہوچکا) ابوبکرجصا ص کہتے ہیں کہ ہم نے آیت کے اس ٹکڑے کا مفہوم قول باری (ولاتنکحوامانکح اباء کم من النساء الاماقد سلف) کی تفسیر کے دوران بیان کردیا ہے۔ نیزہم نے اس مقام پر اس کی تاویل کے متعلق مختلف اقوال واحتمالات کا بھی تذکرہ کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جمع بین الاختین کی تحریم کا حکم بیان کرتے ہوئے پھر اس فقرے کا اعادہ فرمایا۔ اس مقام پر بھی اس کے معانی میں وہی احتمالات ہیں جو پہلے مقام میں تھے۔ تاہم اس میں ایک اور معنی کا احتمال موجود ہے جو وہاں نہیں تھا وہ یہ کہ دو بہنوں کے ساتھ ہونے والے سابق نکاح فسخ نہیں ہوں گے اور شوہر کو ان میں سے کسی ایک کے اتخاب کا حق ہوگا۔ اس پر ابودھب الحیبشانی کی روایت دلالت کرتی ہے جو انہوں نے ضحاک بن فیروزدیلمی سے اور انہوں نے اپنے والد سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جب میں مسلمان ہوا اس وقت دوسگی بہنیں میرے عقد میں تھیں میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضرہو اتو آپ نے ان میں سے ایک کو طلاق دے دینے کا حکم دیا۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ان میں جسے چاہوطلاق دے دو ۔ آپ نے انہیں دونوں سے علیحد گی کا حکم نہیں دیا۔ اگر دونوں کے ساتھ بیک وقت عقد ہوا تھا اور علیحدہ علیحدہ عقد کی صورت میں دوسری کو رخصت کردینے کا حکم نہیں دیابل کہ آپ نے اس کے متعلق ان سے استفسار بھی نہیں کیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ نے انہیں یہ فرماکر کہ ان میں سے جسے چاہوطلاق دے دو یہ واضح کردیا کہ دونوں کے ساتھ ان کا نکاح باقی تھا۔ جس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ نزول تحریم سے پہلے تک دونوں کے ساتھ ان کا عقو درست تھا اور یہ کہ لوگوں کو ان کے سابقہ عقودپر اس وقت تک برقراررکھاگیا تھا جب تک ان عقود کے بطلان کی سماعی حجت قائم نہیں ہوگئی۔ اگر ایک شخص مسلمان ہوجائے اور اس کے عقد میں دو بہنیں یاپانچ ہو یاں ہوں تو ان کا کیا حکم ہوگا ؟ اس بارے میں سلف کے اندراختلاف رائے ہے، امام ابوحنیفہ امام ابویوسف اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ پانچ بیویوں کی صورت می پہلی چارکورکھ کرپانچویں سے علیحدگی اختیار کرلے گا اور دو بہنوں کی صورت میں پہلی کو رکھے گا اور دوسری سے علیحد گی اختیار کرلے گا۔ اگر ایک ہی عقد میں پانچوں یادوبہنوں سے نکاح ہواہوتوتمام بیویوں سے اسے علیحدہ کردیاجائے گا۔ امام محمد بن احسن، امام مالک، لیث بن سعد، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ پانچوں میں سے اپنے پسند کی چار اور دو بہنوں میں اپنی پسند کی ایک کو عقد میں رکھ لے گا۔ تاہم بہنوں کی صورت میں اوزاعی کا قول ہے کہ پہلی بہن اس کی بیوی رہے گی اور دوسری سے علیحدگی اختیار کرلے گا۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ پہلی چارکوعقد میں رکھے گا۔ اگر ا سے یہ معلوم نہ ہو کہ پہلی کون کون سی ہیں تو ہر ایک کو طلاق دے دے گا اور عدت گزرنے کے بعدان میں سے چار کے ساتھ دوبارہ نکاح کرلے گا۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل قول باری (وان تجمعوابین الاختین) ہے۔ یہ تمام مکلفین کو خطاب عام ہے۔ اس لیے نزول تحریم کے بعد فاسد ہونے کے حکم میں کافرکادوبہنوں کے ساتھ عقد مسلمان کے عقد کی طرح تھا۔ اس لیے دوسری سے اسے علیحدہ کردینا اس بناپرواجب ہوگیا کہ نص قرانی کی رو سے یہ فاسدعقد تھا جس طرح اس صورت میں تفریق واجب ہوجاتی ہے اگر اسلام لانے کے بعد وہ دوسری سے نکاح کرلیتا کیونکہ قول باری ہے (وان تجمعو ابین الاختین) اور دوسری کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے جمع بین الاختین کی صورت پیدا ہوگئی تھی۔ اگر اس نے دونوں بہنوں کے ساتھ ایک ہی عقد میں نکاح کیا تھا تو دونوں کے ساتھ اس بناپرعقدفاسد ہوجائے گا کہ یہ عقد ایسی صورت میں ہواتھاجس کی ظاہر قرآن کی رو سے ممانعت تھی۔ یہ چیزدو وجوہ سے ہماری ذکرکردہ وضاحت پر دلالت کرتی ہے۔ اول یہ کہ یہ عقدایسی صورت میں ہواھتاجس کی ممانعت تھی اور ہمارے نزدیک نہی یعنی ممانعت فساد کی مقتضیٰ ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ اسے ہر حال میں جمع بین الاختین کرنے کی ممانعت تھی اب اگر ہم شوہر کے مسلمان ہوجانے کے بعد بھی اس عقدکوباقی رکھیں گے توہم اس جمع بین الاختین کے اثبات کے مرتکب قرارپائیں گے۔ جس کی اللہ تعالیٰ نے نفی کردی تھی۔ یہ چیز اس عقد کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جس کے ذریعے جمع بین الاختین کا فعل عمل میں آیا تھا۔ عقلی طورپر بھی اگر دیکھاجائے تو یہ معلوم ہوگا کہ جب مسلمان کے لیے شروع سے دو بہنوں کے ساتھ عقد نکاح جائز نہیں کہ اس کا یہ عقد باقی رہے۔ اگرچہ یہ دونوں عورتیں عقد کے وقت بہنیں نہ بھی ہوں مثلا کوئی شخص دوددوھ پیتی بچیوں سے نکاح کرلے اور پھر ان دونوں کو ایک عورت اپنا دودھ پلائے۔ اس طرح ان دونوں کو جمع کرنے کی نفی کے اندرابتداء اور بقادونوں کا حکم یکساں ہوکرابتدا اور بقا کی حالت کی یکسانیت میں محرم عورتوں کے ساتھ نکاح کے مشابہ ہوگیا۔ اس لیے جب حالت کفر اورحالت اسلام میں عقد کے وقوع یذیر ہونے کے لحاظ سے اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑا اور اسلام میں آتے ہی تفریق واجب ہوگئی اور اس کی حیثیت اسلام لانے کے بعد کیئے جانے والے عقد کی طرح ہوگئی تو دونوں بہنوں یا چار سے زائد عورتوں کے ساتھ نکاح کا بھی یہی حکم واجب ہوگیا اور جس طرح محرم عورتوں کے ساتھ عقد کی طرح دو بہنوں کے ساتھ بقا اور ابتدا میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسی طرح اسلام لانے کے بعد اس عقد کے فاسد ہونے کا حکم لگانا بھی واجب ہوگیا جیسا کہ ہم نے محرم عورتوں کے ساتھ عقد کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ جو لوگ اسلام لانے کے بعد شوہرکواختیاردینے کے قائل ہیں ان کا استدلال فیروزویلمی کی اس روایت پر ہے جس کا ہم نے پہلے ذکرکر دیا ہے۔ نیز انہوں نے اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے جسے ابن ابی لیلیٰ نے خمیصہ بن شمرول سے اور انہوں نے حرث بن قیس سے نقل کیا ہے۔ حرث کہتے ہیں کہ جب میں مسلمان ہواتومیری آٹھ بیویاں تھیں۔ حضور ﷺ نے مجھے ان میں سے چارکومتنخب کرلینے کا حکم دیا۔ اسی طرح اس روایت سے استدلال کیا گیا جسے معمرنے زہری سے ، اور انہوں نے سالم سے، اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے نقل کیا ہے کہ غیلان سلمہ جب مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ان میں سے چاررکھ لو۔ اس استدلال کا یہ جواب دیاجائے گا کہ فیروزدیلمی کی روایت کے الفاظ میں عقد کی صحت پر دلالت موجود ہے اور یہ عقدنزول تحریم سے قبل وقوع پذیرہوا تھا۔ اس لیے کہ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا تھا کہ ان میں سے اپنی پسند کی ایک رکھ لو۔ یہ الفاظ فیروز کے مسلمان ہوجانے کے بعد بھی دونوں بہنوں کے ساتھ عقد کی بقاء پر دلالت کرتے ہیں۔ حارث بن قیس کی روایت میں یہ احتمال ہے کہ شاید نزول تحریم سے پہلے عقد وقوع پذیر ہوا تھا اور پھر تحریم کے آنے تک درست رہا اس لیے اس پر، ان میں سے چارکورکھ کر باقی ماندہ بیویوں سے علیحد گی لازم ہوگئی جس طرح کہ ایک شخص کے عقد میں دوبیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک غیر متعین کو تین طلاق دے بیٹھے تو ایسی صورت میں اس سے یہ کہاجائے گا کہ ان میں سے جسے چاہومتنخب کرلواس لیے کہ تحریم کے آنے تک ان دونوں کے ساتھ عقد کی صورت درست تھی۔ اگریہ کہا ہمارے کہ وقت عقد کے لحاظ سے اگر اس حکم میں فرق ہوتاتو حضور ﷺ حارث بن قیس سے عقد کا وقت ضرور پوچھتے تو اس کا یہ جواب دیا جائے گا کہ حضور ﷺ کو اس بات کا علم تھا اس لیے آپ نے اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے اس سے اس کے متعلق کوئی سوال نہیں کیا۔ معمرکی زہری سے۔ ان کی سالم سے اور ان کی اپنے والد سے غیلان کی بیویوں کے متعلق جو روایت ہے تورادیوں کو اس بات کے متعلق کوئی شک نہیں ہے کہ معمر سے بصرہ میں یہ روایت بیان کرتے ہوئے غلطی ہوئی ہے اور زہری سے یہ روایت اصل کے اعتبار سے مقطوع ہے اسے امام مالک نے زہری سے نقل کیا ہے۔ زہری کے الفاظ یہ ہیں ہمیں یہ اطلاع ملی ہے کہ حضور ﷺ نے ثقیف کے ایک شخص سے جس کی دس بیویاں تھیں مسلمان ہونے پر فرمایا تھا کہ ان میں سے اپنی پسند کی چاررکھولو۔ زہری سے عقیل بن خالد کی روایت میں الفاظ یہ ہیں : ہمیں عثمان بن محمد بن ابی سوید سے یہ خبرپہنچی ہے کہ حضور ﷺ نے غیلان بن سلمہ سے کہا۔ اب زہری کو سالم سے اور انہیں اپنے والد سے اس روایت کا متصل سند کی صورت میں پہنچنا کی سے درست ہوسکتا ہے۔ جبکہ خودزہری اس روایت کو، بلغناعن عثمان بن محمد بن ابی سوید، (ہمیں عثمان بن محمد بن ابی سوید سے یہ خبرپہنچی ہے) کے الفاظ میں ذکرکر رہے ہیں ایک قول یہ ہے کہ اس روایت میں معمر کی جانب سے غلطی ہوئی ہے۔ معمر کے پاس غیلان کے سلسلے میں زہری سے دوردایتیں تھیں۔ ایک تو یہ روایت جس کی سند کے الفاظ وہ تھے جو اوپر درج ہوئے اور دوسری سالم کی اپنے والد سے جس میں یہ ذک رہے کہ غیلان بن مسلمہ نے حضرت عمر ؓ کے زمانے میں اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تھی اور اپناسارامال اپنے ورثاء میں تقسیم کردیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے اس سے فرمایا تھا کہ اگر تم اپنی بیویوں سے رجوع نہیں کروگے اور اس دوران تمہاری موت واقع ہوجائے گی تو میں تمہاری ان مطلقہ بیویوں کو وارث قراردوں گا اور پھر تمہاری قبرپراسی طرح سنگیا ری کروں گا جس طرح ابورغال کی قبرپرپتھربرسائے گئے تھے۔ معمر کو غلطی لگی اور انہوں نے اس روایت کی سند کو غیلان بن سلمہ کے مسلمان ہونے والے واقعہ کی روایت سے جوڑدیا۔ فصل ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ کتاب میں جس امر کی تحریم منصوص ہے وہ جمع بین الاختین ہے تاہم ایک عورت اور اس کی پھوپھی یاخالہ کو بیک وقت عقد میں رکھنے کی تحریم روایت میں وارد ہوئی ہے جن کی حیثیت متواتراحادیث کی ہے۔ حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت جابر ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت ابوموسیٰ ، حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابوہر ؓ یرہ، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لاتنکح المرا ۃ علی عمتھاولا علی خالتھا ولا علی بنت اخیھاولا علی بنت اختھا، کسی عورت سے نکاح نہ کیا جائے جبکہ اس کی پھوپھی، اس کی خالہ، اس کی بھتیجی یاس کی بھابحی پہلے ہی اس شخص کے عقد میں موجودہو۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں (ولاالصغری علی الکبری ولاالکبری علی الصغری۔ نہ چھوٹی ہوتے ہوئے بری سے اور نہ بڑی کے ہوتے ہوئے چھوٹی سے نکاح کیا جائے۔ ان روایات میں الفاظ کے لحاظ سے اگرچہ اختلاف ہے لیکن معنی اور مفہوم کے لحاظ سے یکسانیت ہے اور ان کے تواتر اورکثرت روایت کی بناپراہل علم نے انہیں نہ صرف ہاتھوں ہاتھ لیابل کہ انہیں قبول کرکے ان پر عمل بھی کیا۔ یہ روایات علم وعمل کی موجب ہیں اس لیے ان روایات پر آیت کے ساتھ ساتھ عمل واجب ہے۔ تاہم خوارج کا ایک گروہ اس مسئلے میں پوری امت سے کٹ کر بہنوں کے سواباقی ماندہ عورتوں کا جن کا ذخراوپر ہوچکا ہے، بیک وقت عقدنکاح میں رکھنے کے جواز کا قائل ہوگیا اور اس قول باری (واحل لکم ماوراء ذلکم، ان کے ماسوا عورتیں تم پر حلال کردی گئی ہیں) سے اپنے قول کے حق میں استدلال کیا۔ لیکن انہیں اس بارے میں غلطی لگی اور وہ اس غلطی کی بناپر سیدھے راستے سے بھٹک گئے کیونکہ اللہ نے جس طرح یہ فرمایا کہ (واحل لکم ماوراء ذلکم) اسی طرح یہ بھی فرمایا (ما اتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا، رسول تمہیں جس کام کا حکم دیں اسے اختیارکر لو اور جس کام سے روکیں اس سے رک جار) حضور ﷺ سے ان عورتوں کو بیک وقت عقد میں رکھنے کی تحریم کا حکم ثابت ہوچکا ہے جن کا ہم نے اوپر ذکرکیا ہے۔ اس لیے اس حکم کو بھی آیت کے حکم میں ضم کردیناواجب ہے اور اس طرح قول باری (واحل لکم ماوراء ذلکم) پر ان صورتوں میں عمل کیا جائے گا جو دو بہنوں کو جمع کرنے نیز حضور ﷺ سے منقول ممنوعہ صورتوں کے علاوہ ہوں گی۔ قول باری (واحل لکم ماوراء ذلکم) یا تو حضور ﷺ کی طرف سے ان عورتوں کو ایک عقد کے تحت رکھنے کی تحریم کا حکم ملنے سے قبل یا اس کے ساتھ یا اس کے بعدنال ہوا تھا۔ یہ تو درست نہیں ہوسکتا کہ اس آیت کا نزول حضور ﷺ کے ارشاد کے بعدہواہو۔ اس لیے کہ یہ قول باری ان عورتوں سے نکاح کی تحریم کے حکم پر مرتب ہے جن کی تحریم کا پہلے ذکرہوچکا ہے ۔ یعنی ترتیب میں تحلیل کا یہ حکم تحریم کے حکم کے بعد دارد ہوا ہے اس لیے کہ قول باری (ماوراء ذلکم) سے مراد ان عورتوں کے ماسوا ہے جن کی تحریم کا ذکر پہلے گذر چکا ہے۔ اور جمع بین الاختین کی تحریم سے قبل یہ تمام عورتیں مباح تھیں۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ روایات میں جن عورتوں کو بیک وقت عقد میں رکھنے کا تحریم ہے وہ جمع بین الاختین کی تحریم کے حکم سے پہلے کی نہیں ہے جب آیت سے پہلے) روایات ک اورودمتمنع ہوگیا تواب یہ روایات یا تو آیت کے نزول کے ساتھ ہی وارد ہوئیں یا ان کا دردو آیت کے نزول کے بعدہوا۔ اگرپہلی صورت ہو تو پھر آیت کا درددصرف ان عورتوں کے ساتھ مخصوص تسلیم کیا جائے گاجوحدیث میں مذکورہ عورتوں کے علاوہ ہوں گی اور ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ حضور ﷺ نے آیت کی تلاوت کے بعد مذکورہ بالاحدیث کے ذریعے آیت میں اللہ تعالیٰ کی مراد بیان کردی ہوگی اور سننے والوں نے آیت کے حکم کو اسی طرح صرف ایک حکم خاص سمجھا ہوگاجیسا کہ ہم نے بیان کیا۔ اگردوسری صورت کی بناپر آیت کا حکم اپنے عموم لفظ کے مقتضیٰ پر قرارپکڑچکا تھا اور اس کے بعدحدیث ک اورددہواتویہ نسخ کی صورت میں ہواہوگا اور اس جیسی حدیث کے ذریعے قرآن کانسخ جائز ہے کہ کیونکہ اس حدیث میں تواتر کی صفت موجود ہے۔ نیز اس میں استفاضہ اور کثرت روایت ہے اور اس کی حیثیت علم اور عمل کے موجب کی ہے۔ اگر ہمارے پاس نزول علم اور عمل کے موجب کی ہے۔ اگر ہمارے پاس نزول آیت اور درددحدیث کی تاریخوں کا کوئی ثبوت نہ بھی ہو لیکن یہ یقین حاصل ہوچکاہو کہ آیت کی بناپر اس حدیث کانسخ عمل میں نہیں آیاکیون کہ اس کا درودآیت کے نزول سے پہلے نہیں ہوا تھا جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا ہے تو اس صورت میں آیت کے ساتھ ساتھ اس حدیث پر عمل کرنا بھی واجب ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں بہترین بات یہی ہوگی کہ آیت کے نزول اور حدیث کے دردد کے زمانے کو ایک تسلیم کرلیاجائے۔ کیونکہ ہمیں ان دونوں کی آمد کی تاریخ کا علم نہیں ہے اور ہمارے لیے یہ بھی درست نہیں ہے کہ ہم حدیث پر آیت کے نزول کے بعد واردہونے کا حکم لگاکر آیت کے بعض احکام کو اس کی وجہ سے منسوخ تسلیم کرلیں کیونکہ نسخ اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے جبکہ یہ آیت کہ حکم کے استقرار کے بعد واردہواہو۔ لیکن ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ آیت کا حکم اپنے عموم پر قرارپکڑچکا تھا اور پھر اس پر نسخ واردہوا اس لیے ضروری ہوگیا کہ ان دونوں کے ایک ساتھ وردد کا حکم لگایاجائے۔ نیز ایک وجہ یہ بھی ہے جب آیت کے نزول اور حدیث کے دردد کی تاریخوں کا علم نہ ہو تو اس صورت میں دونوں کے مطابق حکم لگاناضروری ہوجاتا ہے۔ جس طرح کہ ایک ساتھ ڈوب جانے والوں اور ایک ساتھ کسی مکان کے نیچے دب کرمربمانے والوں کا حکم ہوتا ہے۔ چونکہ ان کے متعلق یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون کس سے پہلے مرا ہے اس لیے یہ حکم لگایاجاتا ہے کہ گویا سب کے سب اکھٹے مرے ہیں۔ (واللہ اعلم)
Top