Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں
60۔ 66:۔ ان آیتوں میں مختصر طور پر قصہ شروع بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ اس زمانہ میں اے موسیٰ بڑا صاحب علم کون ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میں ہوں اللہ تعالیٰ کو موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ جواب پسند نہیں آیا کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے جواب کو اللہ تعالیٰ کے علم پر نہیں سونپا اس واسطے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو خضر (علیہ السلام) سے ملنے کا حکم دیا اس حکم کے موافق موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خاص رفیق یوشع بن نون کو ساتھ لیکر خضر (علیہ السلام) کے ملنے کی غرض سے سفر کا ارادہ کیا 1 ؎۔ اب آگے وہی قصہ ہے جو ان آیتوں میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع بن نون سے کہا کہ اس سفر میں خواہ کتنی ہی مدت لگ جائے لیکن جب تک میں دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ تک نہ پہنچ جاؤں گا تو اس وقت تک اس سفر کا سلسلہ منقطع نہ کروں گا۔ اوپر کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے موسٰی (علیہ السلام) کو خضر (علیہ السلام) سے ملنے کا حکم دیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا یا اللہ ! مجھ کو خضر (علیہ السلام) کہاں ملیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ ملیں گے۔ آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ تک کے سفر کا ارادہ یوشع بن نون سے ظاہر کیا حدیث کا یہ ٹکڑا آیتوں کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ تک کا سفر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قرار دیا تھا۔ تفسیر عبدالرزاق میں قتادہ کا قول ہے کہ وہ دریائے فارس اور دریائے روم کے ملنے کی جگہ تھی۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی اوپر کی روایت میں یہ بھی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یوشع بن نون سے مچھلی کا یہ حال سنا تو کہا ہم تو اس جگہ کی تلاش میں تھے۔ حدیث کا یہ ٹکڑا گویا اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مچھلی کا جاتا رہنا مجمع البحرین کی نشانی تھی جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بتلائی تھی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ مجمع البحرین تک پہنچنے میں موسیٰ (علیہ السلام) کو کچھ تکان نہیں ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس سفر کی جو حد ٹہرائی اس سے بڑھنے کے بعد تکان کا غلبہ شروع ہوگیا تاکہ تکان میں ناشتہ یاد آوے اور ناشتہ کے ذکر میں مچھلی کے کھوئے جانے کا حال سن کر موسیٰ (علیہ السلام) الٹے پھریں۔ اب آگے جو فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ یوشع بن نون سے مچھلی کا حال سن کر موسیٰ (علیہ السلام) الٹے بھرے اور خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کے وقت انہوں نے یہ خواہش کی کہ میں تمہارے ساتھ چند روز اس ارادہ سے رہنا چاہتا ہوں کہ جو علم اللہ تعالیٰ نے تم کو دیا ہے اس میں سے تم کچھ مجھ کو بھی سکھادو۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 687 ج 2 کتاب التفسیر۔
Top