Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
جب موسیٰ نے نوجوان سے کہا کہ جب تک میں دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ تک نہ پہنچ جاؤں اس وقت تک یا ایک طویل مدت تک چلتا ہی رہوں گا۔
لغات القرآن آیت نمبر 60 تا 64 فتی نوجوان، شاگرد۔ لا ابرح میں ہرگز نہ چھوڑوں گا۔ حتی ابلغ جب تک پہنچ نہ جاؤں۔ مجمع البحرین دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ۔ حقب (احقاب) طویل مدت۔ بلغا وہ دونوں پہنچے۔ حوث مچھلی۔ جاوزا دونوں گذر گئے۔ السخرۃ چٹان، پتھر نبغ ہم تلاش کر رہے ہیں۔ ارتدا وہ دونوں لوٹے۔ اثار نشان قدم۔ قصص ڈھونڈنا، تلاش کرنا۔ تشریح : آیت نمبر 60 تا 64 چونکہ نبی اور رسول اللہ کے بندے اور اللہ کے نمئاندے ہوتے ہیں اس لئے ان کی تعلیم و تربیت اور عرفت براہ راست اللہ کی طرف سے کی جاتی ہے تاکہ ان کی زندگی کا ہر عمل دوسروں کے لئے مثال، نمونہ اور اسوہ بن جائے۔ اللہ کے تمام نبی اور رسول گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ وہ نہ تو گناہ کرتے ہیں اور نہ گناہوں کی نسبت ان کی طرف کی جاسکتی ہے ۔ اس لئے ان کے رتبوں کی بلندی کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ان کی چھوٹی سے چھوٹی بات پر گرفت کی جاتی ہے اور پھر اللہ کی طرف سے ان کی مکمل رہنمائی بھی کی جاتی ہے۔ اس کے لئے بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو بیان کیا جا رہا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو انبیاء بنی اسرائیل میں افضل ترین رسول اور کلیم اللہ ہیں تقریر فرما رہے تھے۔ خطاب اس قدر دلنشین ، پر تاثیر اور پرجوش تھا کہ کسی شخص نے عقیدت و محبت کے جوش میں حضرت موسیٰ سے یہ پوچھ لیا کہ اے موسیٰ کیا آپ سے بڑھ کر بھی کوئی عالم ہے۔ حضرت موسیٰ کی زبان سے بےساختہ نکل گیا ” نہیں “ یعنی مجھ سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اصول اعتبار سے یہ بات غلط نہ تھی کیونکہ اللہ کے رسول اپنے زمانہ میں نہ صرف صاحب کتاب ہوتے ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ان کو وہ علوم سکھائے جاتے ہیں جو کوئی بھی نہیں جانتا۔ لہٰذا اس اصول کی بنا پر تو رسول کے زمانے میں اس سے بڑا کوئی عالم نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ کا یہ کہنا اپنی جگہ درست تھا مگر حضرت موسیٰ کے رتبے اور مقام کا تقاضا یہ تھا کہ وہ صرف اتنا فرما دیتے کہ اللہ بہتر جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ قرآن کریم کی ان آیات اور بخاری و مسلم کی معتبر ترین روایت کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا گیا کہ اے موسیٰ آپ دو سمندروں کے بیچ میں زمین کا ایک تنگ ٹکڑا ہے وہیں جائیے آپ کو ہمارا ایک بندہ ملے گا جس کو ایسی باتوں کا علم دیا گیا ہے جن کی مصلحتوں تک کو آپ نہیں سمجھ سکتے۔ فرمایا گیا کہ تم اپنے ساتھ ایک مچھلی پکا کرلے جانا۔ جہاں یہ مچھلی گم ہوجائے اس جگہ ہمارے اس بندے سے ملاقات ہوگی۔ بخاری و مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بندہ خصوصی کا نام ” خضر “ تھا۔ حضرت موسیٰ اپنے ساتھ اپنے ان خادم خاص یوشع کو لے گئے تھے۔ جن کو بعد میں نبوت عطا کی گئی اور حضرت موسیٰ کے وصال کے بعد ان کے قائم مقام بنائے گئے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع حضرت خضر کی تلاش میں روانہ ہوگئے۔ یہ دونوں تلاش کرتے کرتے تھک کر سو گئے۔ حضرت یوشع کی آنکھ کھلی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے ناشتے دان کی مچھلی زندہ ہو کر سرنگ بناتی ہوئی سمندر میں اتر گئی۔ اس عجیب و غریب واقعہ پر حضرت یوشع بڑے حیران ہوئے۔ حضرت موسیٰ سو رہے تھے انہوں نے سوچا کہ حضرت موسیٰ بیدار ہوجائیں تو ان سے اس عجیب و غریب واقعہ کا ذکر کریں گے۔ مگر حضرت موسیٰ اٹھے اور فوری طور پر وہاں سے روانہ ہوگئے۔ حضرت یوشع کو یہ واقعہ سنانے کا موقع نہ مل سکا۔ جب چلتے چلتے تھک گئے تو حضرت موسیٰ نے حضرت یوشع سے کہا کہ اب ہم بہت تھک گئے ہیں بھوک لگ رہی ہے کھانا لاؤ۔ اس وقت حضرت یوشع کو مچھلی کا عیجب طریقے پر سمندر میں اتر جانے کا خیال آیا۔ انہوں نے کہا شیطان نے مجھے بھلا دیا تھا اصل میں وہ مچھلی تو عجیب طریقے پر سرنگ بناتے ہوئے سمندر میں اتر گئی تھی۔ یہ سن کر حضرت موسیٰ نے کہا کہ ہمیں اسی جگہ کی تلاش تھی۔ فوراً وہیں واپس چلو جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا کیونکہ اسی جگہ تو حضرت خضر سے ملاقات ہوگی۔ چناچہ وہ دونوں اپنے پاؤں کے نشانوں پر چلتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں مچھلی غائب ہوئی تھی۔ کچھ تلاش کے بعد دیکھا کہ ایک شخص چادر اوڑھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جا کر سلام کیا یہ حضرت خضر (علیہ السلام) تھے جنہیں اللہ نے کائنات کا خصوصی علم دیا تھا اور وہ اللہ کی طرف سے بہت سے کاموں کے کرنے پر مامور تھے۔ وہ اللہ کے حکم سے لوگوں کی آنے والی مصیبتوں میں ان کے کام آتے تھے۔ جب حضرت موسیٰ نے سلام کیا تو انہوں نے حیرت سے حضرت موسیٰ کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا کون موسیٰ ؟ کیا آپ بنی اسرائیل کے موسیٰ تو نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا جی ہاں میں بنی اسرائیل کا موسیٰ ہوں۔ پوچھا کیوں آئے ہو ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ اللہ نے آپ کو جو خصوصی علوم عطا فرمائے ہیں۔ آپ کے پاس رہ کر ان علوم کو حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت خضرعلیہ السلام نے کہا اے موسیٰ آپ جہاں سے آئے ہیں وہیں لوٹ جائیے۔ کیونکہ میں تو اللہ کے حکم سے ایسے ایسے کام کرتا ہوں جنہیں آپ برداشت نہ کرسکیں گے اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھیں گے حضرت موسیٰ نے کہا کہ میں صبر سے کام لوں گا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ میرے ساتھ چلنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جب تمہیں خود نہ بتا دوں اس وقت تک تم مجھ سے یہ سوال مت کرنا کہ ایسا کیوں ہوا اور ایسا کیوں نہیں ہوا۔ حضرت موسیٰ نے اس کا وعدہ کرلیا اور حضرت خضر ان کو ساتھ لے کر چل پڑے۔ اس واقعہ کی بقیہ تفصیل اگلے درس میں ملاحظہ فرمائیے گا۔
Top