Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 48
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں مَتٰى : کب ھٰذَا الْوَعْدُ : یہ وعدہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
اور کہتے ہیں کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا ؟
48 تا 52۔ جس طرح کوئی کسی چیز کا منتظر ہوتا ہے اس طرح کافر لوگ قیامت کا حال سن کر مسخرا پن اور تعجب سے یہ بات مسلمانوں سے بات مسلمانوں سے کہتے تھے کہ جو کچھ تم قیامت کا حال کہتے ہو کہ مر کر پھر جینا ہوگا اور وہاں آخرت میں ہم پر عذاب ہوگا اور تم بڑے عیش و آرام میں ہوجاؤگے اگر یہ تمہارا بیان سچ ہے تو آخر اس کا ظہور کب ہوگا اور قیامت کی ابتدا پہلے صور سے ہوگی جس کو نفخۃ الفزع کہتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کے جواب میں فرمایا کہ جب یہ لوگ ایک منتظر آدمی کی طرح قیامت کے انتظار میں ہیں تو ان کو ایک سخت آواز کا انتظار کرنا چاہئے کہ لوگ اپنے دنیا کے کاروبار میں معمول کے موافق اسی طرح مصروف ہونگے جس طرح آج مصروف ہیں کہ یکایک ایک آواز سخت آن کر تمام دنیا فنا ہوجاوے گی صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ 1 ؎ کی اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ و بن عاص کی روایت سے جو تفسیر اس پہلے صور کی آئی ہے (1 ؎ مشکوۃ باب الملاحم فصل اول) اس کا حاصل یہ ہے کہ بازار میں کپڑے کے تھان دکاندار خریداروں کو کھول کھول دکھار ہے ہوں گے حوضوں اور نہروں کی مرمت کھیتیوں اور باغوں میں پانی پہنچانے کی غرض سے ہو رہی ہوگی اپنے جانوروں کا دودھ لوگ دو ہتے ہوں گے کچھ لوگ کھانا کھانے بیٹھے ہوں گے اتنے میں وہ کپڑے کا تھان کھلا کا کھلا رہ جائے گا ہاتھ کا نوالہ ہاتھ میں رہے گا اور منہ کا منہ میں دوھا ہوا دودھ اور مرمت کئے ہوے حوض اور نہریں یہ سب کچھ یوں یہی پڑا رہے گا کہ یکایک پہلے صور کی آواز سے سب مخلوق اس طرح فنا ہوجاوے گی کہ نہ کوئی اپنے مال کی کسی کو کچھ وصیت کرسکے گا نہ گھر کے باہر گیا ہوا شخص پھر کر گھر آسکے گا اس کے بعد چالیس برس تک تمام دنیا ویران پڑی رہے گی پھر دوسرا صور پھونکا جاوے گا جس کا ذکر آگے کی آیت میں ہے کہ اس دوسرے صور کی آواز سے سب جی اٹھیں گے اور اپنے رب کے روبرو حاضر ہونے کے لیے قبروں سے نکل کر چل نکلیں گے۔ اس دوسرے صور کا نام نفخۃ البعث ہے دونوں صور کے مابین کے چالیس برس کے زمانہ میں عذاب قبر موقوف ہوجاوے گا اور عذاب قبر والے لوگوں کو ایک غنودگی سی آجائے گی اسی واسطے جب یہ لوگ دوسرے صور کی آواز سے جاگ اٹھیں گے تو اپنی قبروں کو اپنی خوابگاہ قرار دے کر یہ کہویں گے کہ افسوس ہم کو ہماری خواب گاہ سے کس نے اٹھادیا نیدار لوگ جواب دیں گے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے جس وعدہ کو تم لوگ دنیا میں جھٹلایا کرتے تھے آج وہ اللہ کے وعدہ کا حشر کا دن ہے حساب و کتاب کے لیے سب لوگ قبروں سے اٹھائے گئے ہیں تفسیر عبدالرحمن بن زید میں ہے کہ پہلے کافر لوگ یہ کہیں گے کہ ہم کو ہماری خواب گاہ سے کس نے اٹھادیا پھر اپنی بات کا آپ ہی یہ جواب دیویں گے کہ شائد آج وہ دن ہے جس کو حشر کا دن اللہ کے رسول نے دنیا میں جتلایا تھا اور تفسیر حسن بصری (رح) میں ہے کہ کافروں کی بات کا یہ جواب فرشتے دیویں گے لیکن سورة روم میں خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وقال الذین اوتوا العلم والایمان لقد لبثتم فی کتاب اللہ قال یوم البعث فھذا یوم المعث جس کا حاصل مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا اور آگے بھی آتا ہے کہ منکرین حشر کی اس بات کا جواب دیندار لوگ دیویں گے اس واسطے یہی قول صحیح اور قرآن شریف کے مضمون کے موافق ہے کہ کافروں کی اس بات کا جواب دیندار لوگ دیویں گے پھر فرمایا کہ دوسرے صور کی فقط ایک ہی آواز ان لوگوں کے اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہونے کے لیے ایسا گہرا تقاضا ہے کہ اس آواز کے ساتھ ہی یہ سب اللہ تعالیٰ کے روبرو پکڑے ہوئے آجاویں گے۔
Top