Ruh-ul-Quran - Yaseen : 48
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں مَتٰى : کب ھٰذَا الْوَعْدُ : یہ وعدہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
اور وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ قیامت کی دھمکی کب پوری ہوگی، اگر تم لوگ سچے ہو
وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْـتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ مَا یَنْظُرُوْنَ اِلاَّ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً تَاْخُذُھُمْ وَھُمْ یَخِصِّمُوْنَ ۔ فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ تَوْصِیَۃً وَّلَآ اِلٰٓی اَھْلِھِمْ یَرْجِعُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 48 تا 50) (اور وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ قیامت کی دھمکی کب پوری ہوگی، اگر تم لوگ سچے ہو۔ یہ لوگ بس ایک ڈانٹ ہی کے منتظر ہیں جو انہیں آپکڑے گی اس حال میں کہ وہ جھگڑ رہے ہوں گے۔ پس نہ تو وہ کوئی وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے اہل خانہ کی طرف پلٹ سکیں گے۔ ) الْوَعْدُ سے مراد ہم نے ترجمے میں اگرچہ الْوَعْدُ سے قیامت مراد لی ہے لیکن اس سے مراد عذاب بھی لیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ مخالفین کو دونوں کے حوالے سے ڈراتے تھے کہ اگر تم ایمان نہ لائے اور تمہاری سرکشی بڑھتی چلی گئی تو ممکن ہے کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوجائے۔ ورنہ جہاں تک قیامت کا تعلق ہے وہ تو اپنے وقت پر آئے گی لیکن اس وقت تم ایمان سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے جواب دہی میں کچھ کہہ نہیں پائو گے۔ اب اگر یہاں الْوَعْدُسے عذاب ہی مراد لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی حیرت انگیز آیات اور نہایت موثر دلائل سننے کے باوجود وہ ہمیشہ عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں کہ جب تک ہم اپنی آنکھوں سے عذاب کو دیکھ نہیں لیتے اس وقت تک ہم اس کی خبر دینے والے کو سچا ماننے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ ایک معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھتا ہے کہ اگر تمہیں عذاب دکھا بھی دیا جائے تو تمہیں اس سے کیا فائدہ ہوگا۔ کیونکہ عذاب کے آنے کے بعد نہ تو ایمان کی قبولیت کا اعتبار رہتا ہے اور نہ عذاب کا شکار ہونے والے اس قابل رہتے ہیں کہ وہ ایمان قبول کرسکیں۔ اگر اس سے مراد قیامت لی جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اور مخالفین کے درمیان جس طرح توحید کے حوالے سے دلائل کی جنگ جاری رہتی تھی اسی طرح آخرت بھی ایک نزاعی صورت اختیار کرچکی تھی۔ یہاں ان کی طرف سے قیامت کے مطالبے پر کسی دلیل کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا کیونکہ متعدد مواقع پر وقوع قیامت پر ایک سے ایک بڑھ کر دلائل دیے جا چکے تھے۔ لیکن وہ بار بار کج بحثی کا ثبوت دیتے تھے۔ اس لیے یہاں وقوع قیامت کا ایک منظر پیش کردیا گیا ہے تاکہ ان کے دلوں میں اگر کچھ بھی قبولیت کی رمق باقی ہے تو اسے تحریک ہوسکے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے یا قیامت وہ ایک ایسا دھماکا یا ایک ایسی ڈانٹ ہوگی کہ انسان جس حال میں بھی ہوگا اسے دھر لیا جائے گا۔ لوگ اپنے معاملات میں جھگڑ رہے ہوں گے یا حق کے مقابلے میں ہنگامہ کررہے ہوں گے کہ پکڑ لیے جائیں گے۔ اب انہیں اتنی مہلت بھی نہیں ملے گی کہ وہ کسی کو وصیت کرسکیں اور وہ اپنے اہل خانہ کی طرف پلٹنا چاہیں گے لیکن اس کا موقع بھی نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے کہ انھیں اس طرح اچانک پکڑ لیا جائے انہیں چاہیے کہ وہ زندگی سے فائدہ اٹھائیں اور آخرت کی تیاری کریں۔
Top