Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا خَلَقْنٰهُ : کہ ہم نے پیدا کیا اس کو مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑالو مُّبِيْنٌ : کھلا
کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تڑاق پڑاق جھگڑنے لگا
77 تا 79۔ مستدرک حاکم اور تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت 1 ؎ سے جس روایت کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے 2 ؎ جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے۔ (1 ؎ تفسیر ابن مثیر 581 ج 3) (2 ؎ الدر المنثور ص 269 ج 5) ۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص مشرک عاص بن وائل ایک روز ایک بوسیدہ ہڈی کو لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور اس ہڈی کو مل کر اس کی خاک ہوا میں اڑانے اور کہنے لگا اسی کو خدا پھر پیدا کرے گا آپ نے فرمایا ہاں یہی حالت تیری ہوجانے کے بعد اللہ تجھ کو پھر پیدا کرے گا اور پھر تجھ کو دوزخ میں دھکیل دے گا اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی دوسری روایت تفسیر ابن ابی حاتم میں اور تفسیر سدی میں مجاہد اور عکرمہ وغیرہ سے جو ہے ‘ اس میں بجائے عاص بن وائل کے ابی بن خلف کا نام ہے لیکن حاکم نے پہلی روایت کی صحت بیان کی ہے اس لیے وہی روایت قوی معلوم ہوتی ہے اور تفسیر ابن جریر میں عبداللہ بن ابی کا نام جو لیا ہے اس پر حافظ عماد الدین ابن کثیر نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس مکی سورت میں عبداللہ بن ابی مدینہ کے منافق کا ذکر کیوں کر ہوسکتا ہے اس اعتراض کے بعد حافظ ابن کثیر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ خواہ کوئی بھی مشرک آنحضرت ﷺ کے پاس آیا ہو لیکن آیت کل حشر کے منکروں کے حق میں عام ہے۔ حشر کے منکر لوگوں کی بڑی غلطی سے ہے کہ وہ لوگ اللہ کی قدرت کو انسانی قدرت اور طاقت پر قیاس کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ حشر کی باتیں باتیں جس طرح قدرت انسانی سے باہر ہیں اسی طرح قدرت الٰہی سے بھی وہ باتیں باہر ہوں گی اس غلط قیاس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ پانی جیسی پتلی اور بےجان چیز منی سے اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پیدا کردیا کیا یہ آدمی کی قدرت سے باہر نہیں ہے پھر جب اللہ تعالیٰ نے منی سے آدمی کو پیدا کردیا تو یہ لوگ قدرت انسانی پر اللہ کی قدرت کا غلط قیاس کیوں کرتے ہیں کیا اللہ کی قدرت یاد کرنے کے لیے اپنی پیدائش ان لوگوں کو یاد نہیں اگرچہ لاکھ ہا کروڑ ہا چیزیں اللہ کی قدرت سے پیدا ہو کر ایسے دنیا میں موجود ہیں جو قدرت انسانی سے بالکل باہر ہیں لیکن انسان ان سب کو چھوڑ کر اگر فقط اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو اس کو یقین ہوجاوے گا کہ اللہ کی قدرت کا قیاس انسانی قدرت پر کرنا بالکل غلط ہے ساری آیت کی تفسیر اور اسی غلط قیاس کی غلطی ثابت کرنے کی صراحت میں ناقابل اعتراض سند سے ابن ماجہ اور مسند امام احمد میں جو روایتیں 3 ؎ ہیں (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ایضا) ان روایتوں کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک رواز اپنی ہتھیلی پر تھوکا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ اس طرح کی پتلی چیز سے آدمی پیدا کیا گیا ہے اور باوجود اپنی پیدائش کے آنکھوں کے سامنے ہونے کے پھر آدمی خاک سے دوسری دفعہ پیدا کرنے کو اللہ کی قدرت سے باہر گنتا ہے صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی بڑی روایت ہے اس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انسان نے مجھ کو جھٹلایا اور اس کو یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ مجھ کو جھٹلاتا ہے اور اس کا لانا یہ ہے کہ ایک دفعہ میں نے انسان کو پیدا کردیا پھر وہ دوسری دفعہ پیدا کرنے سے انکار کرتا ہے اور مجھ کو جھٹلاتا ہے یہ نہیں جانتا کہ جیسا پہلی دفعہ اس کا پیدا کرنا ہے ویسا ہی دوسری دفعہ کا ہے جس طرح عاص بن وائل اور اس کے ساتھی مشرکین مکہ نے جسمانی حشر کو خلاف عقل کہا ہے یہی خیال یونانی فلسفی لوگوں کا ہے اگرچہ فلسفہ یونانی کی کتابیں خلفائے عباسیہ کی فرمایش سے عربی زبان میں ترجمہ کی گئی ہیں اس سے پہلے کتابی طور پر عرب کے لوگ علم فلسفہ سے نا آشنا تھے لیکن مشرکین مکہ پارسیوں سے ملتے جلتے رہتے تھے اسی میل جول میں انہوں نے پارسیول سے جسمانی حشر کا انکار سکھا ہے سورة الا نفال میں نضر بن حارث کا قصہ گزر چکا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ اور پارسیوں کا میل جول تھا اور یونانیوں کی طرح پارسیوں میں بھی علم فلسفہ کا بڑا زور تھا چناچہ بعض تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ جب سکندر رومی نے پارسیوں کے بادشاہ دارا پر غلبہ پایا تو اس وقت سکندر دارا کے کتب خانہ میں سے علم فلسفہ کی بہت سی کتابیں یونان لایا ‘ یہ سکندر وہ ذوالقرنین سکندر نہیں ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے کیوں کہ سکندر ذوالقرنین کا زمانہ اور ابراہیم (علیہ السلام) کا زمانہ ایک تھا۔ یہ دوسرا سکندر رومی عیسیٰ (علیہ السلام) سے تین سو برس کے قریب پہلے تھا۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد جب یونانی لوگ بت پرستی چھوڑ کر عیسائی ہوگئے پھر رفتہ رفتہ عیسائیوں میں بھی علم فلسفہ آگیا۔ اس دوسرے سکندر کا وزیر ارسطالیس تھا ارسطالیس کے علم فلسفہ کی کتابیں یونان سے منگوائیں اور چند شخصوں سے ان کا ترجمہ زبان عربی میں کرایا لیکن ان ترجموں میں اختلاف تھا اسی واسطے 389 ھ میں خر اس ان کے امیر منصور بن نوح سامانی نے ابو نصر فارابی سے فرمایش کر کے ان ترجموں کو درست کرایا اسی سبب سے فارابی کو معلم ثانی کہتے ہیں۔ فارابی کی تالیفات مسودہ کی حالت میں رہیں پھیلی نہیں اس کے بعد محمود غزنوی کے بیٹے امبر مسعود بن محمود کی فرمائش سے 422 ھ میں ایمر مسعود کے وزیر شیخ ابوعلی سینا نے فارابی کے مسودہ سے مدد لے کر شفا ‘ اشارات ‘ عیون الحکمۃ وغیرہ کتابیں تالیف کیں جن کی باتیں اب تک پڑھائی جاتی ہیں۔ شیخ نے اپنی کتاب اشارات کے آخر میں لکھ دیا ہے کہ یہ فلسفہ کی کتابیں اسلامی نہیں ہیں بلکہ یونانی کتابوں کا ترجمہ ہے یہ تو ظاہر ہے کہ علم فلسفہ کا معلم اول ارسطو بت پرست تھا اسی کی تالیف کی بنا پر فارابی اور شیخ کی تالیفات ہیں اس واسطے جس طرح اوپر گزرا شیخ نے اپنی کتاب اشارات کے آخر میں لکھ دیا ہے کہ فلسفہ کی کتابیں اسلامی نہیں ہیں بلکہ یونانی کتابوں کا ترجمہ ہے نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ کے معتقدوں میں سے جو لوگ شریعت کے مسائل کو کلام شیخ کا تابع کرنا چاہتے ہیں وہ گویا تشرع کی باتوں کو بت پر ستوں کی بانوں کے تابع کرتے ہیں۔ فلسفہ کے معنے عقلی حکمت کی محبت پیدا کرنے والی باتیں ہیں عقلی حکمت میں منطق طبعیات ‘ ہندسہ ‘ ہیت چند علم ہیں جن کی تفصیلی کے بیان کی ضرورت نہیں لیکن اس عقلی حکمت میں ایک باب الٰہیات کا ہے جس میں یہ فلسفی لوگ اللہ کے صفات ‘ حشر ‘ جنت دوزخ وغیرہ ایسی شرعی باتوں میں عقلی بحث کرتے ہیں حالت کہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں کی ہیں جو بذریعہ وحی کے انبیاء کو بتائی گئی ہیں محض عقل سے صحیح طور پر ان کو کوئی نہیں جان سکتا اس واسطے علمائے اسلام ن الہیات میں ارسطو کی بہت سی غلطیاں ثابت کی ہیں۔ اگرچہ علم فلفسہ کی کچھ کتابیں خالدبن یزید بن معاویہ کے زمانہ میں بھی یونان سے آئی ہیں جن کا ترجمہ عبداللہ بن مقفع وغیرہ نے عربی میں کیا ہے لیکن خالد بن یزید کا شمار خلفائے بنی امیہ میں نہیں ہے اس لیے مشہور یہی بات ہے کہ خلفائے عباسیہ میں سے مامون رشید کے زمانہ میں علم فلسفہ کی کتابوں کا ترجمہ عربی میں کیا گیا حاصل کلام یہ ہے کہ حافظ ابن کثیر کے قول کے موافق دہریہ مشرکین مکہ پارسی یونانی ان سب جسمانی حشر کے منکروں کے حق میں آیت عام ہے اور حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ ایک بوند پانی سے جس صاحب قدرت نے ان جسمانی حشر کے منکروں کو پیدا کردیا جس کا یہ لوگ کسی طرح انکار نہیں کرسکتے وہی صاحب قدرت بوسیدہ یڈیوں کی خاک سے آدم (علیہ السلام) کے پتلے کی طرح ان کے پتلے بناوے گا اور جس طرح ماں کے پیٹ میں نطفہ کے ہر ایک پتلے میں روح پھونکی جاتی ہے اسی طرح بوسیدہ ہڈیوں کے ہر ایک پتلے میں روح پھونک دی جاوے گی اور اس کے بعد جب انکی تمام عمر کی نیکیوں بدیوں کا حساب ہوگا تو اس وقت ان کا جسمانی حشر کا یہ انکار ان کو بہت آفت میں ڈالے گا۔ ان لوگوں کو اپنی عقل پر بڑا بھروسہ ہے ان عقل کے بندوں کو اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب پہلی پیدائش کے دریافت میں عقل کے پر چلتے ہیں تو دوسری پیدائش کا حال معلوم کرنے میں عقل کی بلند پروازی کیا چل سکتی ہے۔ عاص بن وائل نے یہ جو کہا تھا من یحییٰ العظام کو فرمایا وضرب لنامثلا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کم عقل شخص اللہ کی قدرت کے آگے انسان کی قدرت کی مثال بیان کرتا ہے اور گویا یہ کہتا ہے کہ اس بوسیدہ ہڈی کو جب کوئی انسان زندگی کی حالت پر نہیں لاسکتا تو یہ کلام کیوں کر سچا ہوسکتا ہے کہ یہ بوسیدہ ہڈی پھر دوبارہ زندگی کی حالت میں آوے گی۔ اس عقلی حجت کا اللہ تعالیٰ نے یہ جواب کی جو قدرت اس کم عقل نے پہلی پیدایش میں آنکھوں سے دیکھ لی وہی قدرت الٰہی اس اس کو مرنے کے بعد دوسری پیدائش میں آنکھوں سے دیکھنی ہوگی۔ ترمٓذی ابوداؤد اور صحیح ابن حبان کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث صحیح گزر چکی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے پتلے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام زمین کی مٹی کی اسی کی تاثیر سے بنی آدم میں کوئی گورا ہے کوئی کالا کوئی نیک مزاج کوئی بدمزاج صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ اور ابوسعید خدری ؓ کی روایتیں بھی گزر چکی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہونے کے خوف سے ایک شخص نے یہ وصیت کی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر آدھی مٹی ہوا میں اڑادی جاوے اور آدھی دریا میں بہا دی جاوے اس شخص کے مرنے کے بعد اس کی وصیت کے موافق عمل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے جنگل اور دریا کو اس کی مٹی کو حاضر کرنے کا حکم دیا اس حکم کے موافق وہ مٹی حاضر ہوگئی اور حکم الٰہی کے موافق اس مٹی کا پتلا بنا اور اس پتلے میں روح پھونکی گئی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس شخص سے پوچھا کہ تو نے ایسی وصیت کیوں کی تھی اس شخص نے جواب دیا اللہ تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے یہ کام تیرے خوف سے کیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مغفرت فرمائی ‘ ان حدیثوں کو و ھو بکل خلق علیم کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے پتلے کے وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق تمام زمین کی مٹی سے پتلا بنایا کہ اس وقت اسی طرح کے پتلے کی ضرورت تھی اور حشر کی ضرورت کہ موافق ہر ایک مردہ کی مٹی کا پتلا بنے گا اور اس وصیت والے شخص کی میں کی طرح جنگل میں دریا میں غرض ہر ایک مردہ کی مٹی جہاں ہوں گی وہ ضرورت کے وقت حکم الٰہی سے فورا حاضر ہوجاوے گی۔
Top