Fi-Zilal-al-Quran - Yaseen : 77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا خَلَقْنٰهُ : کہ ہم نے پیدا کیا اس کو مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑالو مُّبِيْنٌ : کھلا
کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑالوبن کر کھڑا ہوگیا ؟
اس آخری سبق کا یہ تیسرا حصہ ہے ۔ اس میں حشر ونشر کے مسئلہ کو لیا گیا ہے ۔ اولم یرالانسان ۔۔۔۔۔ لہ کن فیکون (77-82) اس حصے میں بات کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ انسان کو خود اپنے وجود اور اپنی ذات کی طرف دیکھنا چاہئے ۔ اس کی تخلیق کا آغاز کس طرح ہوا ، وہ کس طرح بڑا ہوا اور سن بلوغ کو پہنچا۔ یہ سب مراحل جو اس کی زندگی میں طے ہوئے وہ اس کی نظر وں میں ہیں ۔ وہ دیکھتارہا ہے ۔ کیا اس سے وہ کوئی سبق اور نصیحت نہیں لے رہا ہے ۔ کیا خود انسانی زندگی تخلیق وتشکیل سے وہ یہ سبق نہیں اخذاکر سکتا کہ اللہ کے لیے دوبارہ اٹھا نا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر چہ وہ مٹ جائے اور اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں ۔ اولم یر ۔۔۔۔۔ خصیم مبین (36: 77) ” کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑالو بن کر کھڑا ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ نطفہ کیا چیز ہے جس کے بارے میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ انسان کا اصل قریب ہے ۔ یہ ایک حقیر پانی سے مرکب ہے ، یہ کوئی ٹھوس چیز ہے اور نہ اس کی کوئی قیمت ہے ۔ یہ ایک پانی ہے جس میں ہزارہا خل سے ہوتے ہیں ۔ ان ہزار ہا خلیوں میں سے صرف ایک جنین بنتا ہے ۔ اور یہ ایک جنین پھر انسان بنتا ہے ۔ یہ پھر اپنے رب اور خالق کے ساتھ گستاخانہ باتیں کرتا ہے۔ رب کی مخالفت کرتا ہے اور اپنے خالق سے برہان و دلیل کا مطالبہ کرتا ہے ۔ حالا ن کہ وہ خالق قدیر ہی ہے جس نے اس قدر حقیر چیز سے انسان کو بنایا اور ” خصیم مبین “ اور صریح جھگڑالوبن گیا ۔ ذراغور تو کیا جائے کہ یہ انسان کی اسے کیا بن گیا ۔ ذرا اس کے آغاز اور انجام پر غور کیا جائے ۔ کیا اس قدرت ” قادرہ “ کے سامنے یہ کوئی مشکل کام ہے کہ وہ اجزائے جسم کو دوبارہ یکجا کردے۔ اگر چہ وہ مرمٹنے کے بعد زمین میں بکھر گئے ہیں ۔
Top