Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا خَلَقْنٰهُ : کہ ہم نے پیدا کیا اس کو مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑالو مُّبِيْنٌ : کھلا
کیا انسان کو اس کا علم نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا سو اچانک وہ علانیہ طور پر جھگڑالو ہوگیا۔
انسان قیامت کا منکر ہے، وہ اپنی خلقت کو بھول گیا وقوع قیامت اور بعث اور حشر نشر کا جو لوگ انکار کیا کرتے تھے ان میں سے ایک شخص عاص بن وائل بھی تھا، یہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک گلی سڑی ہڈی لے کر آیا، اور اس ہڈی کو اپنے ہاتھ سے چورا چورا کیا اور کہنے لگا کہ اے محمد ﷺ جب میں اس ہڈی کو اپنے ہاتھ سے پھینک دوں تو کیا اللہ تعالیٰ اسے زندہ فرما دے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ اسے زندہ فرما دے گا پھر تجھے موت دے گا پھر تجھے زندہ فرمائے گا پھر تجھے دوزخ کی آگ میں داخل کرے گا۔ اس پر (اَوَلَمْ یَرَ الْاِِنْسَانُ ) سے لے کر ختم سورة تک آیات نازل ہوئیں جس شخص سے یہ باتیں ہوئی تھیں اس کے بارے میں دیگر اقوال بھی ہیں جو روح المعانی جلد 23: ص 53 میں مذکور ہیں۔ ارشاد فرمایا کیا انسان کو معلوم نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ منی سے پیدا کیا ؟ اس کو تو وہ جانتا ہے مانتا ہے، جب نطفہ منی سے اسے پیدا کرسکتے ہیں تو بوسیدہ ہڈیوں کو مرکب کرکے ان میں جان کیوں نہیں ڈال سکتے ؟ قیامت اور حشر نشر کی سچی خبر جو حضرات انبیائے کرام (علیہ السلام) نے دی اس کی تصدیق کرنے کی بجائے انسان بڑا جھگڑالو بن گیا اور ایسا جھگڑالو بنا کہ واضح طور پر وقوع قیامت اور موت کے بعد زندہ ہونے کا انکار کرنے لگا، جب اسے اپنے مبدء فطرت کا علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ذلیل پانی سے پیدا فرمایا ہے تو اسے جھگڑنے اور یہ بات کہنے کا کیا مقام ہے کہ میں بوسیدہ ہڈیوں سے کیسے پیدا کیا جاؤں گا۔
Top