Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 28
وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى قَوْمِهٖ مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ مَا كُنَّا مُنْزِلِیْنَ
وَمَآ اَنْزَلْنَا : اور نہیں اتارا عَلٰي : پر قَوْمِهٖ : اس کی قوم مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد مِنْ جُنْدٍ : کوئی لشکر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم مُنْزِلِيْنَ : اتارنے والے
اور ہم نے اس کے بعد اس کی قوم پر کوئی لشکر نہیں اتارا اور نہ ہم اتارنے والے تھے ہی
(36:28) وما انزلنا میں ما نافیہ ہے۔ اور ہم نے نہیں اتارا۔ علی قومہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع مرد مومن (حبیب نجار) ہے۔ من بعدہ۔ میں بھی ہ ضمیر کا مرجع حبیب نجار ہی ہے۔ اس کے بعد یعنی اس کے شہید کئے جانے کے بعد۔ وما کنا منزلین۔ اور نہ ہم اتارنے والے تھے ہی ۔ یعنی نہ ہم کو اتارنے کی ضرورت ہی تھی۔ منزلین اسم فاعل ۔ جمع مذکر منصوب (بوجہ خبر کنا) اتارنے والے۔ اس جملہ کی تفسیر میں علامہ ثنا اللہ پانی پتی (رح) صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں ! وما کنا منزلین۔ یعنی ہماری یہ عادت ہی نہیں اور دستور ہی نہیں ہے کہ کسی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے فرشتوں کی فوجیں بھیجیں اللہ کو اس کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ باقی یہ بات کہ خندق اور بدر کے دن فرشتوں کو جو بھیجا گیا تھا وہ محض بشارت دینے اور رسول کی عظمت کا اظہار کرنے اور مسلمانوں کے دلوں کو تسکین دینے کے لئے تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :۔ ” وما جعلہ اللہ الا بشری لکم ولتطمئن قلوبکم وما النصر الا من عند اللہ “ (8:10) اور اللہ نے یہ بس اس لئے کیا کہ (تمہیں) بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو اس سے اطمینان ہوجائے درآنحالیکہ نصرت تو بس اللہ ہی کے پاس ہے۔ بعض کے نزدیک ما کنا میں ما موصولہ ہے اور جند سے مراد ہے آسمان سے سنگ باری یا طوفان یا شدید بارش۔ یعنی جس طرح گذشتہ قوموں پر ہم نے عذاب کی فوج بھیجی ایسی عذابی فوج حبیب نجار کی قوم پر نازل نہیں کی۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت کی طرف اشارہ ہے اور حبیب نجار کی قوم کی تحقیر مقصود ہے کہ وہاں فرشتوں کی فوج اتارنے کی ضرورت تو کجا رہی وہاں تو پہلی قوموں کی طرح طوفان بادوباراں وغیرہ کی بھی ضرورت نہ تھی۔ محض ایک فرشتہ کی ایک چیخ ہی کافی تھی کہ سب ایک دم بجھ کر رہ گئے (یعنی مرگئے) ۔
Top