Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا خَلَقْنٰهُ : کہ ہم نے پیدا کیا اس کو مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑالو مُّبِيْنٌ : کھلا
کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تڑاق پڑاق جھگڑنے لگا
(36:77) اولم یر : میں ہمزہ استفہام انکاری ہے اور تعجب کے لئے ہے۔ وائو عاطفہ ہے اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ مقدرہ پر ہے۔ ای الم یتفکر الانسان ولم یعلم انا خلقنہ من نطفۃ۔ کیا انسان نے غور نہیں کیا اور نہیں جانا کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ہے۔ فاذا ھو : فاء تعقیب کا ہے اور اذا مفاجاتیہ ہے۔ سو وہ یکایک۔ خصم سے بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ بہت جھگڑا کرنے والا۔ کثیر المخاصمت، سخت جھگڑالو۔ اس کی جمع اخصام۔ خصمائ۔ خصمان ہے۔ مبین۔ اسم فاعل واحد مذکر، کھلا، صریح۔ ظاہر۔ ظاہر کرنے والا۔ ابانۃ (افعال) مصدر۔ بین مادہ ابواب : افعال (ابانۃ) تفعیل (تبیین) تفعل (تبین) سے لازم ومتعدی ہر دو طرح مستعمل ہے۔ یعنی ظاہر ہونا۔ ظاہر کرنا۔ فاذا ھو خصیم مبین (یعنی ہم نے اسے ایک حقیر بدبودار قطرہ منی سے پیدا کیا۔ (اور اب یہ اپنی وقعت کو یک لخت بھول کر) ایک صریح جھگڑالو بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔
Top