Asrar-ut-Tanzil - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے ان میں سے جس شخص نے گناہ میں جتنا حصہ لیا اس کے لئے اتنا وبال ہے اور جن نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا
(24:11) افک۔ الافک ہر وہ چیز جو اپنے صحیح رخ سے پھیر دی گئی ہو۔ اسی بنا پر ان ہوائوں کو جو اپنا اصل رخ چھوڑ دیں۔ مؤتفکۃ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے والمؤتفکۃ اھوی (53:53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے ٹپکا۔ (اس میں مؤتفکت سے مراد وہ بستیاں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا) ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے۔ یہاں اس سے مراد جھوٹ۔ بہتان۔ افترا پردازی ہے۔ افک یافک (ضرب) افک یافک (سمع) افک کسی شے کا اپنے اصل رخ سے پھرنا۔ عصبۃ منکم۔ عصبۃ جماعت۔ گروہ۔ یہ عصب سے ماخوذ ہے۔ العصب کے معنی بدن کے پٹھے جو جوڑوں کو تھامے ہوئے ہیں۔ لحم عصب بہت پٹھوں والا گوشت۔ پھر عام طور پر مضبوطی کے ساتھ باندھنے پر عصف کا لفظ بولا جاتا ہے العصبۃ وہ جماعت جس کے افراد ایک دوسرے کے ھامی اور مددگار ہوں۔ جیسے ونحن عصبۃ (12:8) حالانکہ ہم جماعت (کی جماعت ہیں) یعنی ہم باہم متفق ہیں اور ایک دوسرے کے یارومددگار تم میں سے ایک جماعت۔ تم میں سے ایک گروہ۔ عصبۃ منکم خبر ہے ان کی۔ لا تحسبوہ۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ تم اس کے متعلق خیال مت کرو۔ تم اس کے بارے میں گمان مت کرو۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب جس کا مرجع الافک ہے۔ شرا۔ برائی ۔ شر۔ خیر کی ضد ہے۔ لکم تمہارے لئے۔ لا تحسبوہ شرا لکم۔ تم اسے اپنے لئے برا مت خیال کرو۔ اس میں خطاب حضرت عائشہ ؓ اور آپ کے والدین اور رسول مقبول ﷺ وصفوان بن معطل سے ہے یا جملہ مومنین سے جو اس افترا سے رنجیدہ اور غمگین تھے۔ لکل امری منہم۔ ان میں سے ہر شخص کے لئے۔ اس میں ہم ضمیر کا مرجع وہ گروہ ہے جو اس افترا میں شریک تھا۔ ای من الذین جاؤا بالافک۔ تولی۔ اس نے اٹھایا۔ وہ متولی ہوا۔ تولی سے ماضی واحد مذکر غائب۔ کبرہ۔ اسم مصدر مضاف ہ مضاف الیہ۔ اس کی بڑی ذمہ داری۔ اس کا بڑا بوجھ والذی تولی کبرہ منہم۔ اور جس شخص نے ان میں سے اس افترا کا سب سے بڑا بوجھ اٹھایا۔ (یعنی سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا) یعنی عبداللہ بن ابی۔
Top