Tafseer-e-Baghwi - Al-Kahf : 28
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْ١ۚ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا
وَاصْبِرْ : اور روکے رکھو نَفْسَكَ : اپنا نفس (اپنا آپ) مَعَ : ساتھ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ : وہ لوگ جو پکارتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب بِالْغَدٰوةِ : صبح وَالْعَشِيِّ : اور شام يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَجْهَهٗ : اس کا چہرہ (رضا) وَلَا تَعْدُ : نہ دوڑیں، نہ پھریں عَيْنٰكَ : تمہاری آنکھیں عَنْهُمْ : ان سے تُرِيْدُ : تم طلبگار ہوجاؤ زِيْنَةَ : آرائش الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَلَا تُطِعْ : اور کہا نہ مانو مَنْ : جو۔ جس اَغْفَلْنَا : ہم نے غافل کردیا قَلْبَهٗ : اس کا دل عَنْ : سے ذِكْرِنَا : اپنا ذکر وَاتَّبَعَ : اور پیچھے پڑگیا هَوٰىهُ : اپنی خواہش وَكَانَ : اور ہے اَمْرُهٗ : اس کا کام فُرُطًا : حد سے بڑھا ہوا
اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اسکی خوشنودی کے طالب ہیں ان کے ساتھ صبر کرتے رہو اور تمہاری نگاہیں ان میں سے (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائش زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا
واصبر نفسک کا شان نزول تفسیر 28 ۔ ” واصبر نفسک “ اس آیت مذکورہ کا نزول عیینہ بن حصن فزاری کے حق میں ہوا۔ یہ اسلام لانے کے بعد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت کچھ نادار مسلمان خدمت گرامی میں بیٹھے ہوئے تھے جن میں سلمان فارسی بھی تھے۔ حضرت سلمان ؓ ایک چھوٹی سی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور آپ کو پسینہ بھی آ رہا تھا۔ عیینہ بولا محمد (ﷺ) کیا آپ کو ان لوگوں کی بدبو سے دکھ نہیں پہنچتا۔ ہم قبائل مضر کے سردار اور بڑے لوگ ہیں، اگر ہم مسلمان ہوگئے تو سب لوگ مسلمان ہوجائیں گے لیکن ہم کو آپ کی اتباع کرنے سے ایسے لوگوں کی آپ کے پاس موجودگی روکتی ہے ان کو آپ ہٹا دیں تو ہم آپ کا اتباع کرنے لگیں گے یا ہمارے لیے ان سے الگ کوئی بیٹھنے کی جگہ مقرر کردیں اور ن کی مجلس ہم سے جدا کردیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ” واصبر نفسک “ اے محمد ! (ﷺ) آپ اپنے نفس کو ان سے روکے رکھیے۔ ” مع الذین یدعون ربھم بالغداۃ والعشی “ اس سے دن کے اطراف مراد ہیں۔ ” یریدون وجھہ “ یہ لوگ جو آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں یہ صرف اللہ کو چاہتے ہیں نہ کہ دنیاوی زندگی میں سے کچھ حصہ۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس کا نزول اصحاب صفہ کے بارے میں ہوا جن کی تعداد سات سو تھی۔ یہ سب نادار لوگ تھے اور رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں فروکش تھے، نہ کسی کی کھیتی تھی اور نہ ہی دودھ کے جانور نہ کوئی تجارت، نمازیں پڑھتے رہتے تھے، ایک وقت کی نماز پڑھ کر دوسری نماز کے انتظار میں رہتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ستائش ہے اس اللہ کے لیے جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا کردیئے جن کی معیت میں مجھے جمے رہنے کا حکم دیا۔ ” ولاتعد “ نہ ان سے پھیریئے اور نہ ہی تجاوز کیجئے۔” عیناک عنھم “ اپنے غیر کی طرف سے۔ ” تردید زینۃ الحیاۃ الدنیا “ دولت مندوں کے ساتھ بیٹھنے اور مال دار دنیا داروں کی مصاحبت اختیار کرنے کے لیے تم ہمہ وقت اللہ کا ذکر کرنے والے (نادار) لوگوں سے آنکھیں پھیر لو، ایسا نہ کرو۔ ” ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا “ ہم نے ان کے دلوں کو ذکر کرنے سے غافل کردیا۔ اس سے مراد عیینہ بن حصن ہے۔ بعض نے کہا کہ امیہ بن خلف ہے۔ ” واتبع ھواہ “ ان کے مراد صرف اپنی خواہشات کا حصول ہے۔ ” وکان امرہ فرطاً “ فرطاً کی تفسیر قیادہ اور مجاہد کا قول ہے کہ اس کا معنی ضیاعاً ہے یعنی ضائع شدہ کیا ہے اور بعض نے کہا کہ اس کا امر ضائع ہوگیا اور زندگی کے دن رائیگاں گئے۔ بعض نے فرطاً کا معنی ندامت بیان کیا ہے۔ مقاتل ابن حیان کا قول ہے کہ بیکار چھوڑا ہوا۔ فراء نے ان کا ترجمہ کیا ہے چھوڑا ہوا اور بعض نے اس کا ترجمہ باطل سے کیا ہے اور بعض نے کہا کہ اس کا معنی ہے مخالف حق۔ اخفش کا قول ہے کہ حد سے آگے بڑھا ہوا۔ بعض نے کہا کہ حد میں تجاوز کرنا، یہ قول عیینہ کا ہے کہ اگر ہم اسلام لے آئے تو ہمارے سب لوگ اسلام لے آئیں گے، اس کو افراط کہتے ہیں۔
Top