Baseerat-e-Quran - An-Noor : 30
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
قُلْ : آپ فرما دیں لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومون مردوں کو يَغُضُّوْا : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظُوْا : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں ذٰلِكَ : یہ اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : باخبر ہے بِمَا : اس سے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
(اے نبی ﷺ آپ مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اس میں ان کے لئے بڑی پاکیزگی ہے۔ بیشک اللہ اس سے (اچھی طرح) واقف ہے جو وہ کرتے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 30 تا 31 : یغضوا (نیچے رکھیں) فروج (فرج) شرم گاہیں) ‘ لایبدین (ظاہر نہ کرے) ‘ ظھر (کھلا رہتا ہے) ‘ خمر (دوپٹے۔ اوڑھنیاں) ‘ جیوب (سینے) بعولۃ (شوہر) ابنائ (بیٹے) اخوان (اخ) بھائی ‘ نسائ (عورتیں) ملکت ایمان (دائیں ہاتھ کی ملکیت ۔ باندیاں) ‘ تابعین (پیچھے چلنے والے) ‘ غیر اولی الاربۃ (جوعورتوں سے کام نہیں رکھتے) ‘ لم یظھروا ( واقف نہیں ہوئے) عورت (چھپانے کی چیز) لا یضربن (نہ مارے) ‘ تو بوا (توبہ کرو) ‘ تشریح : آیت نمبر 30 تا 31 : دین اسلام نے ایک ایسے صاف ستھرے ‘ پاکیزہ اور تقویٰ سے بھر پور معاشرہ کا تصور عطا فرمایا ہے۔ جس میں ہر شخص ایک دوسرے کی جان ‘ مال ‘ عزت اور آبرو کا محافظ ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں ہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچنے کا عظیم جذبہ موجزن ہوتا ہے جس سے ہر شخص اطمینان و سکون کی زندگی بسر کرتا ہے۔ قرآن کریم اور سنت رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ بڑے بڑے گناہ ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہوتے ہیں۔ اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں احتیاط برتی جائے تو انسان ہر بڑے گناہ سے بچ سکتا ہے۔ ان آیات میں نامحرموں پر بری نظر ڈالنا اس بڑے گناہ کی ابتدا ہے جس سے دنیا اور آخرت تباہ و برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کسی نامحرم کے چہرے پر نگاہیں ڈالنے اور اس میں احتیاط نہ کرنے سے انسان بدکاری میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ اسی لئے غیر ارادی طور پر اگر کوئی نظر پڑجائے تو پہلی نظر معاف ہے لیکن ارادہ کرکے دوسری مرتبہ نامحرموں کے چہرے پر نگاہ ڈالنا جائز نہیں ہے۔ ایسے موقعوں پر اہل ایمان کو اپنی نظریں پھیر لینی چاہئیں۔ نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے نظر شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جو شخص خواہش اور دلی تقاضے کے باوجود اپنی نظر پھیر لے گا تو میں اس کے بدلے میں اس کو ایک ایسا مضبوط ایمان عطا کروں گا جس کی حلاوت اور لذت کو وہ اپنے قلب میں محسوس کرسکے گا۔ (ابن کثیر) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مردوں کو ان کی ذمہ داریوں پر آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ (1) وہ اپنی نظروں کو نیچے رکھیں (2) اور اپنے ستر ڈھانپ کررکھیں۔ مراد یہ ہے کہ جب مردوں اور عورتوں کا سامنا ہو تو مرد اپنی نظروں کو نیچے رکھیں۔ اگر مرد کی نگاہ کسی نامحرم پر پڑجائے تو وہ اس کو فوراً چہرے سے ہٹا لے اور ارادہ کر کے دوبارہ نہ دیکھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مردوں کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہے ( بیقی۔ دارقطنی) ستر کو اپنی بیوی کے علاوہ کسی کے سامنے کھولنے کی کی اجازت نہیں ہے۔ اسلامی معاشرہ میں جہاں مردوں کی یہ ذمہ داریاں ہیں وہیں عورتوں سے اس سے بھی زیادہ باتوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ (1) پہلی بات یہ ہے کہ جس طرح مردوں کونا محرم عورتوں پر نگاہ ڈالنا جائز نہیں ہے اسی طرح عورتوں کو بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نامحرموں پر نہ ڈالیں۔ چناچہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں۔ اسی وقت نا بینا صحابی حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم ؓ بھی آگئے۔ آپ نے دونوں ازواج مطہرات سے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو بیویوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ نا بینا نہیں ہیں ؟ یہ نہ تو ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ پہچان سکتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا عبد اللہ تو نا بینا ہیں لیکن تم تو نا بینا نہیں ہو ؟ کیا تم ان کو نہیں دیکھتیں ؟ حضرت ام سلمہ نے فرمایا کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب پردے کے احکامات آچکے تھے ۔ (ترمذی۔ ابو دائود۔ مسند احمد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح مردوں کو نامحرموں پر نگاہ ڈالنے کی ممانعت ہے سی طرح عورتوں کے لئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ نا محرموں پر نگاہیں دوڑائیں۔ (2) دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ سوائے شوہر کے اپنے چھپے ہوئے اعضاء کی حفاظت کریں۔ کسی کے سامنے ان اعضاء کو کھولنے اور ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ (3) تیسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زینت کی کسی چیز کو بھی ظاہر نہ ہونے دیں۔ البتہ کام کاج میں یا نقل و حرکت میں عادتاً جو اعضاء کھل جاتے ہیں جیسے چہرہ ‘ ہتھیلیاں ‘ بازو اور پاؤں وغیرہ تو محرموں کے سامنے ان کا کھولنا جائز ہے۔ یا باہر نکلتے وقت ہاتھ ‘ پاؤں اور چہرہ جو ہوا سے یا غفلت سے کھل جاتا ہے وہ جائز ہے۔ اصل یہ ہے کہ عورتیں ہر وقت اوڑھنیوں اور دو پٹوں سے اپنی زینت کو چھپائے رہیں۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ اپنے سینوں پر دو پٹوں کا آنچل ڈالے رکھیں۔ (جن سے سینہ ‘ کان اور بال ڈھکے رہیں) زمانہ جاہلیت میں عورتیں اپنی زینت کو چھپانے کے لئے نہیں بلکہ فیشن کے طور پر دوپٹہ گلے میں اس طرح ڈال لیتی تھیں کہ دو پٹے کے دونوں کنارے اپنی پشت پر چھڑ دیا کرتی تھیں جن سے گلا ‘ سینہ ‘ کان اور بال کھلے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان خواتین کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں بلکہ دو پٹے یا چادر کے دونوں پلو ایک دوسرے پر اس طرح الٹ لیا کریں جس سے زینت کے تمام اعضاء چھپ جائیں۔ (4) چوتھا حکم یہ دیا ہے کہ بعض وہ رشتے ہیں جن سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام ہے ان کو محرم کہا جاتا ہے۔ محرموں کے سامنے ستر کھولنے یا ظاہر کرنے تو اجازت نہیں ہے لیکن بقیہ جسم پر نگاہ ڈالنے کی ممانعت نہیں ہے۔ اگر محرموں کے سامنے ہاتھ ‘ بازو ‘ پاؤں ‘ ہتھیلیاں کھلی رہیں تو وہ جائز ہے۔ سوائے شوہر کے کسی کے سامنے ستر کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔ شوہر سے بیوی کے کسی عضو کا پردہ نہیں ہے بقیہ محارم میں مندرجہ ذیل لوگ شامل ہیں۔ (1) باپ ‘ دادا ‘ پردادا ‘ نانا ‘ پرنانا (2) سسر اور ان کے باپ دادا (3) اپنے لڑکے جو اپنی اولاد ہیں۔ ان میں پوتے ‘ نواسے سب شامل ہیں۔ (4) شوہر کے وہ لڑکے جو کسی دوسری بیوی سے ہوں یعنی سوتیلے بیٹے ‘ پوتے ‘ نواسے (5) اپنے سگے بھائی ‘ باپ شریک بھائی یا ماں شریک بھائی (6) بھائیوں کے لڑکے (بھتیجے ) حقیقی بھائی یا ماں یا باپ شریک بھائیوں کے بیٹے (7) بہنوں کے لڑکے (بھانجے) اس میں حقیقی ماں یا باپ شریک بہنوں کے لڑکے مراد ہیں ۔ یہ مذکورہ سب کے سب پردے اور حجاب کے احکامات سے مستثنیٰ ہیں۔ مگر ستر اس سے بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ (ان رشتوں کی بقیہ تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے) (پانچواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ لونڈی اور غلام سے بھی پردہ نہیں ہے۔ دین اسلام کی برکت سے اب دنیا میں لونڈی اور غلام کا وجود نہیں ہے۔ لیکن جب یہ آیات نازل ہوئی تھیں اس وقت تک لونڈی ‘ غلام کارواج تھا اسی لئے ان کے احکامات کو بیان کیا گیا ہے۔ (6) چھٹا حکم ان لوگوں کے سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے جو عورتوں سے یا ان کی پوشیدہ باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے جو محض کھانے پینے کے واسطے طفیلی کے طور پر گھروں میں آتے جاتے ہیں ان سے بھی پردہ نہیں ہے۔ (7) ساتواں حکم دیا گیا ہے کہ عورتیں عورتوں سے پردہ نہ کریں یعنی ان کے لئے پردے کی پابندی نہیں ہے۔ (8) آٹھواں حکم ان نا بالغ بچوں کے لئے دیا گیا ہے کہ ان سے بھی پردہ نہیں ہے جو لڑکے ابھی تک ان باتوں سے ناواقف ہیں جو مردوں اور عورتوں کے چھپے ہوئے بھید ہیں۔ لیکن فقہا نے لکھا ہے کہ اگر نابالغ لڑکے بھی عورتوں مردوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہوں تو ان سے بھی پردہ کیا جائے گا۔ (9) نواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے پاؤں یا ان میں پہنے ہوئے زیور یا جوتوں کو اتنی زور سے نہ چھنکائیں جن سے خواہ مخواہ بھی غیر مرد متوجہ ہوجائیں اور برائیکا دروازہ کھل جائے۔ (10) دسواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ جو بھی صاحبان ایمان ہیں وہ اگر حقیقی فلاح اور کامیابی چاہتے ہیں تو ان کو ہر وقت اللہ سے توبہ کرتے رہنا چاہیے۔ ان احکامات کے علاوہ نبی کریم ﷺ کی احادیث سے چند اور بھی احکامات سامنے آتے ہیں جن کی پابندی کرنا ہر مسلم خاتون کی ذمہ داری ہے۔ مثلا وہ خوشبو لگا کر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ ایسے بھڑک دار ‘ چست اور خوبصورت برقعے استعمال نہ کریں جن سے دیکھنے والے خواہ مخواہ بھی متوجہ ہوجائیں اور گناہ گار ہوں۔ اسی طرح اتنا باریک لباس نہ پہنیں جس سے جسم جھلکتا ہو۔ وہ اپنی آواز کا بھی پردہ رکھیں کیونکہ عورت کی آواز سے بھی اکثر فتنے جنم لیتے ہیں۔ یقیناً جو مرد اور خواتین مذکورہ قوانین کی پابندی کریں گے وہی دنیا اور آخرت کی حقیقی کامیابی حاصل کرسکیں گے۔
Top