Bayan-ul-Quran - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے فرمایا کہ میں (اس سفر میں) برابر چلا جاؤں گا یہاں تک کہ اس موقع پر پہنچ جاؤں جہاں دو دریا آپس میں ملے ہوں یا یوں ہی زمانہ دراز تک چلتا رہوں گا۔ (ف 5)
5۔ وجہ اس سفر کی یہ ہوئی تھی کہ ایک بار موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل میں وعظ فرمایا تو کسی نے پوچھا کہ اس وقت آدمیوں میں سب سے بڑا عالم کون شخص ہے۔ آپ نے فرمایا میں۔ مطلب یہ تھا کہ ان علوم میں کہ جن کو قرب الی اللہ کی تحصیل میں دخل ہے میرے برابر کوئی نہیں۔ اور یہ فرمانا صحیح تھا، لیکن چونکہ ظاہرا لفظ مطلق تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ آپ کو احتیاط فی الکلام کی تعلیم دی جائے، ارشاد ہوا کہ مجمع البحرین میں ایک بندہ ہمارا تم سے بھی زیادہ علم رکھتا ہے، مطلب یہ تھا کہ بعض علوم میں وہ زیادہ ہے، گو ان علوم کو قرب الہی میں دخل نہہو، لیکن اس بناء پر جواب میں مطلقا تو اپنے کو اعلم نہ کہنا چاہئے تھا۔ غرض موسیٰ (علیہ السلام) ان کے ملنے کے مشتاق ہوئے، اور پوچھا کہ ان تک پہنچنے کی کیا صورت ہے، ارشاد ہوا کہ ایک بےجان مچھلی اپنے ساتھ لیکر سفر کرو، جہاں وہ مچھلی گم ہوجاوے وہ شخص وہاں ہے۔
Top