Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ
: بیشک جو لوگ
جَآءُوْ بالْاِفْكِ
: بڑا بہتان لائے
عُصْبَةٌ
: ایک جماعت
مِّنْكُمْ
: تم میں سے
لَا تَحْسَبُوْهُ
: تم اسے گمان نہ کرو
شَرًّا
: برا
لَّكُمْ
: اپنے لیے
بَلْ هُوَ
: بلکہ وہ
خَيْرٌ لَّكُمْ
: بہتر ہے تمہارے لیے
لِكُلِّ امْرِۍ
: ہر ایک ٓدمی کے لیے
مِّنْهُمْ
: ان میں سے
مَّا اكْتَسَبَ
: جو اس نے کمایا (کیا)
مِنَ الْاِثْمِ
: گناہ سے
وَالَّذِيْ
: اور وہ جس
تَوَلّٰى
: اٹھایا
كِبْرَهٗ
: بڑا اس کا
مِنْهُمْ
: ان میں سے
لَهٗ
: اس کے لیے
عَذَابٌ
: عذاب
عَظِيْمٌ
: بڑا
بلاشبہ جو لوگ تہمت لے کر آئے یہ تم میں سے ایک جماعت ہے، تم اسے اپنے لیے شر نہ سمجھو، بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے، ان میں سے ہر شخص کے لیے گناہ کا وہ حصہ ہے جو اس نے کمایا، اور ان میں سے جس شخص نے بڑا حصہ لیا اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔
واقعہ افک کی تفصیل۔ 1۔ عبدالرزاق واحمد والبخاری وعبد بن حمید ومسلم وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی فی الشعب عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو اپنی بیویوں میں قرعہ اندازی کرتے تھے جس بیوی کا نام نکل آتا تو اس کو اپنے ساتھ لے جاتے چناچہ ایک جہاد پر آپ تشریف لے جانے لگے تو حسب معمول قرعہ اندازی میں میرا نام نکل آیا ! مجھے آپ نے اپنے ساتھ لے لیا یہ واقعہ آیت پردہ نازل ہونے کے بعد کا ہے میں ہودج میں سوار ہوئی میرا ہودج اٹھار کر ہی اونٹ پر رکھا جاتا تھا اور نیچے اتارا جاتا تھا مجھے باہر نکلنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی اس طرح ہم مدینے سے چلدئیے جب جہاد سے فارغ ہو کر واپس ہوئے اور مدینے کے قریب پہنچ کر ایک جگہ اترے رات کو کوچ کرنے کا آغاز ہوا میں رفع ضرورت کو جانے کے لیے اٹھی اور چل کر لشکر سے آگے نکل گئی ضرورت سے فارغ ہو کر جب اپنے مقام پر پہنچی اور سینہ کو ٹٹولا تو عقیق یمنی کا جو ہار میں پہنے ہوئے تھی وہ ٹوٹ کر کہیں گرگیا میں ہار کو ڈھونڈنے کے لیے فورا لوٹ پڑی ہار کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی میرے ہودج کو اٹھاکر اونٹ پر رکھنے والے لوگ آئے اور یہ خیال کر کے کہ میں ہودج کے اندر ہوں خالی ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں بھاری نہیں ہوتی تھیں ان پر گوشت نہیں چڑھا ہوتا تھا کھانا تھوڑا کھاتی تھیں اس لیے لوگوں نے ہودج کی خفت محسوس نہیں کی پھر میں تو کم سن لڑکی ہی تھی۔ انہوں نے ہودج کو اونٹ پر لاد دیا اونٹ کو کھڑا کر کے چلد ئیے لشکر کے روانہ ہونے کے بعد مجھے ہار مل گیا پڑاؤ پر واپس آئی تو وہاں کوئی بھی نہ تھا پڑاؤ بالکل خالی تھا مجبورا میں اپنی فروگاہ پہ ہی رک گئی اور خیال کیا کہ جب لوگ مجھے نہ پائیں گے تو لوٹ کر ضرور آئیں گے اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے مجھے نیند آگئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی ذکوانی نے لشکر سے پیچھے بہت دور قیام کیا تھا (کیونکہ لشکر کی کوئی گر پیڑی چیز تلاش کرنے اور نگرانی رکھنے پر ان کو مامور کیا گیا تھا) وہ رات کے آخری حصہ میں اپنی فرود گاہ سے حسب الحکم روانہ ہوئے اور صبح کو میری فرود گاہ پر پہنچ گئے انہوں نے دیکھا کہ کوئی سو رہا ہے دیکھتے ہی مجھے پہچان لیا کیونکہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا مجھ دیکھ کر انہوں نے ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ پڑھا میں ان کے پڑھنے کی آواز سے بیدار ہوگئی اور اپنا چہرہ چادر سے ڈھانک لیا خدا کی قسم انہوں نے مجھ سے کوئی بات ہی نہیں کی اور سوائے انا للہ وانا الیہ راجعون کے اور کوئی لفظ میں نے ان سے نہیں سنا اپنی اونٹنی انہوں نے میرے پاس لا کر بٹھادی اور اس کا دھنگنا باندھ لیا میں اٹھ کر اونٹنی پر سوار ہوگئی اور وہ مہار پکڑے ہوئے آگے آگے چلتے رہے ہمارا لشکر ٹھیک دوپہر کے وقت ایک جگہ ٹھہر گیا تھا میں اس طرح لشکر تک پہنچ گئی میرے معاملہ میں جس تہمت تراش کو ہلاک ہونا وہ اغلط افواہیں پھیلا کر ہلاک ہوگیا۔ اس تہمت تراشی کا سب سے بڑا ذمہ دار عبداللہ بن ابی بن سلول تھا میں مدینے پہنچ کر بیمار ہوگئی اور ایک مہینہ بیمار رہی لوگ الزام راشی کی باتوں میں مشغول تھے بیماری کے زمانے میں مجھے پتہ نہیں تھا صرف یہ بات میرے لیے ضرور پریشان کن اور شبہ پیدا کرنے والی تھی کہ رسول اللہ ﷺ کا وہ التفات میری طرف نہ تھا جو میری بیماری میں پہلے ہوا کرتا تھا بس اتنی بات ہوتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ حسب معمول آتے اور سلام علیک کرتے اور فرماتے تم لوگ کیسے ہو پھر واپس چلے جاتے اس سے مجھے شبہ ہوتا پریشانی ہوتی لیکن راز کا پتہ نہ تھا جب میں اچھی ہوگئی مگر کمزور تھی تو ایک رات کو ام مسطح کو ساتھ لے کر میں مناصع کی طرف جانے کے لیے نکلی پہلے ہمارے گھروں کے پاس بیت الخلاء بنے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔ رفع ضرورت کے لیے رات کو ہم جنگل کی طرف عربوں کے پہلے رواج کے مطابق جایا کرتے تھے ہم کو گھروں کے قریب ٹٹیاں بنانے سے بدبو سے ایذا ہوتی تھی (مسطح کی ابو دہم بن عبد مناف کی بیٹی تھی اور مسطح کی نانی صخر بن عامر کی بیٹی تھی صخر کی بیٹی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خالہ تھی اور کا مسطح بن اثاثہ تھا غرض میں اور ام مسطح دونوں ساتھ ساتھ ضرورت سے فارغ ہو کر گھر کی طرف کو لوٹ ام مسطح کا پاؤں چادر میں الجھ گیا اور اس نے ٹھوکر کھائی گرتے ہی اس کے منہ سے نکلا مسطح مرے میں نے کہا تم نے یہ بہت بری بات کہی کیا تم ایسے شخص کو کوس رہی ہو جو بدر میں شریک تھا ام مسطح نے کہ بیٹی کیا تم نے اس کی بات نہیں سنی ؟ میں نے کہا اس نے کیا کہا اس پر ام مسطح نے مجھے تہمت تراشوں کی کہی ہوئی بات بتائی اس بات کو سن کر میری بیماری اور بڑھ گئی جب گھر لوٹ کر آئی اور رسول اللہ ﷺ حسب معمول تشریف لائے اور دریافت کیا آپ لوگ کیسے ہیں تو میں نے کہا کیا آپ کی اجازت ہے میں اپنے والدین کے گھر جانا چاہتی ہوں۔ میرا خیال تھا کہ مجھے یقینی خبر ماں باپ سے مل جائے گی۔ آپ نے اجازت دیدی میں والدین کے گھر پہنچی اور اپنی والدہ سے پوچھا اماں لوگ یہ کیا باتیں کر رہے ہیں والدہ نے کہا بیٹا تم اس کا رنج نہ کرو جب کوئی عورت کسی شوہر کی نظر میں چمکیلی ہوتی ہے اور شوہر اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوتی ہیں تو سوکنیں اس کے خلاف بڑی بڑی باتیں بتاتی ہیں میں نے کہا سبحان اللہ لوگ یہ باتیں کہہ رہے ہیں میں اس خبر کو سن کر رات بھر روتی رہی صبح تک نہ میرا آنسو تھما نہ نیند آئی پھر صبح کو بھی روتی رہی۔ ادھر رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید کو مشورہ کے لیے بلایا کیونکہ وحی آنے میں دیر ہوگئی تھی (مدت سے وحی نہیں آئی تھی) اسامہ رسول اللہ ﷺ کی بیوی کی پاک دامنی سے واقف تھے انہوں نے پاک دامن ہونے کا ہی مشورہ دیا۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ اسامہ کے دل میں رسول اللہ ﷺ کے گھروالوں کی محبت تھی اس کے مطابق انہوں نے مشورہ دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ وہ آپ کی بیوی ہیں اور ہم تو ان کو اچھا ہی جانتے ہیں لیکن علی نے کہا آپ کے لیے اللہ نے کوئی تنگی نہیں رکھی ان کے علاوہ بہت عورتیں ہیں۔ آپ خادمہ سے دریافت کریں وہ سچ سچ کہہ دے گی رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا کیا تو نے عائشہ ؓ کی کوئی ایسی حرکت دیکھی ہے جس سے تیرے دل میں کچھ شک گزراہو بریرہ نے کہا قسم ہے اس کی جس نے آپ کو برحق نبی بناکر بھیجا ہے میں نے عائشہ ؓ کی کوئی بات ایسی نہیں دیکھی کہ میں نکتہ چینی کرسکوں ہاں بس اتنی بات ضرور ہے کہ وہ چونکہ کم سن لڑکی ہے سو جاتی ہے آٹا گوندھا ہوا رکھا رہتا ہے بکری آتی ہے اس کو کھاجاتی ہے۔ ان تحقیقات کے بعد رسول اللہ منبر پر تشریف لے گئے اور عبداللہ بن بی کی طرف سے معذرت پیش کرنے کے خواستگار ہوئے اور فرمایا کہ اے گروہ اہل اسلام میرے گھروالوں کے معاملہ میں عبداللہ بن ابی کی ذات سے مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے کیا کوئی اس کی طرف سے میرے سامنے کوئی عذر پیش کرسکتا ہے ؟ خدا کی قسم مجھے اپنی بیوی کے متعلق کوئی بری بات نہیں معلوم ہوئی اچھائی ہی معلوم ہوئی ہے لوگ ایک ایسے آدمی کا نام لے رہے ہیں جس کے اندر مجھے کوئی برائی معلوم نہیں ہے وہ اچھا ہی ہے اور وہ میرے گھر کے اندر میرے ساتھ ہی جاتا ہے تنہا نہیں جاتا۔ یہ سن کر سعد بن عماذ انصار کھڑے ہوئیا ور عرض کیا یارسول اللہ اگر آپ کی طرف سے تہمت تراش کو کچھ دکھ پہنچ جائے تو میں آپ کو معذور جانتا ہوں اگر وہ اوس کے قبیلہ میں تو میں اس کی گردن اڑادوں گا اور اگر ہمارے خزرجی بھائیوں میں سے ہے تو آپ جو حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے یہ بات سن کر قبیلہ خزرج کا ایک شخص اٹھ کھڑا حسان کی ماں اس شخص کے چچا کی بیٹی تھی یعنی سعد بن عبادہ سردار خزرج کھڑے ہوئے پہلی یہ نیک آدمی تھے لیکن قبیلہ کی حمیت ان پر سوار ہوگئی اور سعد بن معاذ سے کہنے لگے خدا کی قسم تم نے جھوٹ کہا تم نہ اس کو قتل کرو گے نہ اس کق تل کرنے کی تم میں ہمت ہے اور اگر تمہارے قبیلہ والوں میں وہ ہوتا تو میرے خیال میں تم اس کو قتل کرنے کا ارادہ ہی نہ کرتے اس پر سعد بن معاذ کے چچازاد بھائی اسید بن حضیر نے سعد بن عبادہ سے کہا تم نے خدا کی قسم جھوٹ کہا ہم اس کو ضرور بالضرور قتل کریں گے تم یقیناً منافق ہو منافقوں کی طرف سے لڑتے ہو اس کے بعد اوس و خزرج دونوں قبیلے جوش میں آگئے قریب تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں رسول اللہ ﷺ منبر پر موجود تھے آپ سب کو ٹھنڈا کر رہے تھے آخر سب خاموش ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا میں اس روز بھی دن بھر روتی رہی اور رات بھر بھی میرا آنسو تھما نہ نیند آئی والدین کو اندیشہ ہوگیا کہ روتے روتے میرا جگر پھٹ جائے گا دونوں حضرات میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں رو رہی تھی کہ ایک انآری عورت نے اندر آنے کی اجازت طلب کی میں نے اجازت دے دی وہ آکر بیٹھ گئی اور میرے ساتھ رونے لگی کچھ دیر کے بعد رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے اس سے پہلے جب سے میرے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہوئی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ میرے پاس نہیں بیٹھے تھیا ور ایک مہینہ کا وقفہ گزر چکا تھا اس عرصہ میں میرے معاملے کے متعلق کوئی وحی بھی نہیں آئی تھی بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ نے اول کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا عائشہ ؓ مجھے تیرے متعلق ایسی ایسی خبریں پہنچی ہیں اگر تو ان سے پاک ہے تو اللہ تیری پاکی ظاہر فرمادے گا اور اگر تو اتفاقا کسی گناہ میں مبتلا ہوگئی ہے تو اللہ سے توبہ استغفار کر بندہ جب گناہ کا اقرار کرلیتا ہے اور معافی کا طلبگار ہوتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے جب رسول اللہ ﷺ اپنی بات پوری کرچکے تو میرے آنسو تھم گئے کہ ایک قطرہ بھی نکلتا مجھے محسوس نہ ہوا پھر میں نے اپنے اپنے والد سے کہا رسول اللہ ﷺ کی بات کا جواب دیجئے والد نے کہا خدا کی قسم مجھے کوئی جواب معلوم نہیں کیا جواب دوں پھر میں نے اپنی والدہ سے یہی بات کہی کہ آپ جواب دیجئے انہوں نے بھی والد کی طرح یہی کہا کہ میں کیا کہوں مجھے مجھے کوئی جواب معلوم نہیں آخر میں نے خود کہا اس وقت میں نو عمر لڑکی تھی زیادہ قرآن بھی نہیں پڑھا تھا، خدا کی قسم میں جان گئی کہ تم لوگوں نے یہ بات سن کر اپنے دلوں میں جما لی ہے اور اس کو سچ ماننے لگے ہو اب اگر میں کہوں کہ میں اس سے پاک ہوں اور خدا جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو تم مجھے سچا نہ جانوگے اور اگر میں تمہارے سامنے اقرار کرلوں اور خدا جانتا ہے کہ میں اس فعل سے پاک ہوں تو تم مجھے سچا سمجھو گے (اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتی) مجھے اپنی اور تمہارے حالت کی سوائے اس کے اور کوئی مثال نہیں ملتی جو یوسف کے باپ نے کہا تھا آیت ” فصبر جمیل۔ واللہ المستعان علی ماتصفون “ (پس میں بھی یہی کہتی ہوں) یہ کہنے کے بعد میں نے منہ موڑ لیا اور بستر پر لیٹ گئی میں یہ تو جانتی تھی کہ چونکہ میں پاک ہوں اللہ ضرور میری پاکی کا اظہار فرمادے گا لیکن میرا یہ گمان بھی نہ تھا کہ میرے معاملے میں اللہ کوئی ایسی وحی نازل فرمائے گا جو ہمیشہ قرآن میں پڑھی جائے گی میرے دل میں میری حالت اس قابل نہ تھی کہ اللہ اس کے سلسلہ میں اپنا کلام نازل فرمایا جو ہمیشہ پڑھا جائے گا مجھے تو یہ امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کی طرف سے میری پاک دامنی کا کوئی خواب دکھا دیا جائے گا۔ خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے ہٹے بھی نہ تھے اور نہ کوئی گھر والا باہر نکلا تھا کہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ پر وحی نازل فرمادی اور نزول وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ پر جو کیفیت طاری ہوتی تھی وہ ہونے لگی سخت سردی کے زمانے میں نزول وحی کے وقت چاندی کے موتیوں جیسے پسینے کے قطرے آپ کی پیشانی مبارک سے ٹپکنے لگتے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ حالت دور ہوئی تو آپ نے ہنستے ہوئے جو الفاظ مبارک سب سے پہلے اپنے منہ سے نکالے وہ یہ تھے عائشہ خوش ہوجاؤ اللہ تعالیٰ نے تیری پاکدامنی کا اظہار کردیا میری ماں نے کہا اٹھ کر رسول اللہ کے پاس جاؤ میں نے کہا خدا کی قسم ! میں نہ اٹھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤں گی نہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا شکر ادا کروں گی اللہ نے میری پاکی ظاہر فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آیت ” ان الذین جاء و بالافک عصبۃ منکم “ ساری دس آیات جب اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو میری براءت میں نازل فرمایا تو ابوبکر ؓ نے فرمایا اور وہ مسطح بن اثاثہ پر ان کی قرابت اور ان کی غربت کی وجہ سے خرچ کیا کرتے تھے کہ اب وہ اللہ کی قسم مسطح پر کبھی بھی خرچ نہیں کریں گے بعد اس کے کہ اس نے عائشہ ؓ کے بارے میں جو کچھ کہا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ” ولا یأتل اولو الفضل منکم والسعۃ ان یؤتو و اولی القربی والمسکین “ نازل فرمائی یہاں سے لے کر الرحیم تک۔ یہ آیت سن کر حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم میں محبوب رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمادے تو حضرت مسطح پر پہلے جو مال خرچ کرتے تھے دوبارہ شروع کردیا۔ اور فرمایا اللہ کی قسم میں اس خرچ کرنے کو کبھی نہیں روکوں گا عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے زینب بنت جحش سے میرے معاملے میں پوچھا اور فرمایا اے زینت تو کیا جانتی ہے یا تو نے کچھ دیکھا ہے تو اس نے کہا یارسول اللہ میرے کان اور آنکھ نہ رہے میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتی عائشہ رضیا للہ عنہا نے فرمایا کہ یہ وہ عورت تھی جو نبی ﷺ کی بیویوں میں سے مجھے اختیار کرتی تھی (یعنی مجھے ترجیح دیتی تھی) اللہ تعالیٰ نے اس کی پرہیزگاری کے ساتھ حفاظت فرمائی اور اس کی بہن حمنہ نے اس کے لیے آپس میں لڑائی شروع کی (یعنی عائشہ ؓ کے بارے میں غلط باتیں کیں) اور وہ ہلاک ہوئی ان باتوں میں کہ جن میں تہمت لگانے والے ہلاک ہوئے۔ 2۔ البخاری والترمذی وابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے روایت کیا کہ عائشہ ؓ نے فرمایا جب میرے بارے میں باتیں کی گئیں جن کا مجھے علم نہ تھا رسول اللہ ﷺ میرے بارے میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان فرمائی پھر فرمایا اما بعد ! ان لوگوں کے بارے میں مجھے مشورہ دو جنہوں نے میرے گھروالوں پر تہمت لگائی اللہ کی قسم میں اپنے گھروالوں کے بارے میں کسی برائی کو نہیں جانتا اللہ کی قسم میں نے ہرگز ان پر برائی کو نہیں جانا وہ میرے گھر میں اس وقت داخل ہوا جب میں اپنے گھر میں موجود تھا وہ سفر میں غائب نہیں ہوا مگر میرے ساتھ ہی غائب ہوا۔ سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور کہا یارسول اللہ مجھے اجازت دو کہ میں ان کی گردنیں ماردوں اور ایک آدمی بنی خزرج سے کھڑا ہوا اور حسان بن ثابت ؓ کی ماں بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اس نے کہا تو نے جھوٹ کہا اللہ کی قسم اگر وہ لوگ اوس میں سے ہوتے تو تو ان کی گردنیں نہیں اڑاتا یہاں تک کہ قریب تھا اوس اور خزرج کے درمیان مسجد کے اطراف میں لڑائی چھڑ جاتی۔ جب اس دن شام کا وقت تھا میں اپنی طبعی حاجت کے لیے باہر نکلی اور میرے ساتھ ام مسطح تھی وہ ٹھوکر کھا کر گر پڑی تو کہنے لگی مسطح ہلاک ہوجائے میں نے کہا اے ماں اپنے بیٹے کو برا بھلا کہتی ہے ؟ وہ چپ ہوگئی پھر دوسری مرتبہ ٹھوکر کھا کر گر پڑی اور کہنے لگی مسطح ہلاک ہوجائے۔ میں نے اس سے کہا اے ماں اپنے بیٹے کو برا کہتی ہے۔ پھر تیسری مرتبہ وہ ٹھوکر کھا کر گر پڑی اور کہنے لگی مسطح ہلاک ہوجائے تو میں نے اس کو جھڑک کر کہہ دیا (پھر) اس نے کہا اللہ کی قسم ! میں اس کو برا بھلا نہیں کہہ رہی مگر تیری وجہ سے کہہ رہی ہوں۔ میں نے کہا میری کوئی وجہ ہے ؟ اس نے مجھے ساری بات کہہ ڈالی میں نے کہا بات اسی طرح ہے سے ہے۔ کہنے لگی ہاں اللہ کی قسم بات اسی طرح سے ہے۔ میں اپنے گھر لوٹی مگر جس کام کے لیے نکلی تھی اس میں سے تھوڑا یا زیادہ نہ پاتی تھی مجھے بخار زیادہ ہوگیا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا مجھے اپنے گھر بھیج دیجیے تو آپ نے مجھے ایک غلام کے ساتھ بھیج دیا میں گھر میں داخل ہوئی میں نے اپنی والدہ ام رومان کو نچلے حصے میں پایا اور میرے والد ابوبکر ؓ گھر کے اوپر والے مکان میں تھے اور قرآن مجید پڑھ رہے تھے میری والدہ نے کہا اے میری بیٹی تو کس لیے آئی۔ میں نے ان کو خبر دی اور ان کو ساری بات بتائی ان کو اس میں اتنی بات نہ پہنچی تھی جتنی مجھ کو پہنچی تھی۔ انہوں نے کہا اے میری بیٹی معاملہ کو اپنے اوپر ہلکا کرو اللہ کی قسم ایسا کم ہوتا ہے ایک عورت خوبصورت ہو اس کا خاوند اس سے محبت کرتا ہو مگر سوکنیں اس سے حسد کرتی ہیں اور اس کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں میں نے پوچھا میرے والد کو اس بارے میں علم ہے ؟ والدہ نے فرمایا ہاں علم ہے پھر میں نے پوچھا اور رسول اللہ ﷺ کو بھی علم ہے فرمایا ہاں ! میں آنسو بہانے لگی اور رونے لگی۔ ابوبکر نے میری آواز کو سن لیا اور وہ گھر کے اوپر پڑھ رہے تھے۔ وہ نیچے اترے اور میری والدہ سے فرمایا اس کا کیا معاملہ ہے ؟ والدہ نے فرمایا اس کو وہ بات پہنچ گئی ہے اس کے بارے میں جو باتیں کی جارہی ہیں اس کی وجہ سے یہ رو رہی ہے۔ ابوبکر نے فرمایا اے میری بیٹی میں تجھ کو اسم دیتا ہوں مگر یہ کہ تو لوٹ جا اپنے گھر کی طرف تو میں لوٹ گئی۔ اور رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تشریف لائے اور میرے بارے میں میری خادمہ سے پوچھا تو اس نے کہا اللہ کی قسم ! میں اس پر کسی عیب کو نہیں دیھتی مگو یہ کہ وہ سو جاتی ہے اور بکری گھر میں داخل ہو کر اس کے آٹے کو کھالیتی ہے اس پر آپ کے بعض صحابہ نے اس خادم کو ڈانٹا اور کہا رسول اللہ ﷺ سے سچی بات کہو یہاں تک کہ اسے نیچے گرادیا خادمہ نے کہا سحان اللہ میں اس بارے میں اتنا جانتی ہوں جیسے سنار جانتا ہے اپنے سرخ سونے کے ڈلی کو۔ جس آدمی کے بارے میں یہ بات کہی گئی تو اس تک یہ خبر پہنچی تو اس نے کہا اللہ کی ذات پاک ہے اللہ کی قسم ! میں کبھی آج تک کسی عورت کا پردہ تک نہیں اٹھایا۔ عائشہ ؓ نے فرمایا وہ صحابی شہادت کی موت مرے میرے والدین میرے پاس رہنے لگے وہ اسی حالت میں تھے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے جبکہ آپ عصر کی نماز پڑھ چکے تھے۔ پھر آپ تشریف لائے اس حال میں کہ میرے ماں باپ میری دائیں بائیں جانب موجود تھے آپ نے اللہ کی حمد اور ثنا بیان فرمائی پھر فرمایا امابعد ! اے عائشہ اگر تو گناہ میں ملوث ہوگئی یا تو نے اپنے اوپر ظلم کیا تو اللہ کی طرف توبہ کر کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے توبہ کو قبول فرماتے ہیں عائشہ ؓ نے فرمایا کہ انصار میں سے ایک عورت آئی اور وہ دروازہ پر بیٹھ گئی میں نے کہا کیا آپ اس عورت کے سامنے کوئی چیز ذکر کرنے سے نہیں رکیں گے رسول اللہ ﷺ نے تلقین کی میں اپنے والد کی طرف متوجہ ہوئی اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو جواب دو انہوں نے کہا میں کیا کہوں ؟ پھر میں اپنی ماں کی طرف متوجہ ہوئی اور کہا آپ کو جواب دو تو انہوں نے بھی کہا میں کیا کہوں ؟ جب ان دونوں نے کوئی جواب نہ دیا تو میں نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد کہا ! اما بعد اللہ کی قسم ! اگر میں تم سے کہوں کہ میں نے کوئی برا کام نہیں کیا اور اللہ گواہی دیں گے کہ میں سچ بولنے والی ہوں وہ تمہارے نزدیک نفع مند نہیں ہوگی کیونکہ تم سے باتیں کرچکے ہو اور تمہارے دلوں میں یہ راسخ ہوچکی ہے اگر میں یہ کہوں کہ میں نے یہ کام کیا ہے اور اللہ تعالیٰ تعالیٰ جانتے ہیں کہ میں نے یہ کام نہیں کیا تم ضرور کہو گے اس نے اپنے اوپر جرم کو تسلیم کرلیا ہے اور اللہ کی قسم ! میں نہیں پاتی اپنے لیے اور تمہارے لیے کوئی مثال مگر یعقوب (علیہ السلام) کی مثال جو میں نے یعقوب (علیہ السلام) کے نام یاد کرنا چاہا مگر میں اس پر قادر نہ ہوئی جب انہوں نے کہا تھا آیت ” فصبر جمیل۔ واللہ المستعان علی ما تصفون “۔ (یوسف آیت 18) اسی وقت رسول اللہ ﷺ پر وحی اترنا شروع ہوگئی تو ہم خاموش ہوگئے جب آپ سے یہ کیفیت دور ہوئی آپ کے چہرہ مبارک میں خوشی ظاہر ہوئی اور آپ اپنی پیشانی مبارک کو پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے اے عائشہ ! خوش ہوجاؤ اللہ تعالیٰ نے تیری برائت کا اعلان کردیا ہے اور مجھے سخت غصہ تھا اس تمہمت کی وجہ سے میرے والدین نے مجھ سے کہا ان کی طرف کھڑی ہوجا یعنی رسول اللہ کے پاس جا۔ میں نے اللہ کی قسم میں ان کی طرف نہیں جاؤں گی اور نہ ان کی تعریف کروں گی لیکن میں اس اللہ کی تعریف کروں گی جسنے میری براءت کو اتارا البتہ تحقیق تم سب نے باتیں سنیں اور تم نے اس کا انکار نہیں کیا اور نہ غیرت کا اظہار کیا اور عائشہ ؓ نہا فرماتی تھیں کہ زینب بنت جحش کو اللہ تعالیٰ نے اس کے دین کی وجہ سے بچا لیا۔ اس نے خیر کے علاوہ کچھ نہیں کہا لیکن ان کی بہن حمنہ تو وہ ہلاک ہوگئی ان لوگوں میں جو ہلاک ہوگئے حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں تہمت لگانے والے حضرت مسطح حضرت حسان بن ثابت اور عبداللہ بن ابی منافق تھے اور وہ (عبداللہ بن ابی اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا تھا اور لوگوں کو جمع کرتا تھا ور یہ وہی تھا جس نے ان میں سے سب سے زیادہ حصہ لیا اور حمنہ نے بھی یہ گفتگو کی حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ابوبکر ؓ نے قسم اٹھائی کہ مسطح پر کبھی بھی خرچ نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری آیت ” ولایأتل اولو الفضل منکم “ میں صاحب فضل سے مراد ابوبکر ہیں۔ آیت ” والسعۃ ان یؤتو اولی القربوی والمسکین “ اولی القربی اور مساکین سے مسطح مراد ہیں۔ آیت ” الا تحبون ان یغفر اللہ لکم، واللہ غفور رحیم “ یہ آیت سن کر ابوبکر ؓ نے فرمایا کیوں نہیں اللہ کی قسم میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو بخش دے اور ان پر خرچ کرنا دوبارہ شروع کردیا جیسے وہ پہلے کرتے تھے۔ 3۔ احمد والبخاری و سعید بن منصور وابن المنذر وابن مردویہ نے ام رومان ؓ سے روایت کیا کہ اس درمیان کہ میں عائشہ ؓ کے پاس تھی اچانک ایک عورت آئی اور کہنے لگی اللہ تعالیٰ اس عورت کے بیٹے کے ساتھ یہ سلوک کرے عائشہ ؓ نے پوچھا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کیوں ایسا کرے اس نے کہا کہ وہ ان میں سے ہے کہ جنوہوں نے باتیں کیں۔ عائشہ ؓ نے پوچھا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کیوں ایسا کرے۔ اس نے کہا وہ ان میں سے ہے کہ جنہوں نے باتیں کیں۔ عائشہ ؓ نے پوچھا کونسی بات۔ اس نے کہا اس طرح اور اس طرح میں نے کہا یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچ چکی ہے اس نے کہا ہاں ! پھر میں نے پوچھا کیا ابوبکر ؓ کو یہ ابت پہنچ چکی ہے۔ اس نے کہا ہاں تو عائشہ ؓ بےہوش ہو کر گرپڑیں ان کو افاقہ نہیں ہوا مگر ان کو سخت بخار ہوچکا تھا۔ نبی ﷺ تشریف لائے اور فرمایا اس کا کیا حال ہے ؟ میں نے کہا یارسول اللہ اس کو سخت بخار نے پکڑ لیا ہے آپ نے فرمایا شاید اس بات کی وجہ سے جو اس کو بیان کی گئی ام رومان نے کہا تو عائشہ ؓ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور کہا اللہ کی قسم ! اگر میں قسم کھاؤ تو تم اس کی تصدیق نہیں کرو گے اگر میں تمہاری طرف عذر پیش کروں تو تم میرا عذا قبول نہ کرو گے۔ میری مثال اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے مثال یعقوب (علیہ السلام) اور ان کے بیٹوں کی ہے۔ آیت ” واللہ المستعان علی ما تصفون “ (یوسف آیت 18) رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پاکدامنی کا حکم نازل فرمایا رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے اور ان کے ساتھ ابوبکر بھی تھے وہ داخل ہوئے تو کہا اے عائشہ ؓ اللہ تعالیٰ نے تیری پاکدامنی کا حکم نازل فرمایا ہے اور عائشہ ؓ نے فرمایا اللہ کی تعریف ہے نہ کہ آپ ﷺ کی ابوبکر نے ان سے فرمایا کیا تو یہ بات رسول اللہ ﷺ سے کہہ رہی ہے عرض کیا جی ہاں ! حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ باتیں کرنے والوں میں سے ایک ایسا آدمی تھا کہ اس کی کفالت ابوبکر کیا کرتے تھے ابوبکر ؓ نے قسم کھائی کہ میں اس کے ساتھ صلہ رحمی نہیں کروں گے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ آیت ” ولایأتل اولوالفضل من والسعۃ “ آیت کے آخر تک۔ یہ سن کر ابوبکر نے فرمایا کیوں نہیں میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کردے۔ تو پھر اس سے حسن سلوک کا سلسلہ جاری رکھا۔ سفر میں ساتھ لے جانے کے لیے ازواج مطہرات میں قرعہ اندازی 4۔ البزار وابن مردویہ بسند حسن ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ ڈالتے غزوہ بنی المصطلق کے موقعہ پر عائشہ ؓ کے نام کا قرعہ نکال آیا جب آدھی رات تھی تو عائشہ ؓ اپنی قضائے حاجت کے لیے باہر نکلیں راستے میں ان کا ہار گلے سے نکل گیا اور گرپڑا وہ اس کو ڈھونڈنے چلی گئیں مسطح ابوبکر ؓ کے خاندان میں بطور ایک تیتیم کے پرورش پا رہا تھا عائشہ ؓ جب واپس آئیں تو لشکر کو نہ پایا وہ جا چکا تھا اور صفوان بن معطل سلمی لوگوں سے پیچھے رہتے تھے وہ کوئی پیالہ کوئی تھیلہ یا کوئی برتن پالیتے تھے تو اس کو اٹھالیتے تھے انہوں نے دیکھا تو اچانک عائشہ ؓ تھیں صفوان نے اپنا چہرہ ان سے دوسری طرف کرلیا۔ پھر اپنے اونٹ کو ان سے قریب کردیا وہ اس پر سوار ہوگئیں تو لشکر تک پہنچ گئے لوگوں نے باتیں کیں اور کہا جو کچھ کہا پھر سارا واقعہ بیان کیا اور رسول اللہ ﷺ دروازہ پر تشریف لاتے تھے اور پوچھتے تھے تمہارا کیا حال ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن تشریف لائے اور فرمایا اے عائشہ خوش ہوجاؤ اللہ تعالیٰ نے تیری پاکدامنی کا حکم نازل فرمادیا ہے۔ عائشہ ؓ نے عرض کیا اللہ تعالیٰ کی حمد ہے نہ کہ آپ کی اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے دس آیات کو نازل فرمایا آیت ” ان الذین جاء و بالافک عصبۃ منکم “ اس پر رسول اللہ ﷺ نے مسطح حمنہ اور حسان پر حد لگوائی۔ 5۔ ابن مردویہ نے اپنی سند سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ جب سفر فرماتے تھے تو اپنی کسی بیوی کو ساتھ لے جاتے تھے۔ عائشہ ؓ کو سفر میں ساتھ لیا اور ان کے لیے ایک کجاوہ مخصوص تھا اور اس کجاوے کو مرد اٹھاتے تھے اور اتارتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب ؓ رات کے آخری حصہ میں آرام کے لیے اترے عائشہ ؓ اپنی حاجت کے لیے دور نکل گئیں کسی کو ان کا علم نہ ہوا۔ نبی ﷺ اور لوگ جاگے اور روانہ ہوگئے وہ لوگ آئے جو کجاوے کو اٹھایا کرتے تھے انہوں نے کجاوے کو اٹھاکر اونٹ پر باندھ دیا۔ اور انہیں یہ معلوم نہ ہوا کہ اس میں عائشہ نہیں ہے سب لوگ چل دئیے۔ عائشہ ؓ واپس آئیں تو دیکھا کہ نبی ﷺ اور سب لوگ روانہ ہوچکے ہیں وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئیں انصار میں سے ایک آدمی جاگے جن کو صفوابن معطل کہا جاتا تھا اور وہ عورتوں سے شادی نہ کرتے تھے وہ ان سے قریب ہوئے اور ان کے پاس اونٹ بھی تھا جب انہوں نے عائشہ ؓ کو دیکھا اور وہ ان کو پہچانتے تھے جبکہ یہ چھوٹی سی تھیں اور کہا ام المومنین ہیں اور انہوں نے اپنا چہرہ دوسری طرف کو پھیرلیا اور ان کو اپنے اونٹ پر سوار کیا پھر اپنے اونٹ کی لگام پکڑ کر چل دئیے یہاں تک کہ لوگوں کے ساتھ مل گئے۔ نبی ﷺ پڑاؤ ڈال چکے تھے اور عائشہ ؓ کو نہ پایا باتیں بہت ہونے لگیں اور نبی ﷺ کو یہ باتیں پہنچیں تو آپ پر بہت بھاری گزریں یہاں تک کہ آپ ان سے یعنی عائشہ ؓ سے الگ ہوگئے ان کے بارے میں زید بن ثابت اور اس کے علاوہ دوسرے صحابہ ؓ سے آپ نے مشورہ فرمایا حضرت زید نے عرض کیا یارسول اللہ ! اس کو رہنے دیں شاید کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے میں کوئی نیا حکم دے علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا عورتیں بہت ہیں عائشہ ؓ رات کو عورتوں کے ساتھ باہر نکلیں وہ دوسری عورتوں میں چل رہی تھیں کہ ام مسطح ٹھوکر کھا کر گرپڑیں اور کہا مسطح ہلاک ہوجائے عائشہ ؓ نے فرمایا تو نے کتنی بری بات کی وہ کہنے لگیں کیا تو نہیں جانتا وہ کیا کہتا ہے تیرے بارے میں۔ پھر ان کو ساری بات بتادی یہ سنتے ہی عائشہ رضی الہ عنہا پر بیہوشی طاری ہوگئی پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری آیت ” ان الذین جاء و بالافک “ (سے لے کر آخرتک ) ابو بکر ؓ مسطح کو اپنا مال دیا کرتے تھے اس سے صلہ رحمی اور نیک سلوک کرتے تھے۔ اس واقعہ کے بعد ابوبکر نے قسم کھائی کہ وہ ان کو اب کچھ نہیں دیں گے تو یہ آیت آیت ” ولا یأتل اولو الفضل منکم “ نازل ہوئی۔ نبی ﷺ نے ابوبکر کو حکم فرمایا کہ عائشہ ؓ کے پاس جائیں اور ان کو خوشخبری دیں ابوبکر تشریف لائے اور ان کو پاکدامنی کی خبردی اور ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی تو عائرشہ ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حمد ہے، نہ آپ کی حمد ہے اور نہ آپ کے ساتھی (یعنی ابوبکر) کی حمد ہے (یعنی میں اس کے شکریہ میں اللہ کی حمد بیان کروں) ۔ 6۔ الطبرانی وابن مردویہ نے اپنی سند سے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تھے تو اپنی بیویوں کے درمیان تین مرتبہ قرعہ ڈالتے تھے۔ جس کا قرعہ نکل آتا تھا اس کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ جب بنی المصطلق کا غزوہ ہوا تو ان کے درمیان آپ نے قرعہ ڈالاتو حضرت عائشہ اور ام سلمہ ؓ کے نام قرعہ نکلا ان دونوں کو اپنے ساتھ لیا جب وہ راستے ہی میں تھے کہ ام سلمہ کا کجاوہ ایک طرف کو جھکنے لگا لوگوں نے ان کا اونٹ بٹھادیا تاکہ ان کے کجاوہ کو ٹھیک کردیں۔ عائشہ ؓ قضائے حاجت کا ارادہ رکھتی تھیں جب انہوں نے اپنے اونٹ کو بٹھایا تو عائشہ ؓ نے کہا میں نے اپنے دل میں کہا کہ ام سلمہ کا کجاوہ جب تک ٹھیک ہوگا میں اپنی حاجت پوری کرلوں گی۔ وہ کجاوے سے نیچے اتر گئیں اور ان کے اترنے کا کسی کو پتہ نہ چلا۔ وہ ویران جگہ میں آئیں تو ان کا ہار ٹوٹ گیا وہ اس کے جمع کرنے اور پرونے میں رک گئی لوگوں نے اپنے اونٹوں کو اٹھایا اور چل دئیے اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ میں کجاوہ کے اندر ہوں۔ میں جب نکلی تھی تو کسی نے مجھے نہیں دیکھا تھا میں ان کے پیچھے گئی یہاں تک کہ تھک گئی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ بلاشبہ صحابہ کرام مجھے گم پائیں گے تو میری تلاش میں واپس آئیں گے میں راستہ پر کھڑی ہوگئی میرے پاس سے صفوان بن معطل گزرے اور انہوں نے نبی ﷺ سے یہ سوال کیا تھا کہ ان کو لشکر کے پیچھے چلنے والا بنادیں۔ تو آپ نے ان کو پیچھے کردیا۔ جب لوگ روانہ ہوتے تو وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے پھر ان کے پیچھے چل دیتے جو چیز ان سے گر جاتی تھی اس کو اٹھالیتے تھے یہاں تک کہ وہ اپجنے ساتھیوں کے پاس لے آتے۔ عائشہ ؓ نے فرمایا جب وہ میرے پاس سے گزرے تو انہوں نے خیال کیا کہ یہ کوئی آدمی ہے اور کہا اے نیند کرنے والے اٹھ جا کیونکہ لوگ چلے گئے ہیں میرے نے کہا میں آدمی نہیں ہوں میں عائشہ ہوں (یہ سن کر) انہوں نے کہا اناللہ وانا الیہ راجعون۔ پھر اپنا اونٹ بٹھادیا اور اس کا گھٹنا باندھ دیا پھر مجھ سے پیٹھ پھیرلی اور کہا اے میر ماں ! کھڑی ہوجائیے اور سوار ہوجائیے۔ جب میں سوار ہوگئی تو میں نے آواز دی کہ میں سوار ہوگئی وہ آئے اور انہوں نے اپنے اونٹ کی رسی کھولی پھر اپنے اونٹ کو اٹھایا اور اونٹ کی لگام پکڑی عمر ؓ نے فرمایا کہ اس نے حضرت عائشہ ؓ سے کوئی بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ عائشہ ؓ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آیا عبداللہ بن ابی بن سلول نے لوگوں سے اس بارے میں باتیں کیں کعبہ کے رب کی قسم اس نے خوب اس بات کو عام کیا اس مسئلہ میں اس کی مدد کی حساب بن ثابت مسطح بن اثاثہ اور حمنہ نے اور پورے لشکر میں یہ بات عام ہوگئی یہ بات نبی ﷺ کو پہنچی اور یہ بات نبی ﷺ کے دل میں تھی ان باتوں سے جو انہوں نے کہیں یہاں تک کہ سب لوگ مدینہ منورہ کی طرف لوٹ آئے اور عبداللہ بن ابی نے اس بات کو مدینہ منورہ میں پھیلادیا رسول اللہ ﷺ پر یہ بات سخت گزری۔ ٍ عائشہ ؓ نے فرمایا ایک دن ام مسطح آئی اس نے مجھے دیکھا اور میں حاجت کی جگہ جانے کا ارادہ رکھتی تھی اس نے میرے ساتھ لوٹا یا برتن اٹھایا جس میں پانی تھا اس سے وہ برتن گرپڑا اس نے کہا مسطح ہلاک ہو عائشہ ؓ نے اس سے کہا اللہ کی ذات پاک ہے تو اہل بدر میں سے ایک آدمی کو برابھلا کہتی ہے حالانکہ وہ تیرا بیٹا ہے ام مسطح نے کہا اس نے تیرے ساتھ ایک تہمت کا سیلاب بہادیا ہے اور تو نہیں جانتی پھر اس کو ساری بات بتادی جب اس نے مجھ کو یہ بات بتائی تو مجھے بخاری ہوگیا اور مجھے قضائے حاجت کا خیال ہی نہ رہا۔ عائشہ ؓ نے فرمایا اس سے پہلے میں نبی ﷺ سے کچھ سختی دیکھتی میں نہیں جانتی تھی کہ یہ کس وجہ سے تھی۔ جب ام مسطح نے یہ بات بیان کی تو میں جان گئی کہ رسول اللہ ﷺ کی سختی اس وجہ سے تھی جب آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنے والدین کے گھر چلی جاؤں آپ نے فرمایا چلی جاؤ عائشہ ؓ گھر سے نکلیں یہاں تک کہ اپنے باپ کے پاس آئیں باپ نے ان سے پوچھا کیا بات ہے میں نے عرض کیا مجھے رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر سے نکال دیا ہے ابوبکر نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ تجھے اپنے گھر سے نکال دیں اور میں تجھ کو پناہ دوں گا اللہ کی قسم ! میں تجھ کو اس وقت تک پناہ نہیں دوں گا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ مجھ کو حکم نہیں فرمائیں گے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمادیا کہ ان کو پناہ دیدو ابوبکر ؓ نے عائشہ ؓ سے فرمایا اللہ کی قسم ! ہمارے بارے میں ایسی بات زمانہ جاہلیت میں کبھی بھی نہیں کہی گئی تو اب یہ کیسے ہسکتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام کے ذریعہ عزت دی۔ تو عائشہ ؓ رونے لگی اور اس کی ماں ام رومان بھی اور ابوبکر اور عبدالرحمن بھی اور ان کے ساتھ سارے گھروالے رونے لگی اور اس کی ماں ام رومان بھی اور ابوبکر اور عبدالرحمن بھی اور ان کے ساتھ سارے گھروالے رونے لگے۔ یہ بات نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ منبر پر چڑھے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا اے لوگو جس نے مجھے اذیت دی ہے اس کے ساتھ کون میرے بارے میں انصاف کرے گا سعد بن معاذ آپ کی طرف اٹھے اور اپنی تلوار کو سونت کر کہا یا رسول اللہ میں آپ کی جانب سے اس سے انصاف کروں گا اگر وہ اس کے قبیلہ اوس میں سے ہو تو اس کا سر لے کر میں آپ کے پاس آؤں گا اور اگر خزرج میں سے ہے تو آپ ہم کو حکم کیجئے سعد بن عبادہ کھڑے ہوئے اور کہا تو نے جھوٹ کہا اللہ کی قسم ! تو اس کے قتل پر قادر نہیں ہوگا۔ بلاشبہ تم نے یہ اس لیے پسند کیا ہے کیونکہ دشمنی تھی ہمارے اور تمہارے درمیان زمانہ جاہلیت میں ایک نے پکارا اے اوس اور دوسرے نے کہا اے خزرج پھر ایک دوسرے کو جوتوں اور پتھروں سے مارنے لگے اور ایک دوسرے کو تھپڑ بھی مارنے لگے اسید بن حضیر کھڑے ہوئے اور کہا تم کیوں الجھ رہے ہو یہ رسول اللہ ﷺ ہیں آپ ہم کو حکم دیں تو ہم اس پر عمل کریں گے خواہ کسی کی ناک خاک آلود ہو جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور آپ منبر پر ہی تھے جب یہ کیفیت جاتی رہی تو آپ نے ان پر آیات تلاوت کیں جو جبرئیل لے کر نازل ہوئے یعنی آیت ” وان طائفتن من المومنین اقتتلو۔ (الحجرات آیت 9) آیات کے آخرت تک تو لوگوں نے آوازیں بلند کیں اور کہا ہم راضی ہوگئے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اتارا اور وہ ایک دوسرے کی طرف اٹھے ایک دوسرے سے چمٹ گئے اور ایک دوسرے کو آوازیں دیں تو نبی ﷺ منبر سے اتر آئے۔ اور وحی نے دیر لگائی عائشہ ؓ کے بارے میں تو نبی ﷺ نے علی بن ابی طالب اسامہ بن زید اور بریرہ کو بلوا بھیجا اور جب آپ اپنے گھر والوں کے بارے میں کوئی مشورہ کرنے کا ارادہ فرماتے تھے تو حضرت علی اور اسامہ بن زید کے علاوہ کسی سے نہیں کرتے تھے اسامہ کے ساتھ مشورہ حضرت زید ؓ کی شہادت کے بعد ہوا۔ علی ؓ نے آپ سے فرمایا کہ تم عائشہ ؓ کے بارے میں کیا کہتے ہو مجھے اس سے سخت دکھ ہوا جو لوگ باتیں کر رہے ہیں ؟ عرض کیا یارسول اللہ لوگوں نے باتیں کیں اور آپ کے لیے اس کی طلاق حلال ہوگئی ہے اور اسامہ سے فرمایا تو کیا کہتا ہے ؟ اس نے عرض کیا اللہ کی ذات پاک ہے۔ ہمارے لیے حلال نہیں کہ ہم اس کے بارے میں بات کریں اے اللہ تیری ذات پاک ہے یہ بڑا بہتا ہے بریرہ ؓ سے فرمایا اے بریرہ۔ تو کیا کہتی ہے ؟ اس نے کہا اللہ کی قسم یا رسول اللہ ! میں آپ کی بیوی کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتی مگر یہ ایک ایسی عورت ہے کہ سو جاتی ہے اور ایک بکری ہے جو کسی کے آٹے کو کھا جاتی ہے اور اس قسم کی کوئی بات ہوتی تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کو اس کی خبر کردیں گے۔ آپ ﷺ باہر نکلے اور ابوبکر ؓ کے گھر تشریف لائے اور حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئے آپ نے فرمایا اے عائشہ ؓ اگر تو نے یہ کام کیا ہے تو مجھ سے کہہ دے میں تیرے لیے استغفار کروں گا عائشہ ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم میں اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے کبھی بھی استغفار نہیں کروں گی اگر میں نے ایسا کیا ہے تو اللہ میری مغفرت کرے میری اور تمہاری مثال ابویوسف (علیہ السلام) جیسی ہے افسوس کی وجہ سے مجھے یعقوب (علیہ السلام) کا نام بھول گیا جنہوں نے کہا تھا آیت ” انما اشکوا بثی وحزنی الی اللہ واعلم من اللہ ما لا تعلمون “ (یوسف آیت 82) اس درمیان کہ رسول اللہ ﷺ اس بارے میں بات فرما رہے تھے اچانک جبرئیل (علیہ السلام) وحی لے کر نازل ہوئے اور نبی ﷺ پر اونگھ طاری ہوگئی جب آپ سے یہ کیفیت جاتی رہی تو آپ تبسم فرما رہے تھے اور فرمایا اے عائشہ اللہ تعالیٰ نے تیری پاکدامنی پر یہ آیت نازل فرمادی ہے۔ عائشہ ؓ نے فرمایا اللہ کی تعریف کرتی ہوں نہ کہ آپ کی تعریف تو آپ نے ان کے سامنے سورة نور کی تلاوت فرمائی ان آیات تک جن میں حضرت عائشہ ؓ کی پاکدامنی اور براءت کا ذکر ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے گھر کی طرف چلو تو وہ چل پڑی۔ رسول اللہ ﷺ مسجد کی طرف تشریف لے گئے ابوعبیدہ بن جراح کو بلایا انہوں نے لوگوں کو جمع کیا پھر آپ نے ان پر وہ آیات تلاوت فرمائی جو اللہ تعالیٰ نے عائشہ ؓ کے بارے میں نازل فرمائیں عبداللہ بن ابی منافق کو بلوایا وہ آیات تو نبی ﷺ نے اس کو دو حدیں لگائیں اور حسان مسطح اور حمنہ کو بلوایا تو آپ نے ان کو سخت کوڑے مارے اور ان کی گردنوں میں ضربیں لگائیں ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کی ازواج پر تہمت لگائی اس پر دو حدیں ہیں۔ ابو بکر ؓ نے مسطح کی طرف پیغام بھیجا کہ میں تیری کبھی بھی ایک درہم کے ساتھ مدد نہیں کروں گا اور نہ ہی کبھی احسان کروں گا پھر ابوبکر نے اس کو دھتکار دیا اور اس کو اپنے گھر سے نکال دیا تو یہ آیت نازل ہوئی فرمایا آیت ” ولا یأتل اولوالفضل من “ آیت کے آخرتک۔ تو ابوبکر نے فرمایا اب جبکہ قرآن نازل ہوچکا جو مجھے حکم کرتا ہے تیرے بارے میں تو میں تجھ پر پہلے سے دگنا احسان کروں گے اور عبداللہ بن ابی منافق کی بیوی بھی اس کے ساتھ منافقہ تھی تو قرآن نازل ہوا آیت ” الخبیثت “ یعنی عبداللہ کی بیوی آیت ” للخبیثین “ یعنی عبداللہ، آیت ” والخبیثون للخبیثت “ یعنی عبداللہ اور اس کی بیوی، آیت ” والطیبت “ یعنی عائشہ ؓ اور نبی ﷺ کی بیویاں ” للطیبین “ یعنی نبی ﷺ کے لیے۔ 7۔ الطبرانی وابن مردویہ نے ابوالیسر انصاری ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے عائشہ ؓ سے فرمایا اے عائشہ اللہ تعالیٰ نے تیری پاکدامنی کا حکم نازل فرمادیا ہے تو عائشہ ؓ نے فرمایا اللہ کی تعریف کرتی ہوں آپ کی تعریف نہیں کرتی رسول اللہ ﷺ عائشہ ؓ کے پاس سے اٹھ کر باہر تشریف لے گئے اور عبداللہ بن ابی منافق کی طرف پیغام بھیجا اور اس کو حدیں لگائیں اور مسطح اور حمنہ کو بلوایا اور ان کو بھی کوڑے مارے۔ 8۔ الطبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” ان الذین جاء و ا بالافک عصبۃ منکم “ سے مراد وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے ام المومنین عائشہ رضیا للہ عنہا پر جھوٹی تہمت لگائی وہ تم میں سے چار تھے۔ آیت ” لاتحسبوہ شر الکم، بل ہو خیر لکم “ سے رسول اللہ ﷺ کے لیے خیر مراد ہے اور مومن عورتوں کی سردار کے لیے برا ئت مراد ہے اور ابوبکر کے لیے اور عائشہ ؓ کی ماں کے لیے اور صفوان بن معطل کے لیے خیر مراد ہے آیت ” لیل امرء منہم ما اکتسب من الاثم والذی تولی کبرہ منہم “ سے مراد ہے کہ جس نے اس معاملہ کو عام کرنے کا ارادہ کیا اور اس سے عبداللہ بن ابی سلول مراد ہے آیت ” لہ عذاب عظیم “ سے مراد ہے کہ اس کے لیے دنیا میں حد قذف اور آخرت میں اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہے۔ آیت ” لولا اذ سمعتموہ ظن المومنون والمومنت بانفسہم خیر وقالوا ہذا افک مبین “ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں اپنی بیویوں اور بریرہ سے مشورہ فرمایا تو سب نے کہا کہ ہم تو بھلائی ہی دیکھتی ہیں اور یہ کہا کہ یہ واضح بہتان ہے آیت ” لولا جاء وعلیہ باربعۃ شہداء “ اگر وہ لوگ چار گواہ نہ لائے اور جنہوں نے ان کی تائید کی وہ سب جھوٹے ہیں۔ آیت ” فاذ لم یأتوا بالشہداء فائلئک عنداللہ ہم الکذبون “ یہاں جھوٹ سے مراد یقینی جھوٹ ہے۔ آیت ” ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ “ سے مراد ہے کہ اگر نہ ہوتا جو اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان فرمایا اور تمہاری پردہ پوشی فرمائی آیت ” ہذا بہتان عظیم “ سے مراد ہے بہتان گھآ ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ کے قول میں مریم (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا آیت ” ہذا بہتان عظیم، یعظکم اللہ ان تعودوا لمثلہ “ سے مراد ہے مسطح حمنہ اور حسان آیت ” ویبین اللہ لکم الایت “ یعنی جو عائشہ ؓ اور اس کی براءت کے بارے میں نازل فرمائیں۔ آیت ” واللہ علیم “ یعنی جو تمہارے دلوں میں ندامت ہے اس معاملے کے بارے میں جس نے تم گھس گئے تھے آیت ” حکیم “ یعنی وہ حکیم ہے تہمت میں اسی کوڑے مارنے کا حکم دینے میں آیت ” ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ “ یعنی اس کے بعد جو اسے عام کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ آیت ” فی الذین اٰمنوا “ سے مراد ہے پاکدامن مرد اور پاکدامن عورتیں تصدیق کرنے والوں میں سے آیت ” لہم عذاب الیم “ دنیا میں دردناک عذاب سے مراد ہے حد اور آخرت کا عذاب دوزخ میں آیت ” واللہ یعلم وانتم لا تعلمون “ یعنی جس معاملے میں تم داخل ہوئے اور جو کچھ اس بارے میں عذاب کی شدت ہوگی اور تم نہیں جانتے اللہ تعالیٰ کے سخت غصے کو اس کام پر جو انہوں نے کہا۔ آیت ” ولو لا فضل اللہ علیکم “ سے مراد ہے اگر یہ نہ ہوتا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ تم کو فضیلت دی۔ آیت ” ورحمتہ “ سے مراد ہے مسطح حمنہ اور حسان آیت ” وان اللہ رء وف رحیم “ سے مراد ہے اللہ کی رحمت کہ وہ شفقت کرنے والا ہے تم پر جب کہ تم شرمندہ ہوئے اور تم حق کی طرف لوٹ آتے آیت ” یا ایہا الذین اٰمنوا “ سے مراد ہے جنہوں نے سچ بولا اللہ تعالیٰ کی توحید کے ساتھ آیت ” لاتتبعوا خطوات الشیطان سے مراد ہے لغزشیں آیت ” فانہ یامر بالفحشاء “ سے مراد ہے فحش کام اور اللہ کی نافرمانی اور منکر سے مراد ہے ہر وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتے ہیں آیت ” ولولافضل اللہ علیکم ورحمتہ “ سے مراد ہے فحش کام اور اللہ کی نافرمانی اور منکر سے مراد ہے ہر وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتے ہیں آیت ” ولولافضل اللہ علیکم ورحمتہ “ سے مراد ہے کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تم پر فضل اور رحمت نازل کی آیت ” مازکی منکم من احدابدا “ سے مراد ہے کہ تمہاری توبہ سے پہلے تم کو پاک نہیں کرے گا۔ آیت ” ولکن اللہ یزکی من یشاء “ اللہ نے چاہا کہ تمہاری توبہ قبول کرے۔ آیت ” واللہ سمیع علیم “ سے مراد ہے کہ وہ تمہارے قول کو سننے والا ہے اور جاننے والا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ندامت ہے۔ آیت ” ولایأتل “ سے مراد ہے کہ نہ قسم کھائے۔ آیت ” اولوالفضل منکم والسعۃ “ سے مراد ہے کہ ابوبکر قسم نہ کھائیں کہ وہ مسطح پر خرچ نہیں کریں گے۔ آیت ” ان یؤتوا اولی القربی والمسکین والمہجرین فی سبیل اللہ ولیعفوا ولیصفحوا “ یعنی میں نے تیرے اندر ابوبکر فضل کو رکھ دیا ہے۔ اور میں نے تیرے پاس خوشحالی اور اللہ کی مغفرت رکھ دی اے ابوبکر تو مسطح پر ناراض ہوگیا حالانکہ اس نے تیری قرابت ہے اور اس نے ہجرت کی ہے وہ غریب ہے وہ جنگوں میں شریک ہوا جن سے تو ان سے خوش ہو ان میں سے غزوہ بدر بھی ہے آیت ” الا تحبون “ (کیا تم محبوب رکھتے ہو) اے ابوبکر آیت ” ان یغفر اللہ لکم “ کہ اللہ تعالیٰ تم کو بخش دے پس تو مسطح کو بخش دے۔ آیت ” واللہ غفور رحیم “ سے مراد ہے کہ میں بخشنے والا ہوں اس کو جو خطا کرنے والا ہے اور رحم کرنے والا ہوں اپنے دوستوں پر۔ آیت ” ان الذین یرمون المحصنت “ سے مراد ہیں پاکدامن عورتیں آیت ” الغفلت المومنت “ سے مراد ہیں تصدیق کرنے والی اللہ اور اس کے رسولوں کی اور حسان بن ثابت ؓ نے عائشہ ؓ کے بارے میں فرمایا۔ حصان رزان ماتزن بریبۃ وتصبح غرثی من لحوم الخوافل ترجمہ : وہ پاکدامن ہے اپنی جگہ پر رہنے والی ہے کسی شک کی بنا پر اس پر تہمت نہیں لگائی جاسکتی اور وہ کسی پاکدامن کی عزت پر حملہ نہیں کرتی (یہ سن کر) عائشہ ؓ نے فرمایا لیکن تو ایسا نہیں ہے آیت ” لعنوا فی الدنیا والاٰخرۃ، ولہم عذاب عظیم “ یعنی ان کو نکال دیا ایمان میں سے جیسے کہ ان کا قول ہے سورة احزاب میں منافقین کے لیے آیت ” ملعونین اینما ثقفوا اخذوا وقتلوا تقتیلا “ (الاحزاب آیت 61) فرمایا آیت ” والذی تولی کبرہ “ یہاں کبر سے مراد ہے بہتان اور اس کا عام کرنا ہے۔ اور آیت ” الذی تولی “ سے مراد عبداللہ بن ابی ملعون ہے۔ آیت ” یوم تشہد علیہم السنتہم وایدیہم وارجلہم بما کانوا یعملون “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی زبانوں پر مہر لگادیں گے تو ان کے اعضاء گواہی دیں گے وہ اعضاء اپنے مالکوں کے خلاف گواہی دیں گے۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ کہیں گے آجاؤ ہم اللہ کی قسم کھاءٰں گے کہ ہم مشرک نہیں تھے تو اللہ تعالیٰ ان کی زبانوں پر مہر لگادیں گے۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ کہیں گے۔ آجاؤ ہم اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہم مشرک نہیں تھے تو اللہ تعالیٰ ان کی زبانوں پر مہر لگادیں گے تو ان کے اعضاء گواہی دیں گے جو وہ عمل کیا کرتے تھے۔ پھر اس کے بعد ان پر ان کی زبانیں گواہی دیں گے آیت ” یومئذ یوفیہم اللہ دینہم الحق “ سے مراد ہے کہ جان لے گا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال پر بدلہ دے گا جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو ثواب کی جزاء عطا فرمائے گا اسی طرح اپنے دشمنوں کو عذاب کے ساتھ جزا دیگا جس طرح سورة فاتحہ میں فرمایا ہے آیت ” مالک یوم الدین “ سے مراد ہے بدلہ کا دن آیت ” ویعلمون “ سے مراد ہے قیامت کا دن آیت ” ان اللہ ہو الحق المبین “ وہ قیامت کے دن جائزہ لیں گے اللہ تعالیٰ ہی حق مبین ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عبداللہ بن ابی شک کرتا تھا دنیا میں اور منافقین کا سردار تھا اسی وجہ سے فرمایا کہ آیت ” یومئذ یوفیہم اللہ دینہم الحق “ اور ابن سلول جان لے گا آیت ” ان اللہ ہو الحق المبین “ سے مراد ہے شک ختم ہوجائے گا اور یقین حاصل ہوجائے گا جب اسے شک نفع نہیں دے گا۔ ل آیت ” الخبیثت للخبیثین “ سے مراد عبداللہ بن ابی اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں شک کرنے والے ہیں اور جہاں والوں کی عورتوں کی سردار (یعنی عائشہ ؓ پر تہمت لگاتے ہیں آیت ” والطیبت للطیبین “ سے عائشہ ؓ مراد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کے لیے پسند کیا جبرئیل (علیہ السلام) ریشم کے ٹکڑے میں ان کی تصویر لے آئے ان کی ماں کے رحم میں تصویر بنانے سے پہلے اور آپ نے فرمایا یہ عائشہ ؓ ابوبکر کی بیٹی ہیں جو آپ کی دنیا میں بیوی ہوگی اور آپ کی بیوی ہوگی جنت میں بھی اور یہ خدیجہ کے عوض میں ہوگی حضرت خدریجہ کے وصال کے وقت رسول اللہ ﷺ کو حضرت عائشہ ؓ کی خوشخبری دی گئی اور حضرت عائشہ ؓ کی وجہ سے آپ ﷺ کی آنکھیں ٹھندی ہوئی۔ آیت ” والطیبون للطیبات “ سے مراد ہے رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اپنی ذات کے لیے چن لیا اور تمام آدم (علیہ السلام) کی اولاد کا سردار بنادیا آیت ” والطیبت “ سے مراد عائشہ ؓ ہیں۔ آیت ” اولئک مبرء ون مما یقولون “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عبداللہ بن ابی کے جھوٹ سے بری کردیا ہے آیت ” لہم مغفرۃ “ سے مراد دنیا میں حفاظت اور آیت ” مغفرۃ “ سے مراد ہے آخرت میں مغفرت ہے۔ آیت ” رزق کریم “ سے مراد ہے جنت اور بڑا ثواب۔ 9۔ ابن ابی حاتم والطبرانی نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ان الذین جاء و بالافک “ یعنی جھوٹ آیت ” عصبۃ منکم “ سے مراد عبداللہ بن ابی منافق حسان بن ثابت مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش ہیں۔ آیت ” لاتحسبوہ شرا الکم “ سے مراد ہیں عائشہ ؓ اور صفوان ؓ یعنی جو جھوٹ تمہارے متعلق کیا گیا اسے برائی گمان نہ کرو بلکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ آیت ” شر الکم، بل ہو خیر لکم “ اس لیے کہ تم اس پر اجر دئیے جاؤگے۔ آیت ” لکل امرء منہم “ یعنی ان میں سے جس نے عائشہ ؓ کے معاملے میں حصہ لیا آیت ” ماکتسب من الثم “ اس کے مطابق اس نے گناہ کمایا آیت ” والذی تولی کبرہ “ یعنی جس نے تہمت لگائی وہ ابن ابی منافقین کا سردار ہے اس نے یہ بات کی کہ نہ حضرت عائشہ ؓ اس سے بری ہے اور نہ وہ آدمی (ابن صفوان) اس سے بری ہے۔ آیت ” لہ عذاب عظیم “ یعنی اس منافق کے لیے بڑا عذاب ہے اور اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے سارے مسلمانوں کے لیے جب ان میں غلطی واقع ہو پس جس شخص نے اس گناہ میں عملی یا قولی مدد کی اس کے لیے تیار ہوا یا اس نے اس کو پسند کیا یاراضی ہوا پس وہ اس گناہ کا اتنا ذمہ دار ہوگا جتنا اس کا حصہ ہوگا اور جب گناہ واقع ہوا مسلمانوں کے درمیان پس جو شخص حاضر تھا اور اسے ناپسند کیا تو وہ غائب کی طرح ہے اور جو شخص غائب تھا اور اس پر راضی ہوا تو وہ مثل حاضر کے ہے۔ آیت ” لو لا اذسمعتموہ “ یعنی جب تم نے عائشہ ؓ اور صفوان پر تہمت کو سنا آیت ” ظن المومنون والمومنات “ مومنات کا ذکر اس سے ہوا کیونکہ اس میں سے حمنہ بنت جحش بھی تھیں کیوں نہیں تم نے اس کو جھٹلایا آیت ” بانفسہم خیرا “ بعض ان کے بعض نے خیر کا گمان کیوں نہیں کیا کہ وہ بدکاری نہیں کرسکتے۔ آیت ” وقالوا ہذا افک مبین “ اس تہمت کے بارے میں انہوں نے کیوں نہیں کہا واضح جھوٹی تہمت ہے۔ آیت ” لولاجاء وعلیہ “ یعنی تہمت پر، آیت ” باربعۃ شہداء فاذ لم یاتوا بالشہداء فاء لئک “ یعنی وہ کیوں چار گواہ نہیں لائے۔ آیت ” عنداللہ ہم الکذبون “ تو وہ اپنی بات میں جھوٹے ہیں۔ آیت ” ولو لا فضل اللہ علیکم ورحمتہ فی الدنیا والاٰ خرۃ “ یعنی اس کا فضل ہے کہ سزا کو مؤخر کیا۔ آیت ” لمسکم فی ما افضتم فیہ “ یعنی جو تم نے جھوٹی تہمت لگائی آیت ” عذاب عظیم “ تو تم کو بہت برا عذاب پہنچا۔ آیت ” اذ تلقونہ بالسنتکم “ اس کی صورت یہ تھی کہ جب وہ حضرت عائشہ ؓ کے معاملہ شامل ہو تو ان کے بعض نے کہا کہ میں نے فلاں سے سنا وہ اس طرح اس طرح کہہ رہا تھا اور ان کے بعض نے کہا بلکہ وہ اس طرح اور اس طرح تھا اور کہا آیت ”’ تلقونہ بالسنتکم “ یعنی بعض تمہارا بعض سے بیان کر رہا تھا۔ آیت ” وتقولون بافواہکم “ یعنی اپنی زبانوں کے ساتھ اس کی تہمت میں سے جو کچھ کہتے جاتے ہو آیت ” مالیس لکم بہ “ یعنی بغیر علم کے تم نے تہمت کے بارے میں کہا کہ یہ سچ ہے۔ آیت وتحسبونہ ہینا “ یعنی تم نے گمان کرلیا کہ تہمت چھوٹا گناہ ہے۔ آیت ” وہو عنداللہ عظیم “ یعنی اللہ کے نزدیک وہ بڑا گناہ ہے۔ آیت ولولا اذسمعتموہ “ یعنی تم نے گمان کرلیا کہ تہمت چھوٹا گناہ ہے۔ آیت ” وہو عنداللہ عظیم “ یعنی اللہ کے نزدیک وہ بڑا گناہ ہے۔ آیت ولولا اذ سمعتموہ یعنی جب تم نے تہمت کو سنا۔ آیت قلتم مایکون، یعنی تم نے کیوں نہیں کہا کہ یہ نہیں ہوگا۔ آیت ماینبغی لنا ان نتکلم بہذا۔ یعنی ہم کو زیب نہیں دیتا کہ ہم ایسی بات کریں اور ہماری آنکھوں نے اس کو نہیں دیکھا۔ آیت سبحنک ہذا بہتان عظیم۔ یعنی تم نے کیوں نہیں کہا کہ یہ بڑا جھوٹ ہے جیسے کہ سعد بن معاذ انصار نے کہا اور یہ اس وقت ہوا جب سعد نے عائشہ رضیا للہ عنہا کے بارے میں (تہمت) کو سنا تو فرمایا آیت ” سبحنک ہذا بہتان عظیم “ اور بہتان اسے کہتے ہیں جو حیران کردے اور وہ ایسی بات کرے جو وقوع پذیر نہ ہوئی ہو۔ آیت ” یعظکم اللہ ان تعودوا لمثلہ ابدا، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جھوٹی تہمت دوبارہ نہ لگانا، آیت ” ان کنتم مومنین ” اگ رتم توحید کی تصدیق کرنے والے ہو۔ آیت ” ویبین اللہ لکم الایت “ یعنی جو کچھ تم کو نصیحت کی گئی۔ آیت ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ “ جو لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ بےحیائی پھیل جائے۔ آیت ” لہم عذاب الیم، فی الدنیا “ یعنی دنیا میں حد کی سزا ہے۔ آیت ” وفی الاٰخرۃ عذاب النار “ اور آخرت میں دوزخ کا عذاب ہے۔ شیطان ہمیشہ برائی کا حکم کرتا ہے آیت ” ولولافضل اللہ “ اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تو تم کو سزا ملتی جو کچھ تم نے عائشہ ؓ کے بارے میں کہا۔ آیت ” وان اللہ رء ورحیم “ جب کہ اس نے تم کو معاف کردیا اور تم کو سزا نہ دی۔ آیت ” ومن یتبع خطوات الشیطان “ یعنی جو شخص شیطان کی آراستہ کی ہوئی چیزوں کی پیروی کرتا ہے۔ آیت ” فانہ یأمر بالفحشاء “ تو وہ حکم کرتا ہے گناہ کا اور بےحیائی کا آیت ” ولمنکر “ یعنی جیس ناپسندیدہ بات حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں کہی گئی۔ آیت ” ولولافضل اللہ علیکم ورحمتہ “ یعنی اس کی نعمت نہ ہوئی آیت آیت ” مازکی “ یعنی کوئی اپنے آپ کو درست نہ کرتا آیت “ ولکن اللہ یزکی “ لیکن درست کرتا ہے۔ آیت ” منیشاء “ جس کو چاہتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے عائشہ ؓ کی براءت کو نازل فرمادیا اور اس کو بری فرمادیا اور جھوٹا قرار دیدیا ان لوگوں کو جنہوں نے تہمت لگائی تھی ابوبکر نے قسم کھائی کہ وہ کبھی مسطح بن اثاثہ سے صلہ رحمی نہیں کریں گے کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے عائشہ ؓ پر تہمت لگائی اور مسطح اولین مہاجرین میں سے تھے اور وہ ابوبکر کی خالہ کا بیٹا تھا ور وہ آپ کے ہاں ہی بطور یتیم پرورش پاتا ہے۔ جب ابوبکر نے قسم کھائی کہ اس کے ساتھ صلہ رحمی نہیں کریں گے تو ابوبکر کے بارے میں نازل ہوا۔ آیت ” ولا یأتل “ یعنی وہ قسم نہ کھائیں۔ آیت ” اولوالفضل منکم اولی القربی “ یعنی مسطح بن اثاثہ کو کچھ نہیں کہیں گے جو ابوبکر کے قریبی رشتہ دار تھے اور ان کی خالہ کے بیٹے تھے۔ آیت ” والمسکین “ جو محتاج ہے۔ آیت ” والمہجرین فی سبیل اللہ “ یعنی مسطح مہاجرین میں سے ہے۔ آیت ” ولیعفوا ولیصفحوا۔ یعنی سطح سے در گزر کریں۔ آیت ” الا تحبون ان یغفر اللہ لکم “ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر سے فرمایا کیا تو پسند نہیں کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو معاف کردے عرض کیا کیوں نہیں ! اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا اس کو معاف کردو اور درگزر سے کام لو ابوبکر نے فرمایا میں نے معاف کردیا اور درگزر کرلیا میں آج کے دن سے کسی کو احسان سے محروم نہیں کروں گا۔ پھر فرمایا آیت ” ان الذین یرمون المحصنت “ یعنی جو تہمت لگاتے ہیں زنا کی ان عورتوں کو جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والیاں اور پاک دامن ہیں۔ آیت ” الغفلت “ یعنی وہ بدکاری جیسے اعمال سے غافل ہیں جیسے عائشہ ؓ ” المومنات “ یعنی سچ بولنے والیں ” لعنو “ یعنی کوڑے لگائے گئے۔ آیت ” فی الدنیا والاٰخرۃ “ یعنی وہ دوزخ کا عذاب دئیے جاءٰں گے۔ یعنی عبداللہ بن ابی کو کیونکہ وہ منافق تھا اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔ آیت یوم تشہد علیہم السنتہم یعنی عائشہ ؓ کی تہمت کے بارے میں قیامت کے دن ان کی زبانیں گواہی دیں گی۔ آیت یومئذ، یعنی آخرت میں آیت ” یوفیہم اللہ دینہم الحق “ یعنی ان کا حساب انصاف کے ساتھ ہوگا ان پر ظلم نہیں ہوگا۔ آیت ویعلمون ان اللہ ہو الحق المبین۔ یعنی ان کا حساب انصاف کے ساتھ ہوگا۔ ان پر ظلم نہیں ہوگا۔ آیت ویعلمون ان اللہ ہو الحق لمبین “ اور وہ جانتے ہیں کہ وہ ہی واضح عدل فرمانے والا ہے۔ آیت ” الخبیثت “ یعنی کلام میں سے بری کلام ہے۔ عائشہ ؓ پر تہمت آیت ” للخبیثین “ یعنی مردوں اور عورتوں میں سے یعنی جنہوں نے عائشہ ؓ پر تہمت لگائی آیت ” والخبیثون “ یعنی مردون اور عورتوں میں سے آیت ” للخبیثت “ ایسی ہی بری باتوں کے لیے ہیں کیونکہ ایسے انسانوں کو ایسی بات آیت والطیبت، یعنی اچھی بات آیت ” للطیبین “ اچھے مردوں اور عورتوں کے لیے ہے۔ یعنی جنہوں نے مومنین اور مومنات کے ساتھ اچھا گمان کیا یعنی یہی پاکیزہ مردوں اور عورتوں میں سے آیت ” مبرء ون مما یقولون “۔ یعنی وہ برے کلام سے بری ہیں۔ آیت ” لہم مغفرۃ “ یعنی ان کے گناہوں کے لیے مغفرت ہے۔ آیت ” ورزق کریم “ یعنی اچھا رزق ہے جنت میں جب اللہ تعالیٰ نے عائشہ ؓ کی براءت کو نازل فرمایا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو ساتھ ملا لیا اور وہ جنت میں ان کی بیویوں میں سے ہوں گی۔ 10۔ الطبرانی وابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے میری پاکدامنی کا حکم نازل فرمایا اور قریب تھا کہ امت ہلاک ہوجاتی میری وجہ سے جب رسول اللہ ﷺ سے وحی کی کیفیت جاتی رہی اور فرشتہ چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلہم نے میرے والد سے فرمایا اپنی بیٹی کے پاس جاؤ اور اس کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اس کی پاکدامنی کا حکم نازل فرمایا ہے۔ اعائشہ ؓ نے فرمایا کہ میرے والد میرے پاس دوڑتے ہوئے آئے قریب تھا کہ وہ گرپڑتے اور آکر فرمایا۔ اے میر بیٹی میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں خوش ہوجا اللہ تعالیٰ نے تیری پاکدامنی کا حکم نازل فرمادیا ہے۔ میں نے کہا اللہ کی تعریف کرتی ہوں، نہ آپ کی اور نہ آپ کے ساتھی کی (محمد ﷺ کی جس نے آپ کو بھیجا پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے میرے بازو کو پکڑا اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اس طرح میرے والد ابوبکر ؓ نے جوتا اٹھا یا تاکہ اس سے مجھ کو ماریں میری والدہ نے ان کو روک دیا رسول اللہ ﷺ ہنسے اور فرمایا میں قسم کھاتا ہوں کہ تم ایسا نہ کرو۔ حضرت عائشہ ؓ کے حق میں نزول وحی 11۔ ابن جریر وابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ اللہ قسم ! مجھے امید نہیں تھی کہ میرے بارے میں وحی نازل ہوگی اور نہ میں اس بارے میں طمع رکھتی تھی لیکن میں یہ امید رکھتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ خواب دیکھیں گے تو ان کے دل میں جو بات ہے وہ جاتی رہے گی۔ اور آپ نے حبشی لونڈی سے بھی پوچھا تھا تو اس نے کہا اللہ کی قسم ! کہ عائشہ ؓ زیادہ پاکیزہ ہیں سونے کی پاکیزگی سے لیکن اتنی بات ہے کہ وہ سو جاتی ہے یہاں تک کہ بکری داخل ہو کر اس کے آٹے کو کھالیتی ہے۔ اللہ کی قسم اگر وہ بات سچ ہوتی جو لوگ کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور خبر پہنچادیتے لوگ اس کی سمجھداری سے بڑے متعجب ہوئے۔ 12 الطبرانی نے حکم بن عتیبہ رحمۃ اللہ سے روایت کیا جب لوگ تہمت لگانے میں پڑگئے عائشہ ؓ کے معاملے رسول اللہ صل ؛ ی اللہ ﷺ نے عائشہ ؓ کی طرف پیغام بھیجا اے عائشہ ؓ لوگ کیا کہتے ہیں عائشہ ؓ نے فرمایا میں اس پر کوئی معذرت نہیں کروں گی جو کچھ لوگ کہہ رہے ہیں یہاں تک کہ آسمان سے میری پاکدامنی کا حکم نازل نہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں پندرہ آیات نازل فرمائی پھر ان آیات کی تلاوت کی اور یہاں تک پہنچے آتی ” الخبیثت للخبیثین “ 13۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ اٹھارہ آیات پے در پے نازل ہوئیں عائشہ ؓ پر تہمت لگانے والوں کو جھٹلانے اور ان کی براءت کے اظہار کے لیے۔ 14۔ البزار والطبرانی وابن مردویہ نے صحیح سند کے ساتھ عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ جب مجھ پر تہمت لگائی گئی تو میں نے رادہ کیا میں ایک غیر آباد کنویں پر آؤں اور اپنے آپ کو اس میں ڈال دوں۔ 15۔ البزار نے صحیح سند کے ساتھ عائشہ ؓ سے رو وایت کیا کہ جب ان کی پاکدامنی کا حکم نازل ہوا تو ابوبکر نے فرمایا کونسا آسمان جو مجھ پر سایہ کرتا اور کونسی زمین ہے جو مجھے اٹھاتی اگر میں ایسی بات کرتا جس کا مجھے علم ہی نہ ہوتا۔ 16۔ احمد نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ جب آسمان سے میری پاکدامنی کا حکم نازل ہوا میرے پاس نبی ﷺ تشریف لائے اور مجھے اس کی خبر دی میں نے کہا میں اللہ کی تعریف کروں گی آپ کی تعریف نہ کروں گی۔ 17۔ عبدالرزاق واحمد وعبد بن حمید وابو داوٗد والترم ذی والنسائی وابن ماجہ وابن المنذر وابن مردویہ والطبرانی والبیہقی فی الدلائل عائشہ ؓ نے فرمایا جب میری پاکدامنی کا حکم نازل ہوا تو رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اس بات کا ذکر فرمایا اور قرٓن مجید کی تلاوت کی جب آپ نیچے اترے تو دو مردوں اور ایک عورت کے بارے میں حکم فرمایا اور ان کو حدیں لگوائیں۔ 18۔ ابن جریر نے محمد بن عبداللہ بن جحش نے بیان فرمایا کہ عائشہ ؓ نے فرمایا میں ہوں کہ جس کی پاکدامنی کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا جب امجھے ابن المعطل نے سوار کیا اپنی سواری پر زینب نے ان سے کہا اے عائشہ تو نے کیا کہا جب تو اس پر سوار ہوئی ؟ تو انہوں نے فرمایا میں نے کہا ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ یعنی اللہ میرے لیے کافی ہے اور بہترین کارساز ہے۔ زینب نے فرمایا کہ تو نے ایمان والوں کی بات کہی۔ حضرت عائشہ ؓ کا انتقال 19۔ البخاری وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ عائشہ ؓ کے پاس اس کی موت سے پہلے آئے جبکہ وہ بےبس ہوچکی تھیں ابن عباس نے پوچھا کیسا حال ہے ؟ فرمایا اگر بچ گئی تو سب خیر ابن عباس نے فرمایا آپ خیر کے ساتھ ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی بیوی ہیں آپ کے علاوہ کسی کنواری سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی پاکدامنی کا حکم آسمان سے نازل ہوا۔ 20۔ الحاکم وصححہ عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ مجھ میں نو خصلتیں ہیں جو کسی اور میں نہیں ہیں سوائے مریم (علیہا السلام) کے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ عطا فرمائیں فرشتہ میری صورت کو رسول اللہ ﷺ کی طرف لے آیا اور آپ نے مجھ سے عقد نکاح فرمایا جبکہ میری عمر سات سال کی تھی۔ ا اور مجھے آپ کی خدمت میں بھیج دیا گیا جب میں نو سال کی تھی اور آپ نے مجھ سے نکاح فرمایا جبکہ میں کنواری تھی اور آپ کے پاس اس حال میں وحی آتی رھی جبکہ میں اور آپ ایک ہی لحاف میں ہوتے تھے اور میں آپ کی طرف لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھی اور میرے بارے میں قرآن کی آیات نازل ہوئیں قریب تھا کہ امت اس بارے میں ہلاک ہوجاتی اور میں نے جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھا اور میرے علاوہ ازواج مطہرات میں سے کسی نے نہیں دیکھا اور میرے گھر میں آپ کی وفات ہوئی میرے اور فرشتے کے سوا اس وقت کوئی بھی نہ تھا۔ دیگر ازواج مطہرات کے مقابلہ میں حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت 21۔ ابن سعد نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کی عورتوں پر مجھے دس چیزوں میں فضیلت حاصل ہے پوچھا کیا اے ام المومنین وہ کیا ہیں ؟ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کسی کنواری سے نکاح نہیں فرمایا اور کسی عورت سے نکاح نہیں فرمایا کہ جس کے والدین نے ہجرت کی ہو میرے علاوہ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آسمان سے میری براءت نازل فرمائی اور آپ کے پاس جبرئیل (علیہ السلام) میری صورت لے کر آئے ریشمی کپڑے میں اور فرمایا اس سے نکاح کرلو کیونکہ یہ آپ کی بیوی ہے، میں اور آپ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے جبکہ آپ ﷺ دوسری ازواج مطہرات سے ایسا نہیں کرتے تھے اور آپ پر اس حال میں وحی آتی تھی جبکہ میں آپ کے پاس ہوتی تھی اور میرے علاوہ کسی بیوی کی موجودگی میں وحی نازل نہیں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح کو قبض فرمایا اجب کہ آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور اس رات میں آپ کی وفات ہوئی جس روز میری باری ہوتی تھی اور میرے گھر میں دفن کیے گئے۔ 22۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر والطبرانی مجاہد (رح) نے آیت ” ان الذین جاء و بالافک عصبۃ منکم “ کے بارے میں فرمایا کہ عائشہ ؓ پر بہتان لگانے والے عبداللہ بن ابی بن سن سلول مسطح اور حسان ؓ تھے۔ 23۔ ابن جریر وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جن لوگوں نے عائشہ ؓ پر بہتان باندھا وہ یہ تھے حسان، مسطح حمنہ بنت جحش اور عبداللہ بن ابی۔ 24۔ ابن جریر وابن المنذر نے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ عبدالملک بن مروان نے اسن کی طرف لکھا جس میں یہ سوال کیا کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے حضرت عائشہ ؓ پر بہتان باندھا عروہ نے اس جواب دیا اور اس میں صرف حسان بن ثابت، مسطح، حمنہ بن جحش تھے۔ اس کے علاوہ کو مجھے علم نہیں۔ 25۔ البخاری وابن المنذر والطبرانی وابن مردویہ والبیہقی نے الدلائل میں زہری (رح) سے روایت کیا کہ میں ولید بن عبدالملک کے پاس تھا اس نے کہا کہ اس میں جس شخص نے بڑا حصہ لیا (یعنی جنہوں نے تہمت لگائی) ان میں سے ایک حضرت علی ؓ تھے۔ میں نے کہا نہیں ! مجھے سعید بن المسیب عروہ بن الزبیر علقمہ بن وقاص عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود ؓ سب نے عائشہ ؓ سے سنا وہ فرماتی تھیں کہ ان میں سے جس شخص نے بڑا حصہ لیا وہ عبداللہ بن ابی تھا زہری نے کہا کہ مجھ سے ولید بن عبدالملک نے پوچھا کہ اس کا جرم کیا تھا ؟ میں نے کہا مجھ سے بیان کیا تیری قوم میں سے دو بزرگوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف اور ابوبکر بن عبدالرحمن بن الحارث ابی ہشام نے کہ ان دونوں نے عائشہ ؓ سے سنا کہ وہ فرماتی تھیں کہ عبداللہ بن ابی میرے معاملے میں گناہ کا ارتکاب کرنے والا تھا۔ یعقوب بن شبہ (رح) نے اپنی مسند میں فرمایا کہ مجھے حسن بن علی حلوانی ان کو شافع نے اور ان کو میرے چچا نے بیان کیا کہ سلیمان بن یسار داخل ہوئے ہشام بن عبدالملک پر تو ہشام نے ان سے کہا اے سلیمان جس شخص نے اس میں بڑا حصہ لیا وہ کون ہے ْ فرمایا عبداللہ بن ابی۔ ہشام نے کہا تو نے جھوٹ کہا وہ علی تھے ہشام نے کہا امیر المومنین اس بارے میں خود ہی بہتر جانتے ہیں جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں۔ زہری داخل ہوئے تو پوچھا اے ابن شہاب جس نے اس میں بڑا حصہ لیا وہ کون ہے ؟ زہری نے ان سے کہا وہ ابن ابی ہے۔ ہشام نے کہا تو نے جھوٹ کہا کہا وہ علی ہیں۔ زہری نے فرمایا میں جھوٹ بولوں گا ؟ تیرا بات نہ رہے۔ اگر آسمان سے کوئی آواز دینے والا آواز دے کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو حلال کردیا ہے تو بھی میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ مجھ سے بیان کیا عروہ نے اور سعید اور عبداللہ نے اور علقمہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ جس نے اس میں بڑا حصہ لیا وہ عبداللہ بن ابی ہے۔ 26۔ سعید بن منصور وابن ابی شیبہ والبخاری ومسلم وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی وابن امردویہ نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ حسان بن ثابت ؓ حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئے اور شعر کہنا شروع کیا اور کہا : حصان رزان ماتزن بریبۃ وتصبح غرثی من لحوم الغوافل ترجمہ : وہ پاکدامن ہے اپنی جگہ پر قائم رہنے والی ہے کہ کسی شک کی بنا پر اس پر کوئی تہمت نہیں لگائی جاسکتی وہ کسی پاک دامن کی عزت پر حملہ نہیں کرتی۔ یہ سن کر عائشہ ؓ نے فرمایا لیکن تم تو ایسے نہیں ہو۔ میں کہا آپ ی دعویٰ کرتی ہیں کہ اس قسم کے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی آیت ” والذی تولی کبرہ منہم لہ عذاب عظیم “ تو کہنے لگیں سخت عذاب کا کیا تصور کیا جاسکتا ہے۔ اندھے پن سے ؟ ابن مردویہ کے لفظ یوں ہیں کیا نظر کا چلاجانا خود عذاب نہیں ہے۔ 27۔ ابن جریر نے شعبی کے طریق سے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے حسان ؓ کے اشعار سے بہتر کوئی شعر نہیں سنا میں اس کا تصور کرتی ہوں تو اس کے لیے جنت کی امید رکھتی ہوں اس نے یہ اشعار ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم کے بارے میں کہے تھے۔ ہجوت محمد واجبت عنہ وعنداللہ فی ذاک الجزاء ترجمہ : تو نے محمد ﷺ کی ہجو کی اور میں نے اس کا جواب دیا اس جواب پر اللہ کے نزدیک جزاء ہے فان ابی و والدہ وعرضی بعرض محمد منکم وقاء ترجمہ : بیشک میرا باب اور اس کا باپ اور میرے عزت محمد ﷺ کی عزت کا تم سے دفاع کرنے والی ہے اتشتمہ ولست لہ بکفء فشرکما لخبر کما الفداء ترجمہ : کیا تو حضور ﷺ کو برا بھلا کہتا ہے جبکہ تو ان کا ہم پلہ نہیں تم میں سے شریر تم میں سے اچھے پر قربان ہو لسانی صارم لا عیب فیہ ویجری لا تکدرہ الدلاء ترجمہ : میری زبان تیز کاٹنے والی ہے اس میں کوئی بھی عیب نہیں اور میرے دریا کو ڈول آلودہ نہیں کرتے۔ کہا گیا اے ام المومنین کیا یہ لغو نہیں ہے ؟ کہنے لگیں نہیں لغو وہ ہے جو عورتوں کی موجودگی میں کہا جائے کہا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نہیں فرماتے ہیں آیت ” ولذی تولی کبرہ منہم لہ عذاب عظیم “ تک فرمایا کیا اس کی نظر جاتی نہیں رہتی تھی اور اس کو ہانکا نہیں گیا تھا تلوار کے ساتھ یہاں تک کہ حضرت عائشہ ؓ اس وار کا ارادہ کر رہی تھیں جو صفوان بن معطل نے خاص طور پر اس پر کیا تھا جب صفوان کو یہ خبر پہنچی کہ حسان نے بھی اس بارے میں بات کی ہے تو اس نے تلوار کے ساتھ اس پر حملہ کردیا اور قریب تھا کہ اس کو قتل کردیتا۔ 28۔ محمد بن سعد نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ عائشہ ؓ حسان ؓ کو اجازت دیتی تھیں اور ان کے لیے تکیہ منگواتی تھیں اور فرماتی تھی۔ حسان کو تکلیف نہ پہنچاؤ کیونکہ وہ اپنی زبان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی مدد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ” والذی تولی کبرہ منہم لہ عذاب عظیم “ اور حضرت حسان نابینا ہوگئے تھے اور اللہ تعالیٰ قادر ہے اس عظیم عذاب کو ان کے حق میں ان کا اندھا پن بنادے۔ 29۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” والذی تولی کبرہ “ سے مراد وہ شخص ہے جس نے اس عمل کو شروع کیا۔ 30۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” والذی تولی کبرہ “ سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول ہے جو اس واقعہ کو آگے پھیلاتا تھا۔ ل 31۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سیر وایت کیا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ جس نے اس میں بڑا حصہ لیا وہ صحابی ہیں نبی ﷺ کے اصحاب میں سے ان میں سے ایک قریش میں سے ہے اور دوسرا انصار میں سے ہے انصار میں عبداللہ بن ابی سلول منافق تھا جب کوئی شر پھیلتا تو عبداللہ بن ابی کی ہی سردار اور قیادت ہوتی۔ 32۔ عبد بن حمید نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ عائشہ ؓ حسان بن ثابت ؓ کو اجازت دیتی تھیں اور ان کے لیے تکیہ رکھتی تھیں اور فرماتی تھیں حسان کے لیے خیر کے سوا کچھ نہ کہو کیونکہ وہ نبی ﷺ کی طرف سے کافروں کا رد کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے آیت ” والذی تولی کبرہ منہم لہ عذاب عظیم۔ اور وہ نابینا ہوگئے تھے اور ان کا اندھا پن ہی عذاب عظیم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ قادر ہیں کہ وہ عذاب عظیم اس چیز کو بنادے اور حضرت حسان کو بخش دے اور اس کو جنت میں داخل کرید۔ 33۔ سعید بن منصور وابن مردویہ نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ ؓ کی قراء ۃ میں آیت ” والذی توللی کبرہ منہم لہ عذاب عظیم “ ہے۔
Top