Madarik-ut-Tanzil - Al-Ankaboot : 12
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
اور جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے طریق کی پیروی کرو ہم تمہارے گناہ اٹھا لیں گے حالانکہ وہ ان کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ اٹھانے والے نہیں کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں
12: وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ ٰامَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا (اور کافروں نے مؤمنوں کو کہا ہماری راہ پر چلو) ۔ تو ہم تمہارے جرائم وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ (ضرور اپنے اوپر اٹھا لیں گے) ۔ کفار نے مسلمانوں کو اپنے کفریہ راستے پر چلنے کا امر کیا اور اپنے بارے میں ان کے گناہوں کی ذمہ داری قبول کرنیکا حکم دیا۔ امر کا عطف امر پر کیا گیا۔ مقصد کفار کا یہ تھا کہ یہ دونوں امر حاصل ہونے چاہئیں۔ نمبر 1۔ ہمارے راستے کی پیروی۔ نمبر 2۔ تمہاری خطائوں کو اپنے سر لینا۔ حاصل یہ ہوا کہ اگر تم ہمارے راستہ کی اتباع کرو گے تو تب ہم تمہارے گناہوں کو اٹھالیں گے۔ کفار قریش یہی کہتے تھے۔ جو شخص ان میں سے اسلام قبول کرتا۔ ہم اور تم اٹھائے نہیں جائیں گے اگر اٹھائے بھی گئے تو ہم تمہارے گناہ اپنے سر لے لیں گے۔ وَمَا ہُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰہُمْ مِّنْ شَیْئٍ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ (اور وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی نہ اٹھائیں گے۔ واقع میں وہ جھوٹے ہیں) ۔ کیونکہ وہ بات زبانوں سے تو کہہ رہے ہیں مگر ان کے اپنے دل اس کو نہیں مانتے یہ ان جھوٹوں کی طرح ہیں جو کسی چیز کو شمار کرتے ہیں مگر ان کے دل میں نیت اس کے خلاف ہوتی ہے۔
Top