Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 15
هٰۤؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً١ؕ لَوْ لَا یَاْتُوْنَ عَلَیْهِمْ بِسُلْطٰنٍۭ بَیِّنٍ١ؕ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًاؕ
هٰٓؤُلَآءِ : یہ ہے قَوْمُنَا : ہماری قوم اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنا لیے مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اٰلِهَةً : اور معبود لَوْ : کیوں لَا يَاْتُوْنَ : وہ نہیں لاتے عَلَيْهِمْ : ان پر بِسُلْطٰنٍ : کوئی دلیل بَيِّنٍ : واضح فَمَنْ : پس کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جو افْتَرٰى : افترا کرے عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ كَذِبًا : جھوٹ
(پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا) ” یہ ہماری قوم تو رب کائنات کو چھوڑ کر دور سے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے ؟ آخر اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے ؟
ھولآء قومنا اتخذوا من دونہ الھۃ لولا یاتون علیھم بسلطن بین (81 : 51) ” یہ ہماری قوم تو رب کائنات کو چھوڑ کر دور سے خدا بنا بیٹھی ہے ، یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی بین دلیل کیوں نہیں لاتے۔ “ اسلامی نظریہ حیات میں یہ بات عقیدے کا حصہ ہے کہ انسان جو موقف اختیار کرے اس پر اس کے پاس دلیل بین ہو۔ ایسی دلیل ہو جو دل کو لگتی ہو ، اور عقل اسے تسلیم کرتی ہو ، اگر ایسا نہیں ہے تو وہ کذب اور افتراء ہے اور یہ چونکہ کذب علی اللہ ہے ، اس لئے یہ زیادہ گھنائونا جھوٹ ہے۔ فمن اظلم ممن افتری علی اللہ کذباً (81 : 51) ” آخر اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ “ یہاں تک تو اسے قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کا موقف واضح ، صریح اور دو ٹوک ہے ، اس میں کوئی تردد یا کوئی توقف نہیں ہے۔ یہ نوجوان ہیں ، جسمانی لحاظ سے بھی قوی ہیں ، ایمان میں بھی شدید ہیں اور قوم جس غلط راہ پر چل رہی ہے ، اس سے بھی انہیں سخت نفرت ہے۔ دو گروہوں کی راہیں مختلف ہوچکی ہیں ، ان کی زندگی کے طریقے ایک دوسرے سے جدا ہوچکے ہیں ، اب دونوں کے باہم ملنے کے لئے کوئی موقف نہیں ہے۔ ان دونوں کی زندگیاں ایک جگہ نہیں گزر سکتیں۔ لہٰذا صرف ایک راہ رہ جاتی ہے وہ یہ کہ یہ نوجوان اپنے نظریات کو لے کر ہجرت کر جائیں ، یہ اپنی قوم کی طرف رسول بنا کر نہ بھیجے گئے تھے تاکہ وہ اپنی قوم کا مقابلہ کریں۔ اپنے نظریات پر جم جائیں ، غلط نظریات کے مقابلے میں صحیح نظریات پیش کریں۔ ان کو دعوت دیں اور اس انجام تک پہنچیں جن تک رسول پہنچتے ہیں بلکہ وہ کچھ نوجوان تھے ، کافرانہ ماحول میں ان کو ایمان کی روشنی مل گئی تھی۔ اگر وہ ایسے ماحول میں اپنے عقائد کا اظہار کرتے ہیں تو اس معاشرے میں ان کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ صورت حال یہ تھی کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ مقابلہ بھی نہ کرسکتے تھے ، خود قوم کی راہ پر بھی نہ جاسکتے تھے ، قوم کو اپنی راہ پر نہ لا سکتے تھے ، نہ وہ تقیہ کر کے ان کے غلط الہوں کی عبادت کرسکتے تھے اور نہ اپنی عبادت کو چھپا سکتے تھے بلکہ راجح بات یہ ہے کہ ان کے عقائد و نظریات کے بارے میں کافروں کو علم ہوچکا تھا۔ اس لئے ان کے لئے صرف ایک ہی راہ رہ گئی تھی کہ وہ اپنے دین اور نظریات کو لے کر بھاگ نکلیں اور شہر میں پر آسائش زندگی بسر کرنے کے بجائے کسی غار میں جا چھپیں۔ انہوں نے باہم مشورہ کیا اور یہ فیصلہ کیا :
Top