Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
(ذرا ان کو وہ قصہ سنائو جو موسیٰ کو پیش آیا تھا) جبکہ موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ ” میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک دونوں دریائوں کے سنگم پر نہ پہنچ جائوں ، ورنہ میں ایک زمانہ دراز تک چلتا ہی رہوں گا۔
درس نمبر 331 ایک نظر میں اس سبق میں حضرت موسیٰ السلام کی سیرت کا جو گوشتہ بیان ہوا ہے وہ صرف اسی سورت کے اسی مقام پر مذکور ہے۔ قرآن میں کسی دوسری جگہ اس کا ذکر نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس مقام کا بھی تعین نہیں فرمایا صرف یہ کہا ہے کہ وہ مجمع البحرین ہے۔ نیز اس واقعہ کی تاریخ بھی متعین نہیں ہے کہ آیا تو کہاں اور کس وقت پیش آیا بیت المقدس پر حملے کے وقت سے پہلے آیا یا بعد میں۔ جب موسیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ بیت المقدس میں داخل ہوں تو انہوں نے داخل ہونے سے انکار کردیا تھا اور یہ کہا تھا کہ وہاں جبار قوم بستی ہے اور قابض ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ واقعہ اس دور میں پیش آیا جب یہ صحرا نور دی کر رہے تھے۔ قرآن ریم نے اس بندئہ صالح کے بارے میں بھی تفصیلات نہیں دی ہیں جن سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ملنے گئے تھے۔ یہ کون تھے ؟ ان کا نام کیا تھا ؟ یہ نبی تھے ؟ رسول تھے ؟ کوئی عالم دین تھے ؟ یا کوئی ولی تھے ؟ اس قصے کے بارے میں حضرت ابن عباس اور ان کے علاوہ دوسرے حضرات سے بہت سی روایات وارد ہیں لیکن ہم صرف قرآن مجید کے بیان تک اپنے آپ کو محدود رکھیں گے تاکہ ہم قرآن ہی کے سایہ میں رہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ جس انداز میں اس قصے کو قرآن نے دیا ہے اس میں اس کی تاریخ بھی نہیں دی ، نام بھی نہیں دیئے ، جگہ کا تعین بھی نہیں کیا ، اس میں کوئی خاص حکمت ہوگی۔ لہٰذا ہم بھی اس قدر معلومات پر اکتفاء کرتے ہیں جس قدر قرآن نے دے دی ہے۔ (1) 1۔ بخاری میں ہے ۔ سعید ابن جبیر نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ جو موسیٰ حضر سے ملے وہ موسائے بنی اسرائیل نہ تھے۔ ابن عباس نے فرمایا وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ہمیں ابی بن کعب نے حضور سے سن کر بتایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سامنے خطبہ دے رہے تھے تو ان سے پوچھا گیا کہ کون زیادہ علم رکھتا ہے تو موسیٰ نے کہا میں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کو غصہ آیا کیونکہ موسیٰ نے اپنے علم کو اللہ کی طرف منسوب نہ کیا۔ تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی بتایا کہ مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ حضرت موسیٰ نے سوال کیا کہ اے اللہ میں اس سے کیسے مل سکتا ہوں۔ اللہ نے فرمایا تم اپنے پاس ایک مچھلی کو تھیلے میں رکھ لو ، جہاں تم نے مچھلی کو گم کردیا بس وہ جگہ ہوگی اس بندئہ صالح کی۔ مجمع البحرین سے کون سی جگہ مراد ہے ، غالب یہ ہے کہ شاید بحر روم اور بحر قلزم کے درمیان کوئی جگہ یا بحر اسود یا بحر احمر کے درمیان کوئی جگہ ہے۔ ان کا مقام التقاء بحیرہ مرہ یا بحیرہ تساح ہو سکتا ہے یا خلیج عقبہ اور خلیج سویس کے اجتماع کی جگہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بحر احمر کی دو شاخیں ہیں۔ کیونکہ یہی وہ جگہ تھی جہاں خروج کے بعد بنی اسرائیل چلتے پھرتے رہے۔ بہر حال قرآن کریم نے اس بات کو مجمل چھوڑ دیا ہے ۔ ہم بھی فقط یہی اشارہ کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔ (1) قصے کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک خاص ہدف تھا۔ جہاں تک انہوں نے پہنچنے کا عزم کر رکھا تھا۔ آپ کے پیش نظر کوئی خاص مطلب تھا۔ کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ آپ مجمع البحرین تک ضرور پہنچیں گے چاہے اس سفر میں زیادہ مشقت درپیش ہوا اور چاہے اس میں زیادہ عرصہ لگ جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس تعبیر او امضی حقباً (81 : 06) ” ورنہ میں زمانہ دراز تک چلتا رہوں گا۔ “ حقب کے معنی ایک سال کے ہیں یا بعض اقوال کے مطابق 08 سال کے ہیں۔ بہرحال مقصد یہ ہے کہ وہ بہرحال مجمع البحرین تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ کوئی متعین زمانہ مراد نہیں ہے۔ (1) قتادہ وغیرہ نے کہا کہ اس سے مراد بحر فارس ہے جو شرق کی جانب سے اور بحر روم ہے جو مغرب کی جانب سے قریب ہے۔ محمد ابن کعب قرظی نے کہا ہے کہ مجمع البحرین بلاد مغرب میں طبخہ کے قریب ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اقوال مستبعد ہیں۔
Top