Tafseer-e-Haqqani - An-Noor : 30
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
قُلْ : آپ فرما دیں لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومون مردوں کو يَغُضُّوْا : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظُوْا : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں ذٰلِكَ : یہ اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : باخبر ہے بِمَا : اس سے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
(اے نبی ! ) ایمانداروں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کو بھی محفوظ رکھیں۔ یہ ان کے حق میں ستھرائی ہے بیشک اللہ جانتا ہے جو کچھ کہ وہ کیا کرتے ہیں
ترکیب : من ابصارھم من ھھنا للتبعیض لانہ لایلزم غض البصربالکلیۃ وقلیل زائدۃ وقیل لبیان الجنس، غیراولی الاربۃ ای الحاجۃ بالجر علی الصفۃ اوالبدل۔ تفسیر : منجملہ اساب زنا کے مرد کا عورت کو اور عورت کا مرد کو دیکھنا بھی ہے۔ یہ نظر زنا کا بڑا سبب ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ ع برق نگاہ یار میرا کام کرگئی۔ اس لیے ایمانداروں کو ادب سکھاتا ہے۔ قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم الخ یہ پانچواں حکم ہے کہ اے نبی ایمانداروں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ کو بند رکھیں جس کا دیکھنا انہیں حلال نہیں اس کو نہ دیکھیں اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا اجنبی عورت کا بضرورت منہ اور ہاتھ دیکھنا تو درست ہے اور باقی چیزوں پر نظر کرنا حرام ہے اور بغیر ضرورت اجنبیہ کا چہرہ دیکھنا بھی درست نہیں خصوصاً جبکہ محل فتنہ ہو اور جو اچانک نظر پڑجائے تو باردگر نہ دیکھے اور اجنبیہ اگر اور کی لونڈی ہے تو بعض کہتے ہیں ناف سے گھٹنے تک پر نظر نہ کرے باقی کا مضائقہ نہیں بعض کہتے ہیں وہ سر وغیرہ جو عضو کام میں کھولے رہتے ہیں ان کا دیکھنا ممنوع نہیں باقی ممنوع ہے۔ اور عورت اگر محرم ہے خواہ نسب سے خواہ رضاع سے خواہ بیوی کے رشتہ سے تو اس کے ناف سے لے کر گھٹنے تک نظر ممنوع ہے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک صرف وہی اعضا دیکھنا درست ہیں جو کام میں کھل جاتے ہیں ہاتھ بازو وغیرہ اور مرد کی بابت بھی یہ حکم ہے کہ ناف سے لے کر گھٹنے تک نہ دیکھے۔ اس طرح عورت کو دوسری عورت کا ناف سے گھٹنے تک دیکھنا منع ہے۔ عرفا کہتے ہیں جس طرح نظر کو محارم کے دیکھنے سے بند کرے اسی طرح دل کو غیر اللہ کے دیکھنے سے روکے۔ پھر فرماتا ہے ویحفظوا فروجہم کہ اپنے ستر کو محفوظ رکھیں یعنی حرام کاری نہ کریں یہ تمہارے لیے دین و دنیا میں بہتر ہے ان اللہ خبیر بما یصنعون میں تنبیہ ہے کہ اللہ کو غافل نہ سمجھو وہ تمہارے ہر کام سے واقف ہے۔ وقل اللمؤمنات الخ اسی طرح ایماندار عورتوں کو بھی نظر بند رکھنے اور حرام سے محفوظ رہنے کا حکم دیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی (چھٹا) حکم دیا کہ اپنی زینت کو بجزان اشخاص مذکورہ ذیل کے اور کسی کو نہ دکھائیں۔ اور اوڑھنی اوڑھے رہو جس سے سر اور سینہ اور کان اور گردن نہ دکھائی دے۔ یہ جو فرمایا اپنی زینت نہ دکھائیں مگر وہ جو ظاہر ہے۔ زینت کہتے ہیں خوبصورتی کو قدرتی ہو یا بناوٹی۔ لباس فاخرہ یا زیور یا مہندی کا جل وغیرہ ان میں سے صرف ظاہر زینت کے ظاہر کرنے کی اجازت دی۔ ظاہر زینت بناوٹی میں سے تو انگوٹھی کپڑا جس کے ظاہر کرنے کی ضرورت پڑے اور خلقی میں سے ہاتھ منہ جو بضرورت ظاہر کرنا پڑے بعض علماء کہتے ہیں زینت سے مراد وہ اعضاء ہیں جن پر زیور پہنا جاتا ہے۔ اور وہ یہ اشخاص ہیں شوہر ‘ عورت کا باپ ‘ دادا، نانا ‘ شوہر کے باپ ‘ دادا ‘ نانا ‘ عورتوں کے بیٹے ‘ پوتے ‘ نواسے ‘ خاوند کی دوسری بیوی کے بیٹے ‘ پوتے ‘ نواسے ‘ عورت کے بھائی ‘ عینی ‘ علاتی، اخیافی، رضائی عورت کے بھتیجے، بھائیوں کی اولاد ‘ عورت کے بھانجے ‘ بہن کی اولاد ‘ گھر کی عورتیں ‘ عورت کی مملوکہ لونڈی ‘ غلام ‘ گھر کے وہ خادم جن کو عورتوں کی طرف رغبت نہ ہو ‘ بوڑھے اور خواجہ سرا ‘ نابالغ لڑکے ‘ ان لوگوں کے سامنے اگر عورت اپنی زینت ظاہر کرے تو مضائقہ نہیں یعنی زینت ظاہرہ کے سوا اور زینت کیونکہ بضرورت اس کا تو ہر ایک پر ظاہر کرنا درست تھا۔ وہ زینت ظاہرہ جس کی بضرورت اظہار کے ہر ایک کے لیے رخصت تھی باتفاق علماء چہرہ اور دونوں ہاتھ یا بالائی کپڑے مراد ہیں اور اس جگہ جس زینت کے ظاہر کرنے کی ان مذکورہ اشخاص کے سامنے اجازت ہے وہ بازوؤں ‘ گلے ‘ کانوں سر کے زیور کی ہے اور ان اعضاء کا کھولنا بھی ان کے سامنے جائز ہے ونسائہن اپنی عورتیں کیونکہ کافر عورتیں بمنزلہ اجانب کے ہیں بعض کہتے ہیں کافرہ عورتوں کے سامنے ان چیزوں کا کھولنا درست ہے۔ وما ملکت ایما نہن میں غلام لونڈی سب آگئے مگر امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں صرف لونڈیاں مراد ہیں کیونکہ غلام اجنبی ہے اس میں مادہ شہوت بھی موجود ہے آزاد ہو کر اس سے نکاح بھی کرسکتا ہے۔ التابعین غیر اولی الاربۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں عورت کی بالکل خواہش نہیں۔ بعض کہتے ہیں وہ بیوقوف عنین مراد ہیں جو کھانے میں ساتھ ہو لیتے ہیں ان کا صرف یہی مقصود ہوتا ہے مخنث اور ہیجڑے مراد نہیں۔ 3 ؎ کیونکہ ان میں سے شوہر کو تو دکھانا مقصود ہی ہے اور باقی اور لوگ گھر میں ملے جلے رہا کرتے ہیں ہر وقت ان سے اخفاء میں حرج تھا اور نیز ان سے برے کام کی توقع بھی عادتاً نہیں ہے کیونکہ محارم ہیں یا ان کو مادہ ہی نہیں۔ 12 منہ
Top