Tafseer-e-Haqqani - An-Noor : 55
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْئًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
وَعَدَ اللّٰهُ : اللہ نے وعدہ کیا الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں سے وَعَمِلُوا : اور کام کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ : وہ ضرور انہیں خلافت دے گا فِي الْاَرْضِ : زمین میں كَمَا : جیسے اسْتَخْلَفَ : اس نے خلافت دی الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے وَلَيُمَكِّنَنَّ : اور ضرور قوت دے گا لَهُمْ : ان کے لیے دِيْنَهُمُ : ان کا دین الَّذِي : جو ارْتَضٰى : اس نے پسند کیا لَهُمْ : ان کے لیے وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ : اور البتہ وہ ضرور بدل دے گا ان کے لیے مِّنْۢ بَعْدِ : بعد خَوْفِهِمْ : ان کا خوف اَمْنًا : امن يَعْبُدُوْنَنِيْ : وہ میری عبادت کریں گے لَا يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک نہ کریں گے بِيْ : میرا شَيْئًا : کوئی شے وَمَنْ : اور جس كَفَرَ : ناشکری کی بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد فَاُولٰٓئِكَ هُمُ : پو وہی لوگ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان (جمع)
اللہ نے تم میں سے ایمانداروں اور اچھے کام کرنے والوں کے لیے وعدہ کرلیا ہے کہ ان کو ضرور ملک کی خلافت (حکومت) عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی اور جس دین کو ان کے لیے اسے پسند کیا ہے ان کے لیے اس کو ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا وہ (باطمینان) میری عبادت کیا کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کریں گے۔ اور جو کوئی اس کے بعد بھی ناشکری کرے سو وہی فاسق ہیں۔
ترکیب : یستخلفنھم ہو جواب قسم مضمر ای وعدھم واقسم لیستخلفنہم یعبدوننی حال من الذین اواستیناف، لایشرکون حال من الواو ای یعبد وننی غیر مشرکین۔ تفسیر : پہلے فرمایا تھا کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں وہی فلاح پاویں گے وہی کامیاب ہوں گے۔ آخرت کی کامیابی تو متعدد مقامات پر بیان ہوچکی تھی اب یہاں دنیا کی کامیابی بیان فرماتا ہے بقولہ وعداللہ الخ اور اس وعدہ کے بعد پھر ان مسلمانوں کو کہ جن کے لیے خلافت و امامت اور زمین پر حکومت و شوکت کا وعدہ کیا ہے واقیمو الصلوۃ واتوا الزکوۃ الخ کا حکم دیتا ہے کہ زمین پر اقتدار پاکر اور سلطنت و شوکت حاصل کر کے بنی اسرائیل کی طرح خدا اور اس کے رسول سے برگشتہ نہ ہوجانا بلکہ نماز و روزہ اور جمیع امور میں اس کے احکام کی پابندی کرنا جن کی طرف واطیعوا الرسول میں اجمالاً اشارہ ہے تاکہ تم پر رحم کیا جاوے ورنہ قہر الٰہی میں مبتلا ہوجائوگے شوکت و سلطنت چھین لے جائے گی اور جو دنیا میں اقتدار پا کر خدا سے سرتابی کرتے ہیں اور تکبر میں آکر دین کی پروا نہیں کرتے ان کو نہ یہ سمجھو کہ وہ خدا کے قبضے میں نہیں رہے۔ دنیا میں بھی وہ رسوا ہوں گے اور آخرت میں بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور نیز اس فقرہ لاتحسبن الخ میں مسلمانوں کو تسلی دیتا اور اپنی وعدہ خلافت کا وثوق ظاہر کرتا ہے کہ اے مسلمانو ! آج جو تم کفار سے دبے ہوئے ہو اور تمہارے مقابلہ میں روم و ایران وغیرہ بڑی بڑی سلطنتیں ہیں یہ سب ہمارے بس میں ہیں ان کو ہم مغلوب و مقہور کرنے پر قادر ہیں۔ پیشین گوئی : حاکم نے بسند صحیح نیز طبرانی نے بھی ابی ابن کعب ؓ سے (اس آیت کے شان نزول میں) یوں روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائے تو تمام تر عرب دشمن ہوگیا۔ مسلمان ہر وقت خوف کی حالت میں ہتھیاربند رہا کرتے تھے اور آرزو کیا کرتے تھے کہ کبھی ایسے بھی دن آئیں گے کہ ہم بھی امن سے رات کو سویا کریں گے کہ بجز خوف خدا اور کسی کا خوف نہ ہوگا ایسی حالت میں ان کی تسلی دینے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ خصوصاً جنگ احزاب میں تو مسلمانوں پر ازحد تکلیف اور سخت خوف و ہراس تھا۔ ابوالعالیہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے اور ابن ابی حاتم نے بھی ایسا ہی کچھ نقل کیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس وقت کے مسلمانوں سے جو نیک تھے بطور پیشین گوئی یہ وعدہ کرتا ہے کہ ہم ان کو زمین پر اس طرح سے خلیفہ کریں گے یعنی سلطنت و حکومت دیں گے کہ جس طرح تم سے پہلوں کو دی تھی۔ حضرت سلیمان و دائود (علیہما السلام) وغیرہ کو اور ان کے حق پسند دین پر ان کو قادر کردیں گے کہ آزادی سے وہ اپنے مذہب کی پابندی کریں گے ‘ کسی کی روک ٹوک نہ ہوگی ہر طرح سے اس مذہب کے پھیلانے پر قادر ہوں گے اور خوف جو ان کو دشمنوں کا رہتا ہے اس کو دور کر کے اس کے بدلہ میں دیں گے۔ کسی سے نہ ڈریں گے کہ دین کو مخفی کریں۔ یعبدوننی میری عبادت کیا کریں گے اور میرا کسی کو شریک نہ کریں گے یعنی بےکھٹک عبادت و توحید کو بجا لائیں گے اور نیک ہوں گے اور جو اس کے بعد ناشکری کرے گا وہ فاسق ہے اس پر حمایتِ الٰہی کا ہاتھ نہ رہے گا۔ صدق اللہ العلی العظیم۔ اس نے یہ وعدہ پورا کیا آنحضرت ﷺ کو جنگ احزاب کے بعد غلبہ دیا اور پھر آپ کے بعد حضرت ابوبکر و عمر و عثمان و علی ؓ کے عہد خلافت میں تنہا عرب بلکہ روم و ایران وغیرہ سرسبز سلطنتیں بھی ان کے ہاتھ میں دیں اور نہایت امن کے ساتھ ان کے زمانوں میں دین اسلام کی اشاعت و ترقی ہوئی۔ خلافت خلفاء اربعہ کا ثبوت : اس آیت سے خلفاء اربعہ کی خلافت کا برحق ہونا صاف صاف ثابت ہوتا ہے۔ خوارج کا قول باطل ہے جو وہ حضرت عثمان و علی ؓ کو خارج کرتے ہیں۔ اسی طرح شیعہ کا قول بھی غلط ہے جو وہ خلفائِ ثلثہ کو خارج سمجھتے ہیں کیونکہ فتوحات اسلام تو انہیں حضرات کے عہد میں ظہور میں آئیں اور حضرت علی ؓ ان کے عقیدہ کے موافق تقیہ کرتے تھے ان کو امن حاصل نہ ہوا وہ اس آیت کے مصداق ہو نہیں سکتے اور اسی طرح باقی آئمہ اطہار کو تو سرے سے حکومت ہی نہیں ملی اور وہ بھی خوف سے تقیہ کرتے رہے ان کے مہدی تو آج تک ڈر کے مارے کسی غار میں چھپے بیٹھے ہیں۔ افسوس بعد میں مسلمانوں نے فسق و فجور اختیار کیا وہ شوکت و قوت بھی ان کی نہ رہی اور اب بھی باز نہیں آتے۔ مسلمانوں کی ترقی اور قومی شوکت کا یہی سبب ہے جس سے آج کل کے ریفارمر غافل ہو کر اور اسباب ترقی تلاش کر رہے ہیں۔ اللہم ارحم المسلمین واھدرئوسائہم۔
Top